کھلونوں کی جنگ اور عقل منڈ ڈائنوسار ۔ 8

 


رات کے دس بج چکے تھے۔ آج ننھے بلاکس کے گھر دعوت تھی۔ اے بی سی والے بلاکس سبزیوں والے نوڈلز بنانے کے لیے بہت پرجوش تھے۔ لیکن انہیں کچھ دیر اور انتظار کرنا پڑا۔ 

"زوں زوں زوں ں ں ں!" 

دکان کے دروازے کے باہر ایک ٹرک آ کر رک گیا۔  سب کھلونے بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔ دکان کا مالک اور دونوں ملازم ٹرک سے نئے ڈبے اتارتے گئے اور شوکیس کے پاس رکھتے گئے۔ پھر ایک ملازم نے ان نئے ڈبوں سے کچھ عیجب سے کھلونے نکالے۔ کچھ تو نیلے رنگ کے بدنما سے فوجی تھے جن کے سروں پر چھ کونوں والی سفید اور نیلی ٹوپیاں تھیں۔ ان سب کے ہاتھوں میں پستولیں تھیں۔

ایک اور ڈبے سے ایک خوبصورت سی مسجد  نکلی۔ اس کے اوپر ایک سرمئی اور ایک زرد رنگ کا گنبد بہت اچھا لگ رہا تھا۔ 


پھر ایک اور بڑے سے ڈبے سے سرخ اور سفید لباس والے فوجی باہر آئے  ان سب کے ہاتھوں میں بھی گن پکڑی ہوئی تھی۔ 

کھلونے نکالتے نکالتے، جب دکان کا مالک تھک گیا تو اس نے دونوں ملازموں سے کہا۔ 

"اچھا۔ اب باقی سیٹنگ کل کریں گے۔" 

پھر انہوں نے دکان کی لائٹس آف کیں لیکن ہمیشہ کی طرح ایک چھوٹا سا نیلا بلب آن رہنے دیا۔ پھر وہ بڑے دروازے کو باہر سے تالہ لگا کر چلے گئے۔ 

جیسے ہی دکان میں خاموشی ہوئی، چھوٹے ننھے بلاکس اچھل اچھل کر باہر آنے لگے۔ 

"یا ہو! لڑچ کڑچ ٹھک ٹھک" 

انہوں نے خوب چھلانگیں لگائیں اور بولے۔

"آج سب کھلونے ہمارے گھر کھانا کھائیں گے!"

"ہی ہی ہی! تمھارے گھر؟ مطلب وہ جو ننھا منا سا بیگ ہے جس پر تین بلاکس بنے ہوئے ہیں؟ وہ۔۔؟" 

بندر نے قلابازیاں کھاتے ہوئے پوچھا۔ 

"اوہ! اس میں تو میں پورا نہیں آوں گا۔"

موٹا سا ٹیڈی بئیر پریشان ہو کر بولا۔ 

بلاکس بھی سوچ میں پڑ گئے کہ دعوت کہاں رکھی جائے۔ 

اتنے میں کسی کے زور زور سے بولنے کی آواز آئی۔ 

سب کھلونوں نے دیکھا۔ یہ آواز ایک نئے ڈبے سے آرہی تھی۔ 

انجن زوں زوں کرتا ہوا اس طرف گیا اور اس نے ڈبے کو ایک ٹکر ماری۔ ڈبہ ایک طرف گر گیا اور اس کا ڈھکنا کھل گیا۔ 

پھر اس میں سے چھوٹے چھوٹے پلاسٹک کے امی ابو اور ان کے تین پچے باہر آئے۔ امی نے سبز اور زرد رنگ کا فراک پہن رکھا تھا۔ ابو نے سرمئی رنگ کا ثوب پہن رکھا تھا اور سرخ رومال کندھے پر رکھا ہوا تھا۔ ان کے دو چھوٹے سے بچوں نے بھی بہت پیارے سنہری اور سفید لباس پہن رکھے تھے۔

"آہ۔۔ اوہ! آپ کا شکریہ۔ یہ میری بیٹی کا دم گھٹ رہا تھا اندر۔ اسی لیے ہم نے سوچا باہر آجائیں۔" 

چھوٹے سے ابو نے ننھی سی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھا۔ 

پھر وہ ساری فیملی مسجد کے پاس گئی اور ننھے ننھے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے لگی۔ 

"ٹھاہ! ٹھاہ!"

یہ گولیاں چلنے کی آواز تھی۔ اونی سیفد گڑیا جو آہستہ آہستہ چل کر آرہی رھی تھی، گڑبڑا کر رک گئی۔ 

سب کھلونوں نے مڑ کر دیکھا۔

نیلی ٹوپی والے فوجی غصے سے پلاسٹک کے امی ابو کو دیکھ رہے تھے۔ یہ گولیاں انہوں نے ہوا میں چلائی تھیں تاکہ یہ ساری فیملی ڈر جائے اور مسجد کے پاس سے ہٹ جائے۔ 

لیکن ڈرنا تو دور کی بات، چھوٹے چھوٹے گڈے، امی ابو اور ان کے ننھے بچے بڑی بہادری سے وہاں جم کر کھڑے رہے۔ 

گولیوں کی آواز سنتے ہی سرخ و سفید دھاریوں والی ٹوپی پہنے فوجی جلدی سے آگے آئے اور  زرد گنبد والی مسجد کے آس پاس گھیرا ڈال کر کھڑے ہو گئے۔ 

ااب امی ابو اور ان کے تین بچے مسجد کے ساتھ بنے ایک چھوٹے سے گھر میں چلے گئے تھے۔ 

ٹھا ٹھاہ ٹھا ٹھاہ ٹھاہ!" 

بہت ہی تیزی کے ساتھ نیلی ٹوپیوں والے فوجی نے گولیاں چلائیں۔ جواب میں سرخ و سفید ٹوپی والے فوجیوں نے بھی بہت گولیاں جلائیں لیکن سب کھلونے دیکھ سکتے تھے کہ نیلی ٹوپی والی فوجی جیت رہے تھے۔

اچانک وہ ہوا جو کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا۔ 

ٹینک والا سبز فوجی اپنے ٹینک پر بیٹھا ہوا نعرے لگاتا ہوا آیا۔ اس نے نیلی ٹوپی والے فوجیوں پر ایک میزائل پھینکا۔ 

نیکے فوجی یہاں وہاں بکھر گئے۔ وہ میزائل کی چوٹ برداشت نہین کر سکے تھے۔ 

پھر ٹینک ان کی پستولیں پر چڑھ گیا اور انہیں توڑپھوڑ کر رکھ دیا۔ 

یہ دیکھ کر سارے کھلونوں نے خوشی سے نعرہ لگایا۔

جب ٹینک والا فوجی واپس جا رہا تھا تو سب نے دیکھا۔

اس کے ٹینک پر ایک سبز رنگ کا جھنڈا جس پر سفید ستارہ اور سفید رنگ کا چاند بنا ہوا تھا۔ وہ بہت خوشی سے لہراتا ہوا رہا تھا۔ 

اچانک ہی مسجد کے ساتھ بنے ہوئے چھوٹے سے گھر کا دروازہ کھلا یہ دروازہ لکڑی کا بنا ہوا تھا اور اس پر سرخ رنگ کا پینٹ کیا گیا تھا۔

دروازے میں سے امی اور ابو باہر ائے اور انہوں نے ٹینک والے فوجی کا شکریہ ادا کیا۔

اچانک اے بی سی والے بلاکس ایک دم چلائے۔" فوجی انکل کیا اپ ہمارے ساتھ کھانا نہیں کھائیں گے؟"

"کیوں نہیں بھلا بتاؤ آج تم نے کیا بنایا ہے؟" 

ٹینک والے فوجی نے رومال سے اپنی رائفل صاف کی اور مسکراتے ہوئے پوچھا۔ یہ سوال سن کر اے بی سی والے بلاکس گڑبڑا گئے اور وہ پریشان سا ہو کر ون ٹو تھری والے بلاز کی طرف دیکھنے لگے۔ ون ٹو تھری والے بلاگز بھی تھوڑا سا سوچ میں پڑ گئے کہ ابھی تک تو ہم نے کوئی بھی کھانا نہیں بنایا 

اتنے میں سفید اونی گڑیا بولی۔ 

"ہم سبزیوں والے چاول بنا لیتے ہیں جو کہ بہت جلدی بن جاتے ہیں۔"

 پھر اس نے کہا آپ سب کھلونے آج میرے سفید گھر میں تشریف لائیں۔"

باربی ڈول اپنے سنہری بالوں میں کنگھا کرتے ہوئے بولی۔ 

"کوئی مجھے نیا کنگھا لا کر دے سکتا ہے؟ "

"شوں شووں۔۔۔! کیا تم کھانے کے بعد سیر کے لیے چلو گی؟"

ریسنگ کار نے اپنے اگلے ٹائر دائیں بائیں گھماتے ہوئے پوچھا۔

"جی نہیں!" باربی ڈول نے منہ بنا کر کہا۔

"پچھلی بار بھی تم نے میرے بال اپنے ٹائر کے نیچے پھنسا تھے اور میرے تین بال ٹوٹ گئے تھے۔ میں تو کبھی بھی تمہارے ساتھ سیر کرنے نہیں جاوں گی اب۔"

سارے کھلونے اچھلتے کودتے سفید گھر کی طرف جا رہے تھے۔ ان میں گلابی رنگ کا چھوٹا سا یونیکون بھی تھا۔ 

اس نے اس نے اپنی امی یونیکورن سے پوچھا جو اس کا ہاتھ تھامے اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔

"امی سب سے اچھا یونی کون ہوتا ہے؟" 

یونیکون امی نے اپنے سینگ پر آئے ہوئے سفید بال ایک طرف کیے اور بولیں۔

"بیٹا یونیکورن ہو یا پھر انسان، سب سے اچھا وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو بچائے اور ان کی مدد کرے۔" یونیکورن نے یہ سن کر اپنا چھوٹا سا سر ہلایا اور اچھل کر ٹرین کے اوپر چڑھ گیا۔ٹرین چھک چھک چھک کی اواز نکالتے ہوئے سفید گھر کی طرف دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ اس کے سارے ڈبے آپس میں بحث کر رہے تھے کہ بہادر امی ابو کو کون کون سے شوکیس کی سیر کروانی چاہیے۔"

ایک ڈبے نے کہا۔ "میں نے سنا ہے بچوں کو جھولے اچھے لگتے ہیں۔ انہیں عقل مند ڈائنوسار کے پارک لے چلتے ہیں۔"

"یس! بچوں کو ڈائنوسار بھی پسند ہیں۔ وہ سبز رنگ کے ڈائنوسار کو دیکھ کر بہت حیران ہوں گے۔" 

اچانک ایک طرف سے آواز آئی۔

"کیا آپ میری بات کر رہے ہیں؟" 

یہ آواز سنتے ہی دو ڈبے پیچھے مڑ کر دیکھنے لگے اور ٹرین لڑکھڑا گئی اور ایک زور کا جھٹکا لگا۔ سب سے آگے ڈبے پر بیٹھے ہوئے امی ابو اور دونوں بچے اڑتے ہوئے سبز ڈائنوسار کے پارک میں جا گرے۔


(جاری ہے)