qadr-kia-hey-asan-alfaz-me



 سورہ القدر، سورہ العلق کے بعد آتی ہے۔ 

مطلب یہ اشارہ دیا گیا کہ یہ تو پہلی وحی ہے آپ کے اوپر۔ یعنی العلق کی پانچ آیات۔ اصل میں ہم نے پورا کا پورا قرآن سماء الدنیاء کے بیت العزت پر۔ حاملین وحی فرشتوں کے ذریعے اتار دیا یے۔ وہاں سے اب جبرئیل تھوڑا تھوڑا کر کے آپ کے اوپر لاتے رہیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔

اصل میں تو پورا قرآن، کائنات کی تخلیق سے پہلے انسان کی تخلیق سے پہلے لکھ دیا گیا تھا لوح محفوظ پر۔ 

بس قدر کی رات میں، اس منصوبے کا فانئل مرحلہ ہوا۔ وہ یہ وہ سارا کا سارا قرآن لوح محفوظ سے حاملین وحی فرشتے نیچے سماء الدنیاء پر لے آئے۔ 

۔۔۔۔۔

یہ بات بھی طے ہے کہ پہلی وحی بھی لیلةالقدر ہی کی رات کو غار حراء میں نازل ہوئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔ 

قدر کے دو معنی لیے گئے ہیں۔ 

کھلونوں کی جنگ اور عقل منڈ ڈائنوسار ۔ 8

 


رات کے دس بج چکے تھے۔ آج ننھے بلاکس کے گھر دعوت تھی۔ اے بی سی والے بلاکس سبزیوں والے نوڈلز بنانے کے لیے بہت پرجوش تھے۔ لیکن انہیں کچھ دیر اور انتظار کرنا پڑا۔ 

"زوں زوں زوں ں ں ں!" 

دکان کے دروازے کے باہر ایک ٹرک آ کر رک گیا۔  سب کھلونے بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔ دکان کا مالک اور دونوں ملازم ٹرک سے نئے ڈبے اتارتے گئے اور شوکیس کے پاس رکھتے گئے۔ پھر ایک ملازم نے ان نئے ڈبوں سے کچھ عیجب سے کھلونے نکالے۔ کچھ تو نیلے رنگ کے بدنما سے فوجی تھے جن کے سروں پر چھ کونوں والی سفید اور نیلی ٹوپیاں تھیں۔ ان سب کے ہاتھوں میں پستولیں تھیں۔

ایک اور ڈبے سے ایک خوبصورت سی مسجد  نکلی۔ اس کے اوپر ایک سرمئی اور ایک زرد رنگ کا گنبد بہت اچھا لگ رہا تھا۔ 

Ghaza , غزہ کے لیے کیا کریں؟


 

مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت 57 ملکوں کے سربراہان اور ان کی افواج کیا سوچ رہی ہیں؟ ہمارے ملک میں کہا جاتا ہے کہ قتال و جہاد صرف اہل اقتدار کی مرضی سے ہونا چاہیے۔ سو سب دینی و سیاسی راہنما ابھی تک بیانات یا امداد کی حد تک محدود ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے دنیا میں اس وقت کوئی مسلمان نہیں بچا۔ جو ہیں وہ فلسطین میں شہید ہو رہے ہیں بس۔ وہی ہیں مسلمان۔ باقی روئے زمین پر کوئی بھی مسلمان موجود نہیں یا کوئی ایک بھی مسلمان حکمران موجود نہیں جو اس قتل عام کو روک سکے۔ اگر واقعی میں کوئی اصل مسلمان ہوتا اس وقت تو اسرائیل کی یہ جرات ہوتی کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو شہید کرے؟ ان کا کھانا پانی بند کرے اور انہیں ایک ایک نوالے کا محتاج بنائے؟

آخری ترکی خلیفہ عبدالحمید یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا میں فلسطین کا ایک ذرہ بھی ان یہودیوں کو نہیں دوں گا۔

یہاں میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ یا تو آپ ظالم کا ہاتھ روکنے والوں میں سے ہوتے ہیں یا پھر ساتھ دینے والوں میں سے۔ ہم جو بس خاموش ہیں جان لیں کہ ہم ظالم ہیں۔ ہم جو اپنے آپ کو نیوٹرل ظاہر کر رہے ہیں جان لیں کہ ہم قاتل ہیں۔
یا آپ قاتل ہوتے ہیں یا پھر قتل ہونے والے۔ یا آپ ظالم ہوتے ہیں یا پھر وہ جن پر ظلم کیا جا رہا ہو۔ کیا ہم پر اس وقت ظلم کیا جا رہا ہے؟ نہیں۔
کیا ہم فلسطین کے قتل عام کو روک رہے ہیں؟ نہیں۔ اس کا مطلب ہم قاتل ہیں۔

ننھے بندر اور زرافہ


 

ایک جنگل میں بندروں کی ایک ٹولی رہتی تھی ۔ اس ٹولی میں دو بچّے بھی تھے ، جو اتنے شرارتی تھے کہ ان کے ماں باپ بھی ان سے بہت زیادہ تنگ آگئے تھے۔

اسی جنگل میں ایک ننھا زرافہ بھی رہتا تھا۔ وہ بہت ہی سیدھا سادا اوربھولا بھالا تھا۔ ایک مرتبہ چرتے چرتے وہ جنگل کے اس حصے میں آگیا جہاں بندروں کی یہ ٹولی درختوں سے پتّے اور پھل فروٹ توڑ توڑ کر کھانے میں مگن تھی ۔دونوں چھوٹے شرارتی بندروں نے زرافہ کو دیکھا تو انھیں حیرت ہونے لگی ۔ کیوں کہ ان بندروں نے کبھی ایسا کوئی بھی جانور نہیں دیکھا تھا۔ 
بندر کے ایک بچّے نے کہا:’’ ارے! دیکھو تو کتنا عجیب و غریب جانور ہے ، آؤ اسے چھیڑتے اور ستاتے ہیں۔‘‘

شہزادے کی سمجھداری



(گلستانِ سعدی سے انتخاب)

 ایک شہزادہ کم صورت تھا اور اس کا قد بھی چھوٹا تھا۔ اس کے دوسرے بھائی نہایت خوبصورت اور اچھے ڈیل ڈول کے تھے۔ ایک بار بادشاہ نے بدصورت شاہزادے کی طرف ذلّت اور نفرت کی نظر سے دیکھا۔ شہزادہ نے اپنی ذہانت سے باپ کی نگاہ کو تاڑ لیا اور باپ سے کہا ’’اے ابّا جان! سمجھ دار ٹھگنا لمبے بیوقوف سے اچھا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ جو چیز دیکھنے میں بڑی ہے وہ قیمت میں بھی زیادہ ہو۔ دیکھیے ہاتھی کتنا بڑا ہوتا ہے، مگر حرام سمجھا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں بکری کتنی چھوٹی ہے مگر اس کا گوشت حلال

ہوتا ہے۔

ساری دنیا کے پہاڑوں کے مقابلہ میں طور بہت چھوٹا پہاڑ ہے لیکن خدا کے نزدیک اس کی عزت اور مرتبہ بہت زیادہ ہے (کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ نے اس پہاڑ پر خدا کا نور دیکھا تھا) کیا آپ نے سنا ہے کہ ایک دبلے پتلے عقلمند نے ایک بار ایک موٹے بیوقوف سے کہا تھا کہ اگر عربی گھوڑا کمزور ہو جائے تب بھی وہ گدھوں سے بھرے ہوئے پورے اصطبل سے اچھا اور طاقتور ہوتا ہے!

بادشاہ شہزادے کی بات سن کر مسکرایا، تمام امیر اور وزیر خوش ہوئے اور اس کی بات سب کو پسند آئی۔ لیکن شہزادے کے دوسرے بھائی اس سے جل گئے اور رنجیدہ ہوئے۔

کہانی: سونے کی چونچ



ماخوذ کہانی:  

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک جنگل میں ایک مینا اور ایک چڑیا رہتی تھیں۔ دونوں کی آپس میں بہت دوستی تھی۔ وہ مل کر کھیلتیں اور مل کر کام کرتیں۔ ایک دفعہ چڑیا اڑتے اڑتے دور جا نکلی۔ اسے پیاس لگی تو وہ ایک پہاڑ میں سے بہتے ہوئے چشمے سے ٹھنڈا پانی پینے لگی۔ اس پہاڑ میں سے چند قطرے اس کی چونچ پر آن پڑے۔ اسے اپنی چونچ بھاری بھاری محسوس ہونے لگی اس نے ادھر ادھر سر جھٹکا مگر چونچ پر پڑا وزن کم نہ ہو سکا۔ اس نے پہاڑ سے سوال کیا۔ ا ے پہاڑ میری چونچ پر آخر اتنا وزن کیوں ؟ پہاڑ بولا، ننھی چڑیا۔ میں سال میں ایک دفعہ روتا ہوں۔ میرے آنسو سونے کے ہوتے ہیں۔ جب تم نے پانی پیا۔ اتفاق سے میرے آنسوؤں کے چند قطرے تمہاری چونچ پر پڑے اور تمہاری چونچ کے اوپر سونے کا خول چڑھ گیا ہے۔ چڑیا گھر واپس لوٹ آئی۔

اگلے دن سب پرندے چڑیا کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ سونے کی چونچ کی چمک دمک ہی نرالی تھی۔ چڑیا سے سب سونے کی اس چونچ کا راز پوچھتے۔ چڑیا بھولی بھالی ساری کہانی سنا دیتی۔ جنگل میں چڑیا سونے کی چونچ والی مشہور ہو گئی۔ سب اس کی خوبصورتی کی تعریف کرنے لگے۔ باقی تمام چھوٹے پرندے بھی چڑیا سے دوستی کے خواہش مند ہو گئے۔

کہانی: چالاک ہرن

Kids Story No. 238 - Makhooz Kahani 


ماخوذ کہانی:

 چالاک ہرن نہ صرف اپنی پھرتی اورتیزی کی وجہ سے جنگل میں مشہور تھا بلکہ اپنے نام کی طرح بے حد چالاک بھی تھا۔ ایک دن وہ جنگل میں مزیدار پھلوں اور دوسری کھانے پینے کی چیزوں کے لےے گھوم رہا تھا۔ اگر چہ وہ بہت چھوٹا تھا مگر وہ بالکل بھی خوفزدہ نہیں تھا۔ اسے پتہ تھا کہ بہت سے بڑے بڑے جانور اسے اپنی خوراک بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لےے انہیں چالاک ہرن کو پکڑنا ہوگا جو قطعی نا ممکن تھا۔

اچانک چالاک ہرن کو کسی کے دہاڑنے کی آواز آئی۔ وہ یقینا ایک چیتا تھا۔
چالاک ہرن کیسے ہو تم؟ میں بہت بھوکا ہوں۔ میرے لےے کچھ کرو۔ دیکھو اگر تم چاہو تو میرے دو پہر کا کھانا بن سکتے ہو۔ لیکن چالاک ہرن بالکل چیتے کا کھانا نہیں بننا چاہتا تھا۔ آخر اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی اور اپنے ذہن سے کوئی ترکیب سوچنے لگا۔ اس نے ایک کیچڑ کا ڈھیر پڑا دیکھا۔
” لیکن چیتے میں تمہارے لےے کچھ نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ یہ آج بادشاہ کا کھاناہے اور اس کی حفاظت کررہا ہوں۔“
” یہ کیچڑ۔“ چیتے نے حیرانی سے کہا۔

لوک کہانی ۔ اگر ہم یکجان ہو جائیں

    

Kids Story 237 - Lok Kahani

 لوک کہانی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی صحرا میں چڑیوں کا ایک خاندان رہتا تھا۔ انھوں نے گھاس پھونس میں انڈے دیے تھے جن سے بچے نکل آئے تھے۔ ایک ہاتھی کا بھی اسی صحرا میں بسیرا تھا۔ ایک دن ہاتھی اپنی پیاس بجھانے کے لیے دریا کی طرف جا رہا تھا کہ گھاس سے گزرتے ہوئے وہ چڑیوں کے چند بچوں کو کچل کر آگے نکل گیا۔ جب چڑیوں کومعلوم ہوا تو انہوں نے  اس سانحے پر اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کرنا شروع کیا۔

ایک بولی: "قسمت میں یہی لکھا تھا۔" دوسری بولی: " کوئی چارہ نہیں، بس چلیں اور نباہ کریں۔" تیسری بولی: " دنیا ہمیشہ سے بدبختی کا گھر ہے۔" ایک چڑیا جو ان سب سے مختلف تھی اور بڑی بہادر تھی اور جس کا نام کاکُلی تھا، بولی: " مجھے آپ لوگوں کے ایک حرف سے بھی اتفاق نہیں۔ صحرا زندگی گزارنے کا ایک مقام ہے اور بہت عمدہ ہے۔ لیکن زندگی کے لیے حساب اور احتساب بھی لازمی ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی ہاتھی آیا اور چڑیا کے بچوں کو پاؤںتلے روندتا ہوا یہ جا وہ جا۔"

چڑیا ں بیک زبان بولیں۔ " واقعی اُسے ایسا نہیں کرنا چاہیئے لیکن فی الحال وہ ایسا ہی کر رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم یہاں سے ایسی جگہ کوچ کر جائیں جہاں ہاتھی نہ ہو۔"

کاکُلی بولی: " یہ نہیں ہو گا۔

فلسطینی بچے کی ڈائری - 4

 


Kids Story No. 236 - Diary of a Palestinian (Ghaza) Kid 

غزہ کے ایک بچے کی داستان:

اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھا ہوں۔ کل سے سوچ رہا ہوں۔ نہ پانی ہے نہ بجلی ہے نہ کچھ کھانے کی چیز۔ ان سب کے بغیر غزہ کے مسلمان زندہ رہ رہے ہیں۔ غاصب اسرائیلیوں نے سب کچھ چھین لیا ہے ۔ حتی کہ ہم اپنی بات کسی تک پہنچا بھی نہیں سکتے۔ بس یہ دو صفات چھین نہ سکے۔ وہ ہے ہماری بہادری اور ہماری غیرت ۔

یہ دونوں چیزیں باقی دنیا کے مسلمانوں کے پاس نہیں ہیں اگر چہ وہ بجلی پانی مزیدار کھانے اور مواصلات کے ذرائع کو انجوائے کر رہے ہیں۔

مسجد اقصی ٰ تو ہم ان غاصبوں کے پاس جانے نہیں دیں گےچاہے آپ ہم سے ہمارے والدین ہمارے بہن بھائی ہمارے گھر ہمارا سب کچھ لے لیں۔ جیسے کہ میرے چھوٹے بہن بھائی اس ملبے کے نیچے دفن ہیں جہاں میں بیٹھا ہوں۔ میں سینہ تان کر کہتا ہوں۔ مسجد اقصیٰ ہماری ہے۔ اسرائیلی قبضے میں نہ جانے دیں گے جب تک خون کا آخری قطرہ جسم میں موجود ہے۔

آپ اسرائیلی فوجیوں کی تربیت کااندازہ لگائیں۔ و ہ ہسپتالوں پر بھی بم برسا رہے ہیں جہاں زخمی اور مردہ لوگ فرش پر پڑے ہیں۔ جہاں کی سفید ٹائلوں پربے تحاشا سرخ خون ایسے بہہ رہا ہے جیسے یہ کوئی ذبح خانہ ہو۔ پتہ نہیں ا ب ایسے ہسپتالوں پر بم برسانے کا کیا فائدہ ہو رہا ہے اسرائیل کو۔ شاید وہ فلسطینیوں کے خون سے بھی خوفزد ہ ہے یا شاید اس کو لگتا ہے فلسطینی مردہ ہو کر بھی اس کا گریبان پکڑنے آجائیں گے۔

غزہ کی صورتحال ۔ 16 حقائق

 

Facts and Figures

حقائق


حضرت ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنه سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ثوبان رضی الله تعالیٰ عنه سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ثوبان! اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب تمہارے خلاف دنیا کی قومیں ایک دوسرے کو ایسے دعوت دیں گی جیسے کھانے کی میز پر دعوت دی جاتی ہے؟
حضرت ثوبان رضی الله تعالیٰ عنه نے عرض کیا یا رسول اللهﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا اس وقت ہماری تعداد کم ہونے کی بنا پر ایسا ہوگا؟
فرمایا نہیں بلکہ اس وقت تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی لیکن تمہارے دلوں میں وہن " ڈال دیا جائے گا صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول الله ﷺ وہن کیا چیز ہے؟ فرمایا دنیا سے محبت اور جہاد سے نفرت.
(مسند الإمام أحمد بن حنبل،ج،١٤،ح،٨٧١٤،ص،٣٢٣،مؤسسة الرسالة)
...................................

1.   آٹھ اکتوبر2023 سے جو بربریت کا سلسلہ فلسطین میں جاری ہے، اس کو ابھی ایک پورا مہینہ نہیں ہوا ہے اور سات ہزار سے زیادہ لوگ شہید ہو چکے ہیں۔

2.   ایکسپریس نیوز کے مطابق اسرائیل کی غزہ سمیت فلسطینی علاقوں میں شدید بمباری سے مزید سیکڑوں شہید ہوگئےہیں۔

3.   غزہ کا دنیا سے رابطہ بدستور منقطع ہے  جس کے بعد مشہور کاروباری شخصیت  ایلون مسک نے غزہ میں سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ سروس فراہم کردی ہے۔

4.    غزہ میں شہادتوں کی مجموعی تعداد 7700 سے تجاوز کرچکی ہے جن میں 3600 بچے بھی شامل ہیں۔

5.   اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اپنے تازہ  بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں زمینی حملوں میں اضافہ کیا گیا ہے اور حملے موثر انداز میں جاری ہیں۔

مچھر کے بارے میں دلچسپ حقائق

 


1.   مچھر، جس کو ہم معمولی سا کیڑا سمجھتے ہیں لیکن حشرات الارض (Insects) میں سے سب سے زیادہ خطر ناک جاندار ہے جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں لوگ مرتے ہیں۔

2.   مچھر کو Earth Animais deadliestکہا جاتا ہے۔    یہی مچھر سکندراعظم (GreatTheAlexande)کی موت کا سبب بنا۔

3.   مچھروں کی تقریباً 3500سو انواع (Species) ہیں اور ان میں سے صرف 200اقسام ایسی ہیں جن کی صرف مادہ مچھر (Mosquitoes Female) ہی خون پینے کے لئے کاٹتی ہیں۔

4.    یہ ہر قسم کے جانور کو کاٹتے ہیں جیسے سانپ، مینڈک، پرندے، گھوڑے، گائے، انسان وغیرہ باقی نر مچھر پھولوں پتوں وغیرہ سے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔

مکڑی کے بارے میں تیس انوکھے حقائق

 


1.   ایک مکڑی ایک سال میں تقریبا 2000 کیڑے کھا جاتی ہے۔

2.   ایک اندازے کے مطابق زمین پر 100 ملین سالوں سے مکڑیوں کے جالے موجود ہیں۔

3.   مکڑیاں پروٹینیم ریشم سے ایک ڈھانچہ تیار کرتی ہیں جسے مکڑی کا جال کہا جاتا ہے۔ جالا بنانے میں مکڑی کوتقریباََ ایک گھنٹہ لگتا ہے ، اور وہ عام طور پر ہر روز ایک نیا جالا تیار کرتی ہیں۔

4.   تمام مکڑیاں اپنا کھانا جالوں میں نہیں پکڑتیں۔

دلشاد خانپوری صاحب پر کیا گزری؟ ہنستی مسکراتی تحریر



 تحریر: قاسم بن نظر

اس رات غالباً دو بجے کا عمل ہو چلا تھا اور میں نیم نیند کے عالم میں کروٹیں بدل رہا تھا۔ اگر عوام کی فلاح و بہبود کا خیال نہ ہوتا تو میں یہ کبھی نہ بتاتا کہ کروٹیں بدلتے رہنے کی ایک سنگین وجہ بجلی کی عدم موجودگی تھی، جبکہ باہر موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ اچانک دروازے پر زوردار دستک ہوئی اور میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ مجھے سو فیصد شک تھا کہ کسی نے میرے ہی دروازے پر دستک دی ہے۔

اس موسلا دھار بارش میں کون آٹپکا؟ بہرحال جبکہ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ اور پیر کو پیر سجھائی نہ دیتا تھا، کسی طرح اپنے اندازوں اور مفروضوں کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے دروازے تک گیا۔ دروازے میں بنائے گئے ایک ایمرجنسی سوراخ سے باہر دیکھنے کی کوشش کی اور آنے والے کا چہرہ دیکھ کر دم بخود رہ گیا، بلکہ یوں کہیے کہ دم نکلتے نکلتے رہ گیا۔ یہ عزت مآب محترم و مکرم، معزز مہمانِ گرامی جناب دلشاد خانپوری صاحب تھے۔ یہ خود اپنے آپ کو ملک کے چوٹی کے ادیبوں میں شمار کرواتے ہیں۔ کئی کتابیں لکھ چکے ہیں، مگر شائع کوئی بھی نہ ہوئی۔

میں کیسے مسلمان ہوئی؟ آسٹریلیا کی امِ امینہ کی ایمان افروز داستان


 

 ام امینہ بدریہ کی ایمان افروز داستان قبول اسلام انہی کی زبانی سنیے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے والد کا تعلق تھائی لینڈ سے تھا۔ وہ پیدائشی لحاظ سے مسلمان تھے لیکن عملی طور پر ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جبکہ میری والدہ بدھ مت تھیں اور والد صاحب سے شادی کے وقت مسلمان ہوئی تھیں۔ وہ دونوں بعدمیں آسٹریلیا آ کر آباد ہو گئے تھے۔ میرا پیدائشی نام ( ٹے نی تھیا ) Tanidthea تھا۔ میں نے یونیورسٹی آف نیوانگلینڈ، آرمیڈیل سے ایم اے اکنامکس کیا اور بزنس مارکیٹنگ اور ہیومن ریسورسز کے مضامین پڑھے۔ پھر میں بطور ٹیوٹر پڑھانے لگی۔ اسی اثناءمیں شادی ہو گئی شادی اسلامی قانون کے مطابق ہوئی۔ میرے شوہر کمپیوٹر گرافکس ڈیزائنر تھے۔ وہ شادی کے وقت مسلمان ہوئے تھے لیکن نام کے مسلمان تھے۔ اسلام پر ہرگز عامل نہیں تھے۔

میرے باپ بھی نام کے مسلمان تھے اور انہیں دین کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا نہ انہوں نے ہمیں کچھ بتایا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم بھی دین سے مکمل طور پر عاری تھے۔ میں کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ اللہ مجھے معاف کرے، میں ملحد تھی۔ میں جب اپنے شوہر کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزار چکی تو ایک وقت مجھ پر ایسا آیا کہ دنیا سے میرا دل اچاٹ ہو گیا اور میں پریشانی کی حالت میں تھی۔

ضرب المثل کہانی: (ج) جماعت میں کرامت ہے

 


’’ارے بشیر میاں! میں نے کہا کہ یہ چھت کی دیواروں پر سفیدی پھیر دیتے۔ نہ جانے کب سے چونے کی بالٹیاں لا رکھی ہیں تمھارے باوا نے ۔پر وہ صبح کا گیا دکان پر شام کو آئے۔ اور تم رہے سدا فارغ ! تم ہی کر دو یہ کام۔ موا چھت بے رنگ سا ہوا پڑا ہے ۔ کیا فرش کیا دیواریں سبھی قسمت کو رو رہی ہیں۔پھر میں نے سنا ہے کہ چھت کے فرش پر سفیدی پھیرو تو گرمی کم لگتی ہے نیچے کمروں میں۔ چلو اس بار یہ تجربہ بھی کیے دیکھتے ہیں۔‘‘

آپا جمیلہ نے اس ساری تقریر کے بعد اپنے لاڈلے اکلوتےبھائی اور چودہ جماعتیں پاس بشیر میاں کو دیکھا جو اس ساری تقریر سے بے نیاز فیس بک ریلز دیکھنے میں مگن تھے۔بشیر میاں ،آپا  جمیلہ کے میکے میں رہ جانے والے واحد رشتہ دار تھے۔ سوانہیں  اماں نے اپنے پاس بلا رکھا تھا تاکہ کوئی بھلی مانس لڑکی دیکھ کر بشیر میاں کی شادی کی جاسکے۔

یہ اور بات کہ بشیر میاں کی شادی کی جلدی ان سے زیادہ ان کے ننھے بھتیجے عارف کو تھی جن کا خیال تھا کہ ماموں بشیر کی شادی میں شہہ بالا تو وہی بنیں گے اور اگر بیس روپوں کا ہار کسی نے شہ بالا کو بھی پہنا دیا تو کیا ہی بات ہے زندگی سنور جائے گی۔اس خیال کے تحت وہ اکثر بیس روپوں کو ۱۲ سے ضرب دے دے کر متوقع آمدنی کے بارے میں پلان بناتے رہتے تھے۔   

’’پھر! کیا کہتے ہو بشیر میاں!‘‘ یہ کہتے ہوئےآپا  جمیلہ نے اپنی مشہور زمانہ  لاٹھی سے ان کی کرسی کے پائے کو  ایک  زوردارٹہوکا مارا۔

اونٹ کے بارے میں اٹھارہ دلچسپ حقائق

 


1.   اونٹ کی آواز کو "قرقر" کہا جاتا ہے۔  اس کی آواز اکثر صحراؤں میں سنی جاتی ہے۔

2.   اونٹ اکثر صحراؤں میں پایا جاتا ہے اور اسے صحراؤں کا سپاہی بھی کہا جاتا ہے. اس کی مضبوطی اور صبر کی خصوصیات کی بنا پر اسے صحراؤں میں سفر کرانے اور بوجھ لادنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

3.   اونٹ کی کھال پر خار یعنی کانٹےموجود ہوتے ہیں جو اسے گرمیوں کی سخت شدید گرمی سے بچاتے ہیں۔  اس کی کھال کی بھی فائدہ مندہے، اور اس کے بال بھی کپڑوں کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔

4.   یہ افریقہ،ایشیاء، اور آسٹریلیا کے صحرائی  علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔

5.   اونٹوں کو 5000قبل مسیح سے پالنا شروع کیا گیا ہے۔



6.    اس جانور میں یہ خصوصیت ہے کہ یہ سخت سے سخت موسمی حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ جانور سخت موسمی حالات میں وہا ں بھی زندہ رہ سکتا ہے جہاں دوسرے جانوروں کا زندہ رہنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ جانور اپنے جسم کا ایک چوتھا ئی حصہ استعمال کرکے 5سے 7دن بغیر کھائے پیئے زندہ رہ سکتا ہے۔

7.   یہ جانور اپنے جسم سے ہونے والے پانی کے نقصانات کو ایک ہی وقت میں پانی پی کر پورا کر سکتا ہے اور 200لٹر پانی بیک وقت پی کر پوراکرلیتا ہے ۔یہ جانورصحرا میں پانی کی تلاش کے لئے لمبا سفر کرسکتاہے۔

8.   ا ونٹ سورج میں بیٹھنا پسند نہیں کرتا اگر اسے سورج میں مجبوری میں بیٹھناپڑے تو اونٹ اپنا چہرہ سورج کی طرف کر کے بیٹھتا ہے اور اپنے جسم کو سورج کے سامنے آنے سے پوری طرح بچانے کی کوشش کرتاہے۔ اونٹ صحرا میں ایک سائیڈ میں لیٹ کر اپنے سینے کی پلیٹ کو ایسے سامنے لاتا ہے کہ اس کے جسم پر ہو ا کی ترسیل زیادہ سے زیادہ ہوسکے۔