پرانے وقتوں کی بات ہے جب پورے جنگل میں پنساری کی بس ایک ہی دکان ہوا کرتی تھی۔ اس کے مالک تھے میاں زرافے اور دکان کا نام تھا، زرافہ پنساری کی دکان۔ اصل مال یہاں سے خریدیں۔ نقالوں سے ہوشیار رہیں۔ کیا بندر وں کا خاندان ہو کیا ہاتھیوں کا ٹولہ، چڑیوں کے بچے ہوں یا چمکاڈروں کی آل اولاد، سبھی میاں زرافے کے ہنر اور ان کے سودے کی کوالٹی کے معترف تھے۔
زرافے میاں اگرچہ انتہائی لمبی گردن اور اس سے بھی لمبی
ٹانگوں کے مالک تھے لیکن جنگل کی کوئی فائدہ مند بوٹی آج تک ان کی دور رس نگاہوں
سے اوجھل نہ رہ سکتی تھی۔ تلسی ، کھٹکل ،
گل منڈی ، ککروندہ، ملٹھی، نک چھلنی اور ان جیسی سینکڑوں بوٹیوں کے خواص اور پہچان
میاں زرافے کو زبانی یاد تھے۔
دارچینی کی لکڑی کو کوٹنا ہے، الائچی کو چھوٹی بڑی میں
تقسیم کر کے رکھنا ہے، سونف میٹھا اور پھیکا الگ کرنا ہے، رائی کے دانے کون سے ہیں
اور سفید تل کہاں رکھنے ہیں، یہ سارے کام آج تک میاں زرافے اکیلے ہی کرتے آئے
تھے۔
اس دن بھی جب وہ تلسی کے پتے ڈنڈیوں سے الگ کرنے میں مصروف
تھے تو دکان کی گھنٹی بجی۔ یہ گھنٹی انہوں نے دروازے پر لٹکا رکھی تھی۔ جو بھی
آتا جاتا، دروازے کی گھنٹی ضرور بجتی۔
’’ٹن ٹن ٹنٹنن!!‘‘
زرافے میاں کو ایک کونے میں پتوں کی چٹائی پر بیٹھے اپنے
کاموں میں مصروف تھے، نے سر اٹھا کر دیکھا۔ انہیں کوئی نظر نہ آیا۔
وہ سر جھٹک کر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ ابھی
انہوں نے شربت بزوری معتدل بھی تیار کرنا تھا۔ شیربادشاہ کوزیادہ گوشت کھانے سے جگر کی تیزابیت ہو گئی
تھی۔ بھالو حکیم نے انہیں بزوری ایڈوائز کر رکھا تھا۔ اگرچہ شیر بادشاہ کے نزدیک
یہ بھی ہرنوں اور خرگوشوں کی غلطی تھی کہ ان کا گوشت آخر اس قدرگرمی کیوں پیدا
کرتا ہے۔ بہر حال! انہوں نے لومڑی کے ذریعے میاں زرافے کو کہلوا رکھا تھا کہ بزوری
معتدل جلد از جلد تیار کروا کے چار بوتلیں مع جنگلی پودینےاور ادرک کی چٹنی کے بھجوایا جائے۔
شیر بادشاہ سے میاں زرافے کو ہمیشہ منہ مانگا معاوضہ ملا کرتا تھا۔ سو، ہاتھی کے لیے جوشاندہ بنانے کے بعد انہوں نے شیر بادشاہ کا کام پہلی فرصت میں کرنا تھا۔
ہاتھی کی دوائی تو بس اب تیار تھی۔ ۔ تلسی کے پتوں کا عرق ، فلفل سیاہ ملا ہوا کر جوشاندہ۔ انہوں نے جلدی جلدی اسے بوتلوں میں بھرا اور کوے کو آواز لگائی۔
’’بھائی کوے میاں! ہاتھی سے کہو جوشاندہ تیار ہے۔ آ کر لے
لے۔ ہاں ساتھ میں وہ تالاب کے ساتھ اگی ہوئی گھاس لازمی لائے۔ میں نے اس میں کل
کنگھی بوٹی کے پتے دیکھے تھے۔ ‘‘
ہاتھی میاں کو بہت عرصے سے کھانسی اور بلغم کا مرض تھا۔
میاں زرافے انہیں نت نئے ٹوٹکے بنا کر دیتے
تھے کو فائدہ لازمی دیتے اگر ہاتھی میاں تالاب کا ٹھنڈا گدلا پانی پینے میں تھوڑی احتیاط کرتے ۔
’’جب دن چڑھ جائے پانی نیم گر م ہو جائے تو پہلے سونڈ میں
قسط شیریں رکھ کر ہلکا سا غر غر ہ کریں پھر اسی پانی کو پی جاؤ۔ پھر تالاب کا
پانی پیو اور دیکھ بھال کر پیو۔ ‘‘
زرافے میاں کی یہ نصیحت ہاتھی کو یاد تھی لیکن جب وہ صبح
صبح تالاب پر پہنچتے ، سونڈ میں پانی بھر بھر کر سرکے بالوں کو گیلا کرنے کا کرتب سے مینڈکوں کو متاثر کرنے کی لالچ، یہ
نصیحت ہمیشہ بھلا دیتی۔
خیر! دروازے کی گھنٹی جب
بار بار بجنے لگی تو زرافے میاں کے چھوٹے چھوٹے کان کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے
عینک کے شیشوں سے آنکھیں اچکا کر دروازے کو غور سے دیکھا۔
ایک سفید رنگ کا انوکھا ساچوہا بار بار دروازے کے نیچے سے
اندر داخل ہوا۔ اچھا خاصا فربہ اندام چوہا تھا لیکن عادت تو چوہوں کی ہی سی تھی۔
دروازہ کھول کر داخل ہونا مناسب نہ سمجھتے ہوئے اس نے نیچے سے ہی گزرنے میں عافیت
جانی لیکن عافیت کہاں تھی۔ دروازہ اس کے وزن سے چرچراتا اور گھنٹی بجنے لگتی۔ میاں زرافے نے دیکھا۔
چوہے کا رخ ہلدی کی اس بوری کی طر ف تھا جو انہوں نے کل ہی ساتھ والے کھیت سے
منگوائی تھی۔ خرگوشوں نے اکبر کسان کے ساتھ مل کر ہلدی کی گرہوں کو کھود کھود کر
نکالا۔ پھر انہیں دھو کر ، سکھا کر بوریوں میں بند کیا۔ معاوضے میں انہیں اکبر
کسان سے تازہ سرخ سرخ گاجریں ملیں اور میاں زرافے سے باداموں والا مربہ!
’’ٹھہرو! اس موٹے چوہے کو سبق سکھاتا ہوں۔‘‘ میاں زرافے نے
سوچا اور ہاتھ میں کیلے کے درخت کی ایک مضبوط ٹہنی لے کر کھڑے ہو گئے۔
چوہا بار بار آیا اور ہلدی کی کئی گرہوں کو اپنے ساتھ لے
گیا۔ ادھر میاں زرافے جو آنکھیں بند کیے یہ ظاہر کررہے تھے کہ وہ کھڑے کھڑے سوئے
ہوئے ہیں، اندر ہی اندر حیران ہوتے رہے۔ ’’یہ چوہا اتنی ہلدی کا کیا کرے گا؟‘‘ یہ سوال ذہن میں آتے ہی انہوں نے چوہے کی خبر لینے کا ارادہ ترک کر دیا۔
اگلے دو دن کچھ قدرت کا کرنا کچھ موسم کا، کہ میاں زرافے
دکان سے ہی نہ نکل سکے۔ انہیں شدید نزلے اور بخار نے آ گھیرا تھا۔
لومڑی ، شیر بادشاہ کی دوا لینے آئی تو طنزیہ نگاہوں سے
دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔
’’بھئی میں نے آج تک کسی حکیم یا پنسار والے کو بیمار نہیں
دیکھا۔‘‘
’’تو آج دیکھ لو بی لومڑی۔‘‘ زرافے میاں نے غرغری سی آوا
زمیں کہا اور ریک میں رکھی ہوئی پوٹلی کی طرف اشارہ کر دیا۔
’’ہونہہ! اگر اپنی ہی دوا سے اثر نہ ہو رہا ہو تو کسی اور
کا نسخہ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے کہ حکیم سفید چوہے پنساری کا بلغم
والا نسخہ۔ لیکن نہ جی! وہ حکیم ہی کیا جو کسی دوسرے حکیم کو اپنے سے بہتر سمجھ
لے۔ ‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
میاں زرافے بند گلے کے ساتھ بڑی مشکل سے بولے۔
’’حکیم سفید چوہے پنساری
کے مطابق ان کا ہلدی والا نسخہ جو بھی استعمال کر لے وہ زندگی میں کبھی بھی
دوبارہ نزلے کا شکار نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کئی نسلوں سے یہ کام کر
رہے ہیں اور اس میدان میں ان کا کوئی مقابل نہیں ہو سکتا۔ اور یہ کہ وہ بہت
جانفشانی سے یہ نسخہ تیار ۔۔۔۔۔‘‘
باجود شدید ریشے کے ، میاں زرافے کو بڑی زور سے ہنسی آ
گئی۔ اور کچھ تو نہ ہوا لیکن ان کا سارا بلغم اس ہنسی سے جو کھانسی آئی تو باہر
نکل گیا۔
’’ٹھیک ہے۔ ٹھیک
ہے۔ خدا شیر بادشاہ کو تندرست رکھے۔ ‘‘
’’آمین! ‘‘ لومڑی نے کہا اور دروازے سے باہر نکل گئی۔ دروازے
کی گھنٹی بجی۔
’’ٹن ٹن۔۔ ٹنن ٹننن!‘‘
پھر بڑی ہمت کر کے میاں زرافے نے زرد رنگ کا سبز مفلر گلے میں باندھا، الو میاں کی بیوی نے ان کے لیے جو نارنجی دھبوں
والا سویٹر بنا تھا وہ پہنا، منہ میں
سعالین کی دو گولیاں رکھیں اوردکان سے باہر نکل آئے۔
جنگل میں بڑے مزے کی ہوا چل رہی تھی ۔ میاں زرافے کے مزاج
پر بہت اچھا اثر ہوا۔ انہوں نے تلسی کے کچھ پتے میں منہ میں رکھ کر پان کی طرح
چپائے اور سفید چوہے کے گھر کی طرف بڑھ گئے۔ اس کا بل برگد کے تنے کے نیچے تھا۔
وہاں چند کوے اور چڑیاں گھاس پر بیٹھے تھے۔
میاں زرافے کو آتا دیکھ کر وہ اڑ کر ادھر ادھر ہو گئے۔
اتنے میں سفید چوہا کسی کام سے باہر نکلا تو ٹھٹھک گیا۔
سامنے میاں زرافے کھڑے تھے۔
خیر اس نے کیا ٹھٹکنا تھا جو میاں زرافے اس کو دیکھ کر
حیران پریشان ہوئے۔ سفید چوہے نے پنساریوں کی سی آف وائٹ پگڑی سر پر باندھ رکھی
تھی۔ نیچے سفید بنیان پھر چیک والی دھوتی۔ ہاتھ میں مصالحے کوٹنے والا ڈنڈا جو
ہلدی کوٹ کوٹ کر زرد رنگ کا ہو گیا تھا۔
جیسے ہی اس کی نظر میاں زرافے کے پنجوں پر پڑی، اس نے سر
اٹھا کر دیکھنا بھی مناسب نہ سمجھا اور لپک چھپک دوبار ہ بل میں گھس گیا۔
میاں زرافے مسکرائے اور ان کے منہ سے بے ساختہ ایک جملہ
نکلا۔
’’ چوہے کے ہاتھ لگی ہلدی کی گرہ، وہ بھی پنساری بن
بیٹھا!‘‘
کووں اور چڑیوں نے ان کی یہ بڑبڑاہٹ سن لی تھی۔ تبھی تو
اگلے دن جنگل کے سارے ہی جانوروں کی زبان پر یہی جملہ تھا۔ چوہے کے ہاتھ لگی ہلدی
کی گرہ، وہ بھی پنساری بن بیٹھا۔
دوستو! سفید چوہا نہ جانے کب سے ہلدی کی ساری گرہیں اپنے
رشتہ داروں میں بانٹ کر، پنساری پن سے توبہ تائب ہو چکا ہے۔ لیکن! میاں زرافے کا
یہ جملہ آج بھی جنگل اور جنگل سے باہر، ہر اس ذی روح کے لیے بولا جانے لگا ہے جو ذرا
سی ہلدی ، میرا مطلب ہے ذرا سی پونجی ہاتھ میں آتے ہی اترانے لگتا ہے اور اپنا
ثانی کسی کو نہیں سمجھتا۔