qadr-kia-hey-asan-alfaz-me



 سورہ القدر، سورہ العلق کے بعد آتی ہے۔ 

مطلب یہ اشارہ دیا گیا کہ یہ تو پہلی وحی ہے آپ کے اوپر۔ یعنی العلق کی پانچ آیات۔ اصل میں ہم نے پورا کا پورا قرآن سماء الدنیاء کے بیت العزت پر۔ حاملین وحی فرشتوں کے ذریعے اتار دیا یے۔ وہاں سے اب جبرئیل تھوڑا تھوڑا کر کے آپ کے اوپر لاتے رہیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔

اصل میں تو پورا قرآن، کائنات کی تخلیق سے پہلے انسان کی تخلیق سے پہلے لکھ دیا گیا تھا لوح محفوظ پر۔ 

بس قدر کی رات میں، اس منصوبے کا فانئل مرحلہ ہوا۔ وہ یہ وہ سارا کا سارا قرآن لوح محفوظ سے حاملین وحی فرشتے نیچے سماء الدنیاء پر لے آئے۔ 

۔۔۔۔۔

یہ بات بھی طے ہے کہ پہلی وحی بھی لیلةالقدر ہی کی رات کو غار حراء میں نازل ہوئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔ 

قدر کے دو معنی لیے گئے ہیں۔ 


ایک تقدیر۔ جس کی وضاحت سورہ دخان کی یہ آیت کرتی ہے۔ 

فیھا یفرق کل امر حکیم۔

اس میں، الگ الگ کر دیے جاتے ہیں ہر حکم حکمت والا۔ یعنی حکمت والے فیصلے کر دیے جاتے ہیں اس رات میں۔

دوسرا قیمت یعنی حیثیت و مرتبہ۔ عظمت و شرف۔ 

اس کی تائید سورہ قدر کی یہ آیت کرتی ہے۔ خیر من الف شھر۔

انا۔ نے شک ہم نے۔

اللہ یہاں اپنا صیغہ لائے ہیں

یہ لفظ انا خود خالق کا مرتبہ بتا رہا ہے۔ 

پس خالق کا مرتبہ یہ ہے کہ اس کے مثل و برابر کوئی نہیں نہ ہو سکتا ہے۔ 

اسی طرح اس کے نازل کردہ قرآن کا مرتبہ یہ ہے کہ اس کے بھی مثل و برابر کلام کوئی نہین نہ ہو سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

نزل کے معنی کسی چیز کے ایک ہی بار پورا کا پورا نازل ہونے کے ہیں

اور نزلہ تشدید کے ساتھ، کے معنی کسی چیز کو وقتا فوقتا یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے اتارنے کے ہیں۔ 

اللہ نے قدر کی رات میں، قرآن کو لوح محفوظ سے آسمان الدنیا پر اتارا۔ پھر وہاں سے تھوڑا تھوڑا کر کر نازل ہوتا رہا۔ 

جیسے کہ آسمان الدنیا کے امور اللہ کی حکمت اور امر سے چل رہے ہیں تو اسی لیے قرآن بھی اس ترتیب سے نازل نہیں ہوا جس ترتیب سے مصحف میں موجود ہے۔ 

بلکہ اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر کے مطابق اس ترتیب سے نازل ہوا جس ترتیب سے رسول اللہ کی حیات مبارکہ کے واقعات اور ان کے تسلسل کے مطابق اتارا جانا تھا۔ 

جیسے کہ جب قریش نے پوچھا تمھارے رب کا نسب کیا ہے 

تو سورہ اخلاص آ گئی 

ابو لھب کی بدتمیزی پر لھب کی پہلی دو آیات آئیں 

عتبہ بن ابی لھب کی بدتمیزی پر

قتل الانسان ما اکفرہ 

آیت آ گئی 

ابوجہل کو رسول اللہ نے جھنجھوڑنے ہوئے کہا۔ اولی لک فاولی لک

تو انہی الفاظ پر مشتمل آیت نازل ہو گئی۔ 

اس طرح، جیسے جیسے جب جب جس جس بات کی ضرورت ہوئی، آیات نازل ہوتی رہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔

قدر کے معنی 

کسی چیز کی مقدار یا حجم کے ہیں۔ 

لیلہ القدر 

یعنی مقدار کی رات مقدار والی رات 

یا 

حجم کی رات یا حجم والی رات 

۔۔۔۔ 

آگے چل کر اللہ نے الف شھر کی آیت میں، اس رات کی مقدار بھی بتا دی، اور حجم بھی۔ 

یعنی یہ رات ہزار ماہ سے زیادہ فائدہ مند ہے 

اور 

یہ رات میں کیے گئے اعمال اپنے حجم کے حساب سے ہزار ماہ کے اعمال کے برابر ہوں گے۔ 

۔۔۔۔۔۔

تقدیر اللہ۔ اللہ کا میتھس۔  تقدیر کا فائنل میننگ: 

اللہ کائنات میں دو طرح کا میتھس کرتے ہیں۔ 

1۔ ایک تو یہ کہ چیزوں کو پیدا کرتے ہیں ایک ہی بار۔ پھر ان میں تبدیلی نہیں ہوتی۔  

2۔ دوسرا یہ کہ چیزوں کے بنیادی اجزاء پیدا کر دیتے ہیں۔ ان مین پھر تبدیلی ہوتی ہے اور وہ بڑے ہو کر کوئی صورت اختیار کرتے ہیں۔ 

۔۔۔۔

اسی طرح اللہ کائنات میں دو طرح کے حکم دیتے ییں۔

1۔ وہ حکم جو اللہ قدر کی رات میں دیتے ہیں۔ جیسے موت، رزق۔ کعبہ کا طواف۔ وغیرہ۔ حدیث ہے۔ فرغ ربکم من الخلق و الاجل و الرزق۔ فارغ ہو چکا ہے تمھارا رب، پیدا کرنے سے، موت سے اور رزق سے۔ مطلب یہ والے امور اللہ لکھ چکے ہیں۔ ان میں تبدیلی نہیں ہوتی اگلے سال تک۔ 

بقول ابن عباس۔ اللہ اس رات میں دنیا کے امور کا فیصلہ کر دیتا ہے اگلی شب قدر تک۔ زندگی، موت اور رزق کا۔ 

2۔ وہ جن میں ہر روز تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ سورہ رحمان کی آیت۔ کل یوم ھو فی شاءن۔ ہر روز وہ کام میں مصروف ہوتا ہے۔ اس آیت میں انہی امور کی طرف اشارہ ہے جن مین روز بروز تبدیلی ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔ 

پس تقدیر کے دو معنی فائنل ہوئے۔ 

1۔ ایک الحکم یعنی فیصلہ۔ یعنی وہ ان کاموں کے فیصلے جو ہونا ضروری ہیں، واجب ہیں 

جیسے رات دن کا آنا۔ سورج و چاند کا مدار۔

یا وہ کام جو ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی ہو سکتے۔ (جسے ہم کہتے ہئں کہ دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے) 

2۔ اشیاء کو قدرت یا اختیار بخشنا۔ 

جیسے میں کھانا کھاوں یا نہیں۔ یہاں جاوں یا نہیں۔ عبادت کروں یا نافرمانی۔ یہ میرا اختیار ہے۔ 

۔۔۔۔۔ 

قدر کی رات، اگلے پورے سال کے لیے، وہ والے فیصلے لکھے جاتے ہیں جن کا ذکر پہلے پوانٹ میں ہے۔ جیسے کون پیدا ہو گا، کون مر جائے گا اور کس کو کتنا روز دیا جائے گا۔ 

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مصیبت آنے والی ہوتی ہے ہم صدقہ دیتے ہیں نیکی کرتے ہیں تو مصیبت چلی جاتی ہے۔ 

ہم ایصال ثواب کرتے ہیں تو مردے پر سے عذاب ہٹ جاتا ہے۔ 

اس تقدیر کا تعلق پہلے پوانٹ کے دوسرے والے معنی سے ہے۔

میں نے پوری کوشش کی ہے تقدیر کے معنی کا ایکسپلین کرنے کی۔ 

حوالہ جات یہ ہیں۔ تفسیر راغب اصفھانی۔ القرطبی۔ تفھیم القرآن۔ ابن کثیر۔ 

تفسیر رازی رہ گئی۔ انہوں نے پہلی آیت کی تفسیر میں کیا میننگ لکھا ہے وہ بھی انشاءاللہ ایکسپلین کروں گی۔ 

قدر کی رات اور میتھس

قدر کی رات اور سائنس 

یہ بھی۔ انشاءاللہ