(بیگ کہاں گیا)
ریحان کو کبھی اتنی حیرانی نہیں ہوئی تھی جتنی اس دن ہوئی۔
"تم بول سکتی ہو؟"
"ہاں!" ملکہ چیونٹی نے کہا۔
"تمھیں وہی پھل کھانے پڑیں گے جو ہم تمھیں دیں گے۔ درختوں پر لگے پھل ویسے بھی زہریلے ہیں۔ ہم ان کا زہر چوس لیتے ہیں۔"
پھر وہ واپس مڑ گئی اور بولی۔
"کھا کر دیکھنا۔ ناریل کے کیک کی طرح تو نہیں لیکن تھوڑے بہت تو میٹھے ہیں۔"
"ناریل کا کیک!"
ریحان کو ایک دم کچھ یاد آیا۔ امی نے اس کے بیگ میں چلتے وقت ناریل کا کیک ایک ڈبے میں ڈال دیا تھا۔
"بیگ؟ میرا بیگ؟" ریحان نے جلدی سے اٹھ کر ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ اسے اچھی طرح یاد تھا جب وہ تختے کو مضبوطی سے پکڑے تیر رہا تھا تو اس کا بیگ اس کی کمر پر تھا۔
"میرے بیگ کو یہیں کہیں ہونا چا۔۔۔۔۔"
ریحان کہتے کہتے رک گیا۔ اس کی نظر اپنے بیگ پر پڑ گئی تھی۔ مٹیالے رنگ کا چھوٹا سا سفری بیگ آہستہ آہستہ گھسٹتا ہوا ایک ٹیلے کی طرف چل رہا تھا۔
"اوہ اوہ! میرا بیگ واپس کرو۔ میری امی نے اس میں ناریل کا کیک رکھا تھا۔" ریحان ٹیلے کی طرف بڑھا۔
سرخ چیونٹیاں جو بیگ کو اپنے سروں پر لے کر چل رہی تھیں، ایک دم رک گئیں۔ پھر سب سے آگے والی چیونٹی بولی۔
"توبہ کتنے پیٹو ہو تم۔ خدایا۔ ایک ننھے بچے کے لیے دو ناریل کے کیک، تین نمکو کے پیکٹ، تین بڑے بسکٹ کے ڈبے، پانچ چپس کے پیکٹ، چھ جوس کے ڈبے۔"
"میرا سر تھک گیا ہے۔ کیا تھوڑا سا آرام کر لیں؟"
قطار میں سے ایک چیونٹی نے سر پر دونوں ہاتھ رکھے ہوئے کہا۔
"آرام ۔ کون سا آرام۔ تم تو جینی بس ایک ہی بار آرام کر لو۔" ملکہ چیونٹی کی غصیلی آواز آئی۔ وہ وہیں ایک اور ٹیلے پر چڑھی سارا منظر دیکھ رہی تھی۔
"بن بن۔ باتیں کم کرو۔ اور کام زیادہ۔"
بن بن نے یہ سن کر منہ بنایا۔ پھر اگلی دونوں ٹانگیں کھڑی کر کے اونچی آواز میں کہا۔
"اٹینشن! شروع!"
"دب دبا دب! دب دبا دب! ہو ہو ہا ہا!"
چیونٹیاں کے پاوں کی آوازیں دب داب دب، ان کی گانے کے ساتھ مکس ہو کر ایک زبردست ردھم بنا رہی تھیں۔ ان کے گول گول سروں پر ریحان کا بیگ دائیں بائیں ہل رہا تھا۔ دور سے دیکھنے پر ایسا لگتا تھا جیسے بیگ خود ہی لڑکھڑاتا ہوا آگے کی جانب سرک رہا ہے۔
ریحان اپنے بیگ اور چپس نمکو سب بھول کر پنجوں کے بل بیٹھ گیا اور ان کو غور سے دیکھنے لگا۔
وہ واقعی کسی فوجی پریڈ کی طرح پاوں اٹھا رہی تھیں۔
"دب دبا دب دب دبا دب!"
"ہو ہو ہا ہا ہا ا ا ا ا"
جب تک وہ پورے بیگ کو ٹیلے کے اندر بنے بڑے سے سوراخ میں نہ لے گئیں، وہ گاتی رہیں۔
پھر یکدم خاموشی چھا گئی۔ ریحان نے ادھر ادھر دیکھا۔ شام ہو چلی تھی۔ سورج غروب ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ ہوا سے درختوں کے پتے آہستگی سے ہل رہے تھے۔
"پتہ نہیں امی ابو کہاں ہیں۔ کاش وہ زندہ ہوں ٹھیک ٹھاک ہوں۔۔۔۔ "
اس نے ٹھنڈی سانس لی اور سر جھکا کر گھاس کے تنکے چننے لگا۔
تھوڑی سی دیر بعد اس کو اپنے کندھے پر گدگدی سی ہوئی۔
"ہیلو ریحان۔ کیسے ہو؟"
ساتھ ہی ایک موٹی سی آواز آئی۔
ریحان نے مڑ کر دیکھا۔ ایک موٹا سا چیونٹا پچھلی ٹانگوں پر بڑے اسٹائل کے ساتھ کھڑا تھا۔
"میرا نام ٹاٹا ہے۔ میں سن شائن لینے آیا ہوں۔ اس وقت کی سن شائن اچھی ہوتی ہے۔"
چیونٹے نے کہا۔ پھر وہیں ٹیلے کی چوٹی پر اس نے بہت اچھی طرح ایک ننھی منی سی چٹائی بچھائی اور اس کے اوپر الٹا لیٹ گیا۔
"آہا! یہ چٹائی کتنی cool ہے! بن بن کو تھینکس کہنا پڑے گا۔"
ریحان نے جھک کر اس سٹائلش چیونٹے کو غور سے دیکھا۔ اس نے آنکھوں پر پتوں کی بنی ہوئی چھوٹی سی سن گلاسز بھی لگا رکھی تھی۔ اسے ہنسی آ گئی۔
"تمھاری عینک بہت اچھی ہے۔ یہ تم نے کہاں سے لی؟"
ریحان نے پوچھا۔
"سرمئی ٹیلے کے سستے بازار سے۔۔۔ اوہ سوری۔ میرے جم جم ماموں لائے ہیں۔ وہ جہازوں کے سفر کرتے رہتے ہیں۔ جی!"
ریحان کھکھلا کر ہنس پڑا۔
"ایکچوئلی! آج میں نے سپائسی لنچ کر لیا ہے۔ اوہ! مجھے لگتا ہے اسپائسز میری زبان میں ہی ٹھہر گئے ہیں۔ اس لیے میں الٹی الٹی باتیں کر رہا ہوں۔" چیونٹے نے ایک ہاتھ سے گلاسز کو ٹھیک کیا۔
"تم دن کے وقت کہاں تھے۔ میں نے اتنی دیر سے تمھیں نہیں دیکھا۔" ریحان کو خیال آیا۔
"میں تو بس سوتا رہتا ہوں۔ یا پھر۔۔۔۔۔۔؟"
چیونٹے نے پھر پر اتنا زور دیا لیکن اس کو سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔ الٹا لیٹے سر کو اگلی ٹانگوں پر ٹکائے وہ کسی سوچ میں تھا۔
"ویسے وہ تمھارا نمکو بہت سپائسی تھا۔ تم کیسے کھاتے ہو؟"
چیونٹے نے ایک دم کروٹ لی اور پوچھنے لگا۔
اس کی بات سن ریحان کو پھر شدت سے بھوک کا احساس ہوا۔ وہ کوئی جواب دیے بغیر جلدی سے اٹھا اور اس ٹیلے کے پاس جا کھڑا ہوا جس میں چیونٹیاں اس کا بیگ لے کر گئی تھیں۔
پہلے تو وہ کچھ سوچتا رہا پھر اس نے نیچے بیٹھ کر اس سوراخ کے اندر جھانکا۔
"اوہ۔۔۔ہائیں! یہ کیا۔۔۔۔!"
اس کے منہ سے نکلا۔
(جاری ہے)