مچھر کے بارے میں دلچسپ حقائق

 


1.   مچھر، جس کو ہم معمولی سا کیڑا سمجھتے ہیں لیکن حشرات الارض (Insects) میں سے سب سے زیادہ خطر ناک جاندار ہے جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں لوگ مرتے ہیں۔

2.   مچھر کو Earth Animais deadliestکہا جاتا ہے۔    یہی مچھر سکندراعظم (GreatTheAlexande)کی موت کا سبب بنا۔

3.   مچھروں کی تقریباً 3500سو انواع (Species) ہیں اور ان میں سے صرف 200اقسام ایسی ہیں جن کی صرف مادہ مچھر (Mosquitoes Female) ہی خون پینے کے لئے کاٹتی ہیں۔

4.    یہ ہر قسم کے جانور کو کاٹتے ہیں جیسے سانپ، مینڈک، پرندے، گھوڑے، گائے، انسان وغیرہ باقی نر مچھر پھولوں پتوں وغیرہ سے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔


5.    جدید تحقیقات کے مطابق مچھر کا وجود انسان کے وجود سے بھی پہلے کا ہے۔یہ زمین پر دس کروڑ سال سے رہ رہا ہے جو کہ نظر یہ ارتقاء کے لئے ایک بڑی مشکل پیدا کرتا ہے،کیوں کہ مچھرکے ایک سوملین یعنی 10کروڑ سال پرانے فوسلز (Fossils) اور آج کے مچھر میں کوئی ارتقائی تبدیلی نہیں آئی۔

6.    کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مچھر دو ارب سال پہلے بھی موجود تھا۔

7.   مچھر کی عمر صرف 5یا 6ماہ تک ہوتی ہے۔



8.   اس کے تین دل دو دماغ اور دو آنکھیں ہوتی ہیں اور ہر آنکھ میں تقریباً ایک ہزار (Lenses) ہوتے ہیں جو آزادانہ طور پر (Independent)مختلف سمتوں میں دیکھ سکتے ہیں۔

9.   مچھر ایک سیکنڈ میں ایک ہزار مرتبہ اپنے پر (Wings) مارتا ہے، اس کے باوجود وہ ایک گھنٹے میں صرف ایک سے ڈیڑھ میل کا فاصلہ ہی طے کر پاتے ہیں۔

10.                     مادہ مچھر ایک ہی وقت میں 200انڈے دیتی ہے۔

11.                     مچھروں میں سب سے زیادہ خاص بات ان کے خون چوسنے کا طریقہ ہے۔مچھرکے منہ میں 6سوئیاں (Needle Six) ہوتی ہیں جن میں سے ہر ایک کا اپنا کام ہوتا ہے۔ ان کی مدد سے وہ صرف مطلوبہ خون ہی چوستے ہیں خراب یا غیر ضروری خون نہیں پیتے۔

12.                     مچھر جب انسان کے کسی حصے کو کاٹتا ہے تو اس حصے کو پہلے اپنے لعاب سے سن کرتا ہے، پھر اس حصہ میں اپنی چھ سوئیاں انجیکشن کی طرح ڈال کر خون پینا شروع کرتا ہے۔




13.                     اس کا لعاب Kiter Painکا کام کرتا ہے جس وجہ سے کاٹتے وقت درد محسوس نہیں ہوتا۔یہ پورا عمل ایک Deviceکی طرح ہوتاہے جیسے Device implantatioN ruralہوتی ہے۔ انسان نے یہ Deviceبھی مچھر کو دیکھ کر بنائی ہے۔

14.                     مچھر میں انتہائی حساس حرارتی Receptorsہوتا ہے جس کی مدد سے کسی بھی جاندار کی موجودگی اور مختلف رنگوں میں خارج شدہ حرارت کو سمجھتا ہے اور اس حرارت کے اعتبار سے جاندار کو پہچان لیتا ہے۔جس وجہ سے مچھر اندھیرے میں بھی جاندار کو پا لیتا ہے۔اور جسم کے اندر خون کی نالیوں کو بھی پہچان لیتا ہے۔

15.                     انسان کا خون صرف مادہ مچھر ہی پیتے ہیں اور یہی مادہ مچھر ہر سال لاکھوں انسانوں کی موت کا سبب بنتے ہیں۔

16.                     مچھروں کی اسپیشیز کے ڈھانچے ایک سو ملین سال پرانے دریافت ہو چکے ہیں، یعنی زمین پر ڈائنوسارز کی موجودگی سے بھی قبل یہ کیڑا موجود تھا۔

17.                     دنیا میں پائے جانے والے حشرات میں مچھروں کو سب سے زیادہ انسانی ہلاکتوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتے ہیں، جن میں خصوصی طور پر بچے ان کا نشانہ بنتے ہیں۔

18.                     عالمی ادارہ صحت کے مطابق سن 2015ء میں ملیریا وائرس کی حامل مچھروں کی قسم انوفیلیس گینَس چھ لاکھ انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنی۔

19.                      اس کے علاوہ مچھر کتوں اور دیگر جانوروں کی ہلاکتوں میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایڈیس گینَس نامی مچھر پیلا بخار مغربی نیل وائرس، ڈینگی، چیکونگُنیا اور زیکا وائرس پھیلاتے نظر آتے ہیں۔

20.                      سائنس دانوں کے مطابق زیکا وائرس بچوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنانے والا یہ وائرس ان کے سر کے حجم کی کمی کا باعث بنتا ہے، جس کا نتیجہ مستقل ذہنی معذوری کی صورت میں نکلتا ہے۔

21.                      یہ بات بھی اہم ہے کہ مچھروں کی مجموعی طور پر کوئی 35 سو اسپیشیز ہیں۔

22.                     مچھر انٹارکٹیکا کے علاوہ دنیا کے ہر براعظم میں پائے جاتے ہیں۔



23.                      انسانوں سمیت دیگر جانوروں کی مدد سے ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچنے کے ساتھ ساتھ یہ خود بھی نہایت متحرک ہوتے ہیں۔ مچھروں کی کئی اقسام انسانوں کے ہم راہ دنیا کے ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک پہنچی ہیں اور حالیہ کچھ دہائیوں میں اس قسم کی تبدیلیٴ مقام میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

24.                     محققین کے مطابق پچھلے 25 برسوں میں ایڈیس البوپیکٹَس نامی مچھر یورپ کے 20 ممالک میں پھیلا اور اس کے پھیلاؤ میں زمینی درجہء حرارت میں اضافے نے اہم کردار ادا کیا۔لیکن مزیدار بات یہ ہے کہ مچھر اس وقت تک اپنی جگہ تبدیل نہیں کرتے، جب تک انہیں اس کی اشد ضرورت نہ ہو۔

25.                     ڈنمارک کی ارہَس یونیورسٹی سے منسلک ٹروپیکل بیماریوں کے امور کے پروفیسر اسکِلڈ پیٹرسن کہتے ہیں، ’’اگر آپ ایک ایسے مقام پر رہتے ہیں، جہاں مچھر موجود ہیں، تو یہ بات طے ہے کہ وہ خون کی تلاش میں دو کلومیٹر دور نہیں جائیں گے۔ وہ آپ سے کوئی دس میٹر دور جگہ کا انتخاب کریں گے۔‘‘

26.                     مچھروں کی حرکت کم فاصلے تک محدود ہوتی ہے، جو چند سو میٹر سے زیادہ کا نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک مچھر کی زندگی عمومی طور پر دو ہفتوں کے قریب ہوتی ہے۔ مچھروں کے پر ایک سیکنڈ میں قریب پانچ سو مرتبہ پھڑپھڑاتے ہیں اور یہ مجموعی طور پر دو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتے ہیں۔



27.                     صرف سالٹ مارش نامی مچھر خوراک کے حصول کے لیے ایک سو ستر کلومیٹر تک جا سکتا ہے۔

28.                     دیگر جانوروں اور حشرات کے مقابلے میں مچھروں میں نر اور مادہ کے درمیان فرق غیرمعمولی ہے۔ صرف مادہ مچھر ہیں، جنہیں اپنے انڈوں کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے، جو خون سے پوری ہو سکتی ہے۔

29.                     مادہ مچھر ہی ہیں، جو کبھی کبھی اس عمل کے دوران وائرس کی حامل ہوں تو یہ وائرس انسانوں یا دیگر جانوروں میں منتقل ہوتا ہے۔

30.                      ان کے مقابلے میں نر مچھر خالصتا سبزی خور ہوتے ہیں اور زیادہ تر پھولوں کے رس پر ہی گزارا کرتے ہیں۔ یہ بات البتہ واضح نہیں کہ کیا یہی وجہ ان نر مچھروں کی مادہ مچھروں کے مقابلے میں نصف عمر کا باعث ہے یا عمر کی کمی کی وجوہات دیگر ہیں۔

31.                     حشرات پر تحقیق کرنے والے انسٹیٹیوٹ فار ڈیویلپمنٹ سے وابستہ فابریس چندرے کے مطابق، ’’باقی کچھ بھی ہو۔ ایکوسسٹم یا فطری نظام میں مچھروں کے لیے جگہ موجود ہے۔‘‘

32.                     پانی میں رہنے والا یہ کیڑا ایک طرف تو یک خلوی اینجائی کی خوراک ہے اور ساتھ ہی مچھلیوں کی پسندیدہ غذا بھی ہے۔ اس کے علاوہ پرندوں، چمگادڑوں اور مکڑیوں کے لیے بھی یہ خوراک بنتے ہیں۔

33.                     دو سے دس ملی گرام کا یہ کیڑا ظاہر ہے، ایک مکمل خوراک تو نہیں بن سکتا، مگر مچھروں کی تعداد بہت ہے، سو ان مچھر خوروں کو ایک خوراک میں کئی مچھر درکار ہوتے ہیں۔

34.                     نر مچھر پودوں کی پولینیشن یا بارآوری کے عمل میں بھی نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

35.                     سن 1939 میں ڈی ڈی ٹی ایجاد کیا گیا، تو اس کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ دنیا سے مچھر ختم کر دیے جائیں۔ تاہم یہ کیڑا حالات سے مطابقت رکھنے اور ہر طرح کے زہر سے خود کو ہم آہنگ کر کے پہلے سے زیادہ قوت سے سامنے آتا ہے۔

یوں سمجھ لیجیے کہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ نہ تو مچھروں کے ساتھ رہا جا سکتا ہے اور نہ ان کے بغیر۔