بن بن چیونٹی


میرے سوہنے موہنے بچو!  یہ کہانی ہے ایک چھوٹی سی چیونٹی، بِن بِن  کی جو ایک درخت کے نیچے رہا  کرتی تھی۔وہ بہت کام کرتی تھی۔ صبح صبح سارے گھر کی صفائی کرنا اور پھر کھانے کی تلاش میں نکل جانا۔ جب بِن بِن  شام کو واپس آتی تو وہ بہت تھکی ہوتی تھی۔ اس کے کپڑے بھی کافی گندے ہو جاتے لیکن اس کو اتنی نیند آرہی ہوتی تھی کہ وہ انہی کپڑوں میں سو جاتی۔ جب صبح ہوتی تو وہ جھاڑو لگاتی ۔ اس کے کپڑوں پر مٹی لگ جاتی لیکن وہ پھر وہ انہی کپڑوں میں کھانا تلاش کرنے نکل جاتی۔
بِن بِن  کو کبھی کپڑے صاف رکھنے کا خیال نہیں آیا تھا۔ اس کے پاس کافی سارے کپڑے اور بھی تھی لیکن ایک ہی فراک بہت سارے دنوں تک پہنے رہنا اس کی عادت بن گئی تھی۔ جو کہ میرے پیارے بچو! بالکل اچھی عادت نہیں تھی! 


ایک دوپہر کو بِن بِن کے ساتھ والے گھر میں ایک اور چیونٹی رہنے کے لیے آئی۔ اس کا نام میِنا تھا۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک!‘‘ اگلی صبح میِنا کے گھر پر دستک ہوئی۔
’’جی کون؟‘‘ میِنا باہر آئی اور اس نے دیکھا ۔ بِن بِن ہاتھ میں پلیٹ لیے کھڑے تھی۔
’’پیاری پڑوسن! یہ آپ کے لیے ہے۔ آپ بہت دور سے آئی ہیں۔ اس لیے آپ آرام کریں۔ کھانا میں آپ کو دو تین تک بھیجتی رہوں گی۔‘‘ بِن بِن نے کہا اور گرما گرم چاولوں کی پلیٹ میِنا کے ہاتھ میں پکڑا دی۔
’’ارے آپ کا شکریہ۔ لیکن آپ اندر آئیں۔ میں آپ کو شہد والا شربت پلانا چاہتی ہوں جو میں ساتھ والے جنگل سے لائی ہوں۔ ‘‘ میِنا نے بھی پیار سے کہا اور بِن بِن کو اندر بلا لیا۔
اس روز بھی بِن بِن   کے کپڑے بے حد میلے تھے اور ان پر بھی مٹی بھی لگی ہوئی تھی۔ جب وہ میِنا کے نئے صوفے پر بیٹھی تو  تھوڑی سی مٹی صوفے کی سیٹ پر بھی لگ گئی۔
جب بِن بِن جانے لگی تو اس کی نظر صوفے پر پڑی۔
’’اوہ! میں معافی چاہتی ہوں۔ اصل میں رات سے یہ کپڑے پہنے ہوئے تھے تو کافی گندے تھے۔‘‘ بِن بِن نے شرمندہ ہو کر کہا تو مینا بولی۔
’’نہیں۔ پیاری بہن! کوئی بات نہیں۔ کل آپ   اچھے والے کپڑے پہن کر آنا۔ میں سارے درخت والوں کی دعوت کر رہی ہوں۔‘‘
میِنا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ 
گھر آکر بھی بِن بِن کافی دیر شرمندہ رہی اور کچھ سوچتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ صبح گھر صاف کرنے لگی تو اس کا پاس پتوں والا جھاڑو ٹوٹ گیا۔ وہ نئے پتے لینے درخت پر چڑھنے لگی ۔ اچانک اسے کچھ باتوں کی آواز آئی۔ یہ میِنا اور اس کی کچھ اور سہیلیاں تھیں۔
’’میِنا ! تم نے بِن بِن کو دعوت میں کیوں بلایا ہے؟  اس کے کپڑے بہت گندے ہوتے ہیں۔‘‘ ایک چیونٹی نے کہا۔
’’ہاں ! اگر وہ آئی تو میں اس کے ساتھ نہیں بیٹھوں گی۔‘‘ یہ دوسری چیونٹی تھی۔
بِن بِن ایک پتے کے پیچھے کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھی۔ وہ اداس ہو گئی۔پھر اس نے کچھ سوچا اور پتے لے کر گھر چلی آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن بِن بِن خوب نہائی دھوئی اور اپنا سب سے اچھا والا سوٹ پہنا۔ جب وہ تیار ہو کر آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی تو اسے اپنا آپ بہت اچھا  اور پیارا لگا۔
دعوت پر سب چیونٹیوں نے بِن بِن کو دیکھا تو حیران ہو گئیں۔ وہ ان سب سے زیادہ اچھی اور صاف ستھری لگ رہی تھی۔ سب نے بِن بِن کی تعریف کی۔
 اس دن کے بعد کسی نے بِن بِن کو  میلے کپڑوں میں نہیں دیکھا۔ اب وہ صاف ستھرے کپڑے پہنتی ہے اور گلاب والی خوشبو بھی لگاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پیارے بچو! ہمیں صاف کپڑے پہننے چاہیں اور اپنے آپ کو گندا نہیں رکھنا چاہیے۔ اس سے اللہ پاک ناراض ہوتے ہیں اور گندے بچوں کو کوئی پسند نہیں کرتا۔