اس کا سارا بیگ جگہ جگہ سے کھلا ہوا تھا۔ اس میں سے ناریل کا کیک ہو یا نمکو کی چٹ پٹی دال، چیونٹیاں مزے سے ہر ہر چیز اپنے سروں پر اٹھائے لے کر جاتی جا رہی تھیں۔
"دبا دب دب! دبا دب دب! دبا دب دب ب ب ب ب!"
وہ ایک ساتھ پاوں اٹھاتیں اور رکھتیں۔ ان کے چھوٹے چھوٹے پاوں سے یہ آوازیں آ رہی تھیں۔
"رکو! رک۔۔ و۔۔و!" ریحان کہتے کہتے رک گیا۔ پھر بھی اس کی آدھی سی آواز سن کر قطار کے درمیان والہ ایک چیونٹی رک گئی۔ اس کا نام جینی تھا۔
ابھی وہ کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ اسے پیچھے سے کئی دھکے لگے۔ دراصل پیچھے والی چیونٹیاں سروں پر نمکو کی دال کا ایک ایک دانہ اٹھائے آنکھیں بند کر کے چلی آرہی تھیں۔ وہ جینی کو رکتے ہوئے نہیں دیکھ سکیں اور ایل دوسرے کے اوپر گرتی چلی گئیں۔
دبا دب دب کی آواز
آوچ پاوچ اف آہ۔۔
میں بدل گئی۔
ریحان نے بڑی مشکل سے ہنسی روکی کیونکہ ملکہ چیونٹی اسے بڑے غصے سے دیکھ رہی تھی۔
ابھی تو تم نے کھانا کھایا ہے۔ چلو جا کر جزیرے کی سیر کرو۔۔۔ اور جینی! تمھیں کتنی بار سمجھایا ہے جب قطار میں چل رہے ہوں تو یکدم نہیں رکتے۔ پہلے اینٹینا کھڑے کر کے سگنل دیتے ہیں۔"
ملکہ چیونٹی نے کہا اور باقی چیونٹیوں کے ساتھ مل کر نمکو سمیٹنے لگی۔
جزیرے کی سیر کا سن کر ریحان کا منہ بن گیا۔ رات گہری ہو گئی تھی۔
"بھلا اس اندھیرے میں میں کیا سیر کروں؟"
اس نے اپنے آپ سے کہا اور آہستہ قدموں سے چل کر ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔
"پتہ نہیں امی ابو کہاں ہوں گے؟ شاید دادا ابو نے انہیں لائف سیور کشتی میں سوار کرا ہی دیا ہو۔"
یہی سوچتے سوچتے ریحان اونگھنے لگا۔ پھر پتھر سے ٹیک لگا کر سو گیا۔
ابھی سورج پوری طرح نہیں نکلا تھا کہ ریحان کی آنکھ شور سے کھل گئی۔ ایسے لگتا تھا کہیں کنسٹرکشن کا کام ہو رہا ہو۔
ٹھک ٹھک ٹھکا ٹھک زوں زوں زوں دھک دھک ٹھک ٹھک!
"افوہ! یہ کیسی آوازیں ہیں۔ خدایا! یہ چیونٹیاں اتنی جلدی کیسے اٹھ جاتی ہیں۔"
ریحان نے سر گھما کر پتھر کے دوسری طرف نظر ڈالی۔
دس بارہ چیونٹیاں اپنے اینٹینا اور اگلی ٹانگوں سے پتھر کے اوپر ضرب لگا رہی تھیں۔
"تم کیا کر رہی ہو؟"
ریحان نے نیند بھری آواز میں پوچھا۔
"ایک تیر سے دو شکار۔"
جینی نے جواب دیا۔ آج وہ قطار میں تو نہیں تھی سو جلدی سے بول پڑی۔ ویسے بھی اسے ریحان بہت پسند آیا تھا۔
"ہونہہ! بھلا یہ کیا زندگی ہوئی؟ سارا دن قطار بنا بنا کر کھانا اکٹھا کرو پھر صبح جلدی اٹھ کر نئے نئے گھر بنانے میں جت جاو۔ اس بھلے لڑکے کو دیکھو۔ کیسی آزادی سے یہاں ویاں چل پھر رہا ہے۔ کوئی اسے کچھ کہنے والا نہیں۔"
جینی ریحان کو دیکھتے ہوئے سوچتی جا رہی تھی۔
"کیا مطلب۔ ایک تیر سے دو شکار؟"
ریحان نے حیرانی سے پوچھا پھر ایک بڑی سی جمائی لی۔
"ہم اس پتھر میں خوراک کا نیا گودام بنا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ تمھیں جگا بھی رہے ہیں۔"
جینی نے جواب دیا۔ پھر کہنے لگی۔
"ویسے تم اپنے گھر میں بھی اتنی دیر تک سوتے رہتے ھے؟"
"کیا۔۔ دیر تک؟ ابھی تو سورج بھی پورا نہیں نکلا اور میں ۔۔۔ میں دس بجے اٹھنے کا عادی ہوں۔"
"ہائیں! دس بجے! ارے واہ!" جینی نے ہاتھ میں اٹھائی ہوئی ننھی سی ہتھوڑی زمین پر رکھ دی اور ریحان کے پاس آگئی۔
پہلے اس نے کچھ سوچا پھر کہنے لگی۔
"اچھا۔ تم ناشتے میں کیا کھاتے تھے؟"
ریحان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جینی نے تھوڑا سا اوپر ہو کر ریحان کے چہرے کی طرف دیکھا۔ وہ دوبارہ سو چکا تھا۔
جینی کچھ اداس ہو گئی ۔ پھر اس نے ہتھوڑی اٹھائی اور پتھر پر ضربیں لگانا شروع کر دیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ گا بھی رہی تھی۔
"ایک ! دو ! تین ! چار۔۔۔ !!! کہاں سے آئے لمبی کار!
پانچ چھ سات! کیسی لگی یہ بات!
آٹھ نو دس! میری کہانی بس!"
اس کی دیکھا دیکھی باقی چیونٹیاں بھی یہی نظم گانے لگیں۔
اب ٹھک ٹھک ٹھکا ٹھک زوں زوں زوں کی آوازوں کے ساتھ یہ نظم بھی شامل تھی۔ لیکن وہ ریحان ہی کیا جو دس بجے سے پہلے جاگ جائے۔ اس دن بھی وہ لمبی تان کر سوتا رہا۔
اسے نہیں پتہ تھا جب وہ جاگے گا تو اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔۔!
ملکہ چیونٹی اسے وہی سزا دینے والی تھی جو وہ اپنے سست چیونٹوں کو دیا کرتی تھی۔
(جاری ہے)