میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے سے خرگوش کی جس کا نام گوگو تھا۔ گوگو ایک جنگل میں سبز ٹیلے کے اندر رہا کرتا تھا۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ گوگو کا گھر پیارا نہیں تھا! جی ! گوگو خرگوش کا گھر بہت پیارا تھا ۔ اس میں دو کمرے تھے۔ ایک گوگو کا ایک اس کی امی کا۔ ایک چھوٹا سا کچن بھی تھا جہاں گوگو کی امی اس کے لیے گاجروں کا سوپ بناتی تھیں۔ گھر کی باہر والی دیواریں لکڑی کی تھیں۔ ان پر سبز پینٹ تھا اور گول سی چھت جو شاخوں کو جوڑ کر بنائی گئی تھی، سرخ رنگ کی تھی۔ دور سے دیکھنے میں گوگو کا گھر کوئی بڑا سا مشروم معلوم ہوتا تھا!
ایک دن گوگو صبح کی سیر کرنے جا رہا تھا۔ وہ اچھلتے کودتے
پتھروں پر سے چھلانگیں لگاتا چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ا یک چھوٹے سے ڈبے
پر پڑی۔
’’سکوئیک کوئیک ک ک ک!! یہ کیا ہے؟‘‘ گوگو نے حیرت سے لمبی سی آواز نکالی ۔
’’چوں چوں! یہ ماچس ہے۔‘‘ اوپر درخت پر سے آواز آئی۔
گوگو نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔ ایک موٹی سی چڑیا اپنے
گھونسلے کے اندر بیٹھی کہہ رہی تھی۔
’’کل رات جو لوگ جنگل سے گزرے تھے وہ یہ ماچس یہیں درخت کے
نیچے بھول گئے ہیں۔‘‘
’’ہاں تو! اس سے کیا کرتے ہیں؟‘‘ گوگو نے حیرانی سے ڈبے کو
ہلایا۔
’’چوں چوں! اس سے آگ لگاتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا تھا۔ وہ
اس میں سے ایک چھوٹی سی لکڑی کو ڈبے سے رگڑتے ہیں تو آگ کا شعلہ نکلتا ہے لیکن۔۔۔‘‘
چڑیا نے بتایا۔وہ اپ گھونسلے سے نکل کر سب سے نیچے والی شاخ پر آ کر بیٹھی تھی۔
’’ سکوئیک کوئیک ک ک ک! میں بھی اس سے چولہا لگاؤں گا اور گاجروں
کا سوپ گرم کروں گا۔آہا!‘‘
گوگو نے کہا اور تیزی سے چھلانگیں لگاتا واپس چلا گیا۔ اس
نے چڑیا کی پوری بات بھی نہ سنی۔
گوگو جب گھر آیا تو امی گھر پر نہیں تھی۔ وہ ہر روز کی
طرح گاجریں لینے بھالو میاں کی دکان پر
گئی ہوئی تھیں۔
گوگو کچن میں آیا۔ اس نے ایک چھوٹی سی دیگچی چولہے پر
رکھی۔ اس میں کل کا بچا ہوا سوپ تھا۔ گوگو نے ماچس میں سے ایک اسٹک لگائی اور اسےچولہے
کے قریب کیا۔ لیکن یہ کیا! چولہا تو آگ پکڑ ہی نہیں رہا تھا۔ اسٹک پر لگی ہوئی
آگ گوگو کے ہاتھ پر لگنے لگی تو اس نے گھبرا کر اسٹک کھڑکی سے باہر پھینک دی ۔
پھر اس نے دوسری اسٹک نکالی۔ پھر تیسری ۔ پھر چوتھی۔ لیکن
چولہا کسی طرح بھی آگ نہیں پکڑ رہا تھا۔ گوگو آگ لگی ہوئی اسٹکس کھڑکی سے باہر
پھینکتا رہا۔
تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔ گوگو نے دروازہ کھولا۔
امی اندر آئیں تو انہیں کچھ جلنے کی بو آئی۔
’’گوگو! کیا تم کچن میں گئے تھے۔ ‘‘
’’ہاں ۔ نہیں! وہ ۔۔ سکوئیک کوئیک ک ک ک! ‘‘ گوگو نے بتانے
کی کوشش کی لیکن خرگوش امی بہت جلدی میں تھیں۔ وہ کچن میں تیز قدموں سے آئیں اور
جلدی سے سارے چولہے چیک کیے۔ کچھ بھی نہیں جل رہا تھا۔ سب ٹھیک تھا۔ ہاں سوپ والی
دیگچی شیلف پر پڑی تھی اور فریج کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔
’’گوگو!تم سوپ گرم کرنا چاہ رہے تھے؟‘‘
گوگو نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ جلدی سے کچن سے باہر چلا
آیا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ امی کو کیسے بتائے۔
امی جب کمرے میں آئیں تو گوگو کمرے میں خاموش بیٹھا تھا۔
امی کے ہاتھ میں سوپ کا پیالہ تھا۔ انہوں نے سائیڈ ٹیبل پر پیالہ رکھا اور کہنے
لگیں۔
’’میرے پیارے بیٹے! میں نے ماچس کھڑکی سے باہر گری ہوئی
دیکھ لی ہے۔ خدا نہ کرے چولہا آن ہو جاتا تو تمھیں آگ بھی لگ سکتی تھی۔ ‘‘
گوگو یہ سن کر بہت شرمندہ تھا۔
’’ابھی تم چھوٹے ہو۔ جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو خود سے چولہا
لگانا سیکھ جاؤ گے۔ پھر تم بہت ساری چیزیں بنایا کرنا۔ ‘‘
’’اوں ہوں۔۔ سوں سوں سوں! سکوئیک کوئیک ک ک ک!!‘‘
خرگوش امی اچانک کچھ سونگھتے ہوئے بولیں۔
’’یہ۔۔ یہ کیا جلنے کی بو آرہی ہے۔اوہ خدایا! ‘‘
خرگوش امی جلدی سے بھاگتے ہوئے کمرے سے نکل گئیں۔
بچو! اصل میں ہوا یہ تھا جب گوگو خرگوش نے جلتی ہوئی اسٹکس
کھڑکی سے باہر پھینکیں تو گھاس میں آ گ لگ گئی۔ وہ آگ گوگو کے گھر کی دیواروں تک
پہنچی۔ لکڑی دھڑا دھڑ جلنے لگی۔
’’ہیلو! ہیلو! جلدی پہنچیں ہاتھی میاں!‘‘ گوگو کی امی ہاتھی
میاں کو فون کر چکی تھیں۔
ہاتھی میاں جو جنگل کے فائر بریگیڈ تھے، اپنے کئی ساتھیوں
کے ساتھ گوگو کے گھر باہر پہنچے ۔وہ اپنی سونڈوں میں تالاب کا بہت سارا پانی بھر
کر لائے تھے۔ جلد ہی آگ بجھ گئی۔
سامنے کی سبز
دیواریں جل کر سیاہ ہو گئی تھیں لیکن شکر ہے زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پیارے بچو! کبھی بھی ماچس سے نہ کھیلیں۔ جب کبھی آپ
کو کہیں ماچس پڑی نظر آئے فوراً اٹھا کر کسی اونچی جگہ رکھ دیں یا امی کو دے
آئیں۔
اچھا! کیا میں نے آپ کو بتایا ہے کہ گوگو خرگوش کے گھر کی
دیواریں نئی بن گئی ہیں۔ یہ لکڑی کی دیواریں اس نے امی کے ساتھ مل کر بنائی ہیں۔
بندروں کی ایک پوری ٹیم نے ان کی مدد کی ۔ کیلے کا ایک درخت پرانا ہو کر سوکھ گیا
تھا۔ اسی کی لکڑی کاٹ کاٹ کر بندروں نے یہ دیوار بنائی ہے۔ اب کی بار ، گوگو نے
زرد رنگ کا پینٹ کیا ہے۔
کبھی آپ کو دور سے زرد رنگ کا ایک بڑا سا مشروم نما گھر
آئے تو آپ سمجھ جائیں، یہی گوگو کا گھر ہے!