تحریر: قاسم بن نظر
اس رات غالباً دو بجے کا عمل ہو چلا تھا اور میں نیم نیند کے عالم میں کروٹیں بدل رہا تھا۔ اگر عوام کی فلاح و بہبود کا خیال نہ ہوتا تو میں یہ کبھی نہ بتاتا کہ کروٹیں بدلتے رہنے کی ایک سنگین وجہ بجلی کی عدم موجودگی تھی، جبکہ باہر موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ اچانک دروازے پر زوردار دستک ہوئی اور میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ مجھے سو فیصد شک تھا کہ کسی نے میرے ہی دروازے پر دستک دی ہے۔
اس موسلا دھار بارش میں کون آٹپکا؟ بہرحال جبکہ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ اور پیر کو پیر سجھائی نہ دیتا تھا، کسی طرح اپنے اندازوں اور مفروضوں کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے دروازے تک گیا۔ دروازے میں بنائے گئے ایک ایمرجنسی سوراخ سے باہر دیکھنے کی کوشش کی اور آنے والے کا چہرہ دیکھ کر دم بخود رہ گیا، بلکہ یوں کہیے کہ دم نکلتے نکلتے رہ گیا۔ یہ عزت مآب محترم و مکرم، معزز مہمانِ گرامی جناب دلشاد خانپوری صاحب تھے۔ یہ خود اپنے آپ کو ملک کے چوٹی کے ادیبوں میں شمار کرواتے ہیں۔ کئی کتابیں لکھ چکے ہیں، مگر شائع کوئی بھی نہ ہوئی۔
میں نے فوراً دروازہ کھول دیا۔ وہ برساتی کوٹ میں ملبوس تھے۔ ایک ہاتھ میں چھتری تھی اور دوسرے ہاتھ میں ایک تھیلے نما بریف کیس تھا۔ اندر داخل ہوتے ہوئے انہوں نے کہا ”ارے میاں! دروازہ کھولنے میں اتنی دیر کردی۔ اگر طوفانی بارش میں مجھے کوئی حادثہ پیش آجاتا تو قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان اُٹھانا پڑتا“۔
”کاش ایسا ہی ہوتا “۔میں بڑبڑایا، مگر انہوں نے یہ بڑبڑاہٹ سن لی تھی ”کیا کہہ رہے ہو میاں؟“ انہوں نے استفسار کیا۔ میں نے بات بناتے ہوئے کہا ”اگر آپ کو اپنی جان کا اتنا ہی خیال تھا تو اتنی بارش میں نکلنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟“
وہ بولے ”جیسا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ میں ایک نئی کتاب لکھے ڈال رہا ہوں۔ مگر موضوع کچھ ایسا ہے کہ میرے اکیلے کے بس کا روگ نہیں“۔
میں نے تھوڑا برہم ہوکر کہا ”مگر ایسی کیا آفت آگئی کہ رات کے دو بجے بارش میں چلے آئے“۔
دلشاد خانپوری نے کہا ”بھئی پبلشر نے فوراً کتاب مانگی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس کا ارادہ ہی نہ بدل جائے۔ اس لئے میری تو دنوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں“۔
”اور آپ نے سوچا کہ اسی لئے دوسروں کی نیندیں بھی حرام کرتا چلوں“۔
”اور کیا؟“ دلشاد خانپوری کا دل شاد ہوگیا“۔ اسی لئے میں نے اپنے ایک اور بے جگری دوست منور کو بھی فون کرکے بلالیا ہے“۔
”کہاں؟“
”اپنے گھر پر....“
”مگر آپ تو یہاں ہیں“۔
”لو بھلا بتاﺅ۔ یہ تو حالات ہیں میرے دماغ کے۔ مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میں تو خود تمہارے گھر پر جانے والا ہوں“۔
”اچھا جیسا کہ آپ نے ایک بیان داغا کہ نئی کتاب کا موضوع آپ کے اکیلے کے بس کا روگ نہیں تو میں اس سلسلے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں“۔
”بھئی پہلے تو ایک کپ گرما گرم چائے پلادو“۔
”اتنے گھپ اندھیرے میں نہ تو مجھے پتی کا پتہ ہوگا نہ شکر کی خبر ہوگی۔ میرے پوچھنے کا مطلب تھا کہ کتاب کے بارے میں کچھ انکشافات کیجئے، تاکہ رائے عامہ ہموار ہوجائے“۔
”بھئی پبلشر نے جس موضوع پر کتاب مانگی ہے وہ ہے ”خطوط لکھنے کے مروجہ طریقے“۔ اس موضوع پر مجھے خط لکھنے کے آداب، جدید خطوط پر استوار کرنے ہیں“۔
تب میں سمجھا کہ اتنے ”خشک“ موضوع پر کتاب لکھے کے لئے طوفانی بارش میں ان کا بھیگتے ہوئے آنا بالکل بجا تھا۔ دلشاد خانپوری دوبارہ گویا ہوئے۔ ”میں اپنی کتاب کے چند اقتباسات تمہیں سناتا ہوں، تاکہ میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے“۔
”میں نے گھبرا کر کہا ”مگر منور کو تو آجانے دیجئے ورنہ میں یہ بوجھ اکیلا اپنے دل پر سہہ نہ سکوں گا“۔
”مگر میں اب منور کے آنے کا انتظار نہیں کرسکتا“۔
”مگر لائٹ کے آنے کا انتظار تو آپ کو کرنا ہی پڑے گا“۔
میں نے اندھیرے میں تیر چلا کر دلشاد خانپوری کو ایک سنگین جرم کا ارتکاب کرنے سے روکنے کی آخری کوشش کی، مگر یہ بھی بے سود ثابت ہوئی، کیونکہ وہ کہہ رہے تھے ”ناممکن.... مجھے اپنے الفاظ زبانی یاد ہیں“۔
اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ دلشاد خانپوری نے اپنا خیالِ ناقص پیش کیا ”یہ یقیناً منور کا فون ہوگا اور مجھے بے چینی سے یاد کررہا ہوگا“۔
میں نے فون اُٹھایا تو دلشاد خانپوری کی چھٹی حس کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا، کیونکہ دوسری طرف منور ہی تھا، مگر دلشاد خانپوری کا آدھا خیال غلط تھا، کیونکہ منور دلشاد خانپوری کو کوسنے دے رہا تھا۔
”کیا میں اس رات میں کچھ برا ہی سنوں گا؟“ میں بے چارگی سے سوچنے لگا۔ بہرحال منور کو میں نے دلشاد خانپوری کے موجودہ جائے وقوع کے بارے میں بتایا اور فون رکھ کر اس کی متوقع تشریف آوری کا انتظار کرنے لگا۔ منور کے آنے تک میرے اور دلشاد خانپوری کے درمیان جو نوک جھونک ہوئی وہ کچھ یوں تھی۔
میں: ”قبلہ! آج کل کے دور میں جبکہ ای میل اور ایس ایم ایس کا زمانہ ہے۔ آپ کو خط لکھنے کے طریقوں پر کتاب چھاپنے کے بارے میں کیا سوجھی؟“
وہ: ”بھئی جب کھانا پکانے کی ترکیبوں پر کتابیں چھپ سکتی ہیں تو خط لکھنے کے طریقوں پر کتابیں کیوں نہیں چھپ سکتیں اور جہاں تک میری معلومات ہیں، اس ضخیم و ثقیل موضوع پر مجھ سے پہلے کسی نے ایسی کتاب لکھنے کی غلطی نہ کی ہوگی، لہٰذا میں ہی وہ پہلا موجد ہوں گا....“
میں: ”ادیب....“
وہ: ”ہاں ہاں.... جو کہ اس موضوع پر کتاب لکھ رہا ہے“۔
میں: ”مگر کیا ایسے موضوع پر آپ کی کتاب کوئی بزنس کرسکے گی؟ جس سے عوام کو کوئی دلچسپی نہ ہو“۔
وہ: ”جب تک کتاب نہیں چھپے گی عوام کو دلچسپی کیسے ہوگی اور کتاب چھپ جانے دو۔ یہ ہیری پوٹر کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے گی“۔
میں: ”آپ نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ مجھ غریب سے آپ اپنی کتاب کے سلسلے میں کیا کام لینا چاہتے ہیں“۔
”کام تو سارا پایہ تکمیل تک پہنچ چکا۔ بس میں چاہتا تھا کہ اپنے رازدانوں کو یہ کتاب سنا کر اپنی کتاب کو جملہ غلطیوں سے پاک کرلوں۔ آخر کو یہ میری دسویں غیر مطبوعہ کتاب ہے“۔
میں: ”لیکن اس گھپ اندھیرے میں آپ سیکڑوں غلطیاں کیسے درست کریں گے؟“
وہ: ”مبالغہ آرائی کی بھی حد ہوتی ہے، میرے مسودے میں اِکا دُکا غلطیاں ہی ہوں گی۔ اس سے زیادہ ہرگز نہیں“۔
میں: ”تو پھر یہ کام صبح پہ رکھ چھوڑیے اور مجھے بھی سکون سے جی لینے دیجئے“۔
وہ: ”واہ، یہ خوب رہی تم سکون میں رہو اور مہمان جو کہ خدا کی رحمت ہے، وہ زحمت میں رہے کہ حالِ دل کس کو سنایا جائے“۔
میں نے کھڑے ہوکر کہا ”تو میں ایسا کرتا ہوں کہ ایک شمع روشن کردیتا ہوں تاکہ آپ اپنے مسودے کے ساتھ ساتھ میرے چہرے پر وہ تاثرات بھی دیکھ سکیں جو آپ کی کتاب کے قارئین کے چہرے پر نمایاں ہوں گے“۔
میں اندھیرے میں ناحق کسی موم بتی کے بچے کھچے ٹکڑے کی تلاش میں جت گیا، اگرچہ مجھے معلوم تھا کہ یہ تلاش کسی دریافت پر نتیجہ خیز ثابت نہ ہوگی، مگر یہ کام دلشاد خانپوری کا گھٹیا مسودہ سننے سے بہتر تھا اور اس میں مجھے کسی دوسرے کا خطرہ بھی نہ تھا۔
جتنی دیر میں کسی ٹوٹی پھوٹی موم بتی کی تلاش میں سرگرداں رہا، دلشاد خانپوری کے مندرجہ ذیل مکالمے میرے ذہن کے کسی گوشے میں پتھر پر لکیر کی طرح پیوست ہوگئے۔
”ارے میاں، موم بتی ڈھونڈ رہے ہو یا ازاربند کی لکڑی“۔
”بھئی ایک آدھ موم بتی تو جیب میں بھی رکھی جاسکتی ہے، بجلی کا کیا بھروسہ کب دھوکہ دے جائے“۔ (اور آپ کا کیا بھروسہ کہ کب دھوکے سے ٹپک پڑیں)
”بھئی ماچس کی فکر نہ کرنا ماچس میرے پاس ہے، اگرچہ بارش میں ساری گیلی ہوچکی ہیں“۔
”بھئی موم بتی تلاش کررہے ہو یا اندھیرے میں سوئی تلاش کررہے ہو“۔
”بھئی کہیں دوسرے کمرے میں جاکے سو تو نہیں گئے کہ میں اکیلا بیٹھا اُلو کی طرح جاگتا رہوں۔ میری بات پر اچھا تو کہہ دو کم از کم“۔
”جتنی دیر میں موم بتی ملے گی اتنی دیر میں تو سورج نکل آئے گا“۔
اس سے تو اچھا تھا کہ میں تمہیں اپنے دولت خانے بلا لیتا۔ کم از کم وہاں ایمرجنسی لالٹین تو موجود ہے“۔
اسی اثناءمیں دروازہ دھڑا دھڑ بجنے لگا۔ میں سجھ گیا کہ یہ منور ہے جو دلشاد خانپوری کے جرم کی سزا دروازے کو دے رہا ہے۔ اس کے انداز سے مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ منور، دلشاد خانپوری کی جان لینے کے درپے ہے اور اگر واقعی وہ اسی موڈ میں تھا تو میں اس کو اس اقدام سے باز رکھنے کی غلطی ہرگز نہ کرتا۔ میں پہلے کی طرح دروازے تک پہنچ جانا چاہتا تھا، مگر اس سے پہلے کہ میں دروازے تک پہنچتا، دلشاد خانپوری کی ایک دل خراش چیخ برآمد ہوئی۔ ساتھ ہی ان کی ہائے ہائے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ وہ راستے میں موجود کسی شے سے متصادم ہوچکے تھے اور زمین بوس ہوگئے تھے، چونکہ میں زمین پر پڑی ہوئی چیزیں اُٹھانے کا قائل نہ تھا، لہٰذا صدر دروازے پر پہنچا اور منور کی موجودگی کی تصدیق کرکے دروازہ کھول دیا۔ منور بھیگی بلی بنا ہوا تھا (محاورتاً نہیں حقیقتاً)
”دلشاد خانپوری صاحب نے میری خوب بھاگ دوڑ کرائی“۔ منور اندر داخل ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ”کہاں ہیں وہ؟ میرا دل چاہ رہا ہے کہ ان کا منہ نوچ لوں“۔ وہ بھیگی بلی بنے ہونے کا عملی مظاہرہ بھی کرنا چاہتا تھا، مگر میں نے کہا۔
”اب انتقام لینے کی ضرورت نہیں۔ قدرت انہیں پہلے ہی سزا دے چکی ہے“۔ ہمیں اندھیرے میں دلشاد خانپوری کی زندہ لاش ڈھونڈنے میں چنداں دشواری پیش نہ آئی، کیونکہ منور ایک ایسی ٹارچ لایا تھا جس میں ایک کیپ بھی تھا۔ (بعد میں اس نے جب بتایا کہ یہ کیپ کانوں میں پہنی جاتی ہے تو میں مزید ششدر رہ گیا کہ سر پر پہننے والی چیز کانوں میں کیسے پہنتے ہیں، مگر اس نے وضاحت کی کہ یہ کان کن لوگ پہنتے ہیں)
دلشاد خانپوری کی دائیں ٹانگ میں فریکچر واقع ہونے کا احتمال تھا، کیونکہ وہ کرسی سے یوں ٹکرائے تھے جیسے منور سے ملنے کی بے تابی میں راستے میں آنے والی کرسی کو فٹ بال کی طرح لات مار کر ہٹانا چاہ رہے ہوں۔ دلشاد خانپوری اپنی ٹانگ پکڑے ہائے ہائے کررہے تھے۔ ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ گھر میں (میرے) طبی امداد کا جملہ سامان موجود نہ تھا اور صبح تک انہیں درد کی اذیت سے دوچار رہنا تھا۔
وہ اپنی ہائے ہائے کا بے سُرا راگ الاپ رہے تھے۔ یہاں تک کہ منور کو کہنا پڑا ”دلشاد خانپوری صاحب، اس بے سروپا قصے کے بجائے اگر آپ اپنی پہلی قابلِ اشاعت کتاب سے ہی کچھ سنادیں تو ہمارے فرشتے بھی آپ کے مشکور و ممنون ہوں گے“۔
یہ سننا تھا کہ دلشاد خانپوری کا درد فوراً رفوچکر ہوگیا اور وہ بول اُٹھے ”ارے نامعقول! اگر تم پہلے ہی اپنی خواہش کا اظہار کردیتے تو میں اتنی دیر تک تڑپنے سے بچ جاتا“۔
میں سمجھ گیا کہ اب ہمارے تڑپنے کی باری شروع ہوگئی ہے۔ دلشاد خانپوری نے اپنا بریف کیس اُٹھایا اور جونہی انہوں نے بریف کیس کھولا ایک دیو قسم کا چوہا اُچھل کر ان کی گود میں جا بیٹھا۔ اسے دلشاد خانپوری کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنا چاہئے تھا جو دلشاد خانپوری کی تحریریں پڑھنے والے سوچا کرتے ہیں، کیونکہ نہ جانے کب سے وہ ”خطوط لکھنے کے مروجہ اور جدید طریقے“ کے مسودے سے مغز ماری کررہا تھا۔ دلشاد خانپوری بہرحال بے ہوش ہوچکے تھے اور چوہا انہیں ”ایسوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے“ کا سبق دے کر بھاگ چکا تھا (دُم دبا کر)۔ بہرحال پو پھٹنے تک دلشاد خانپوری کو ہوش میں لانے کی کتنی ترکیبیں زیر استعمال رہیں سب ناکام ثابت ہوئیں۔ صبح کاذب کے وقت دلشاد خانپوری کو ہوش آیا اور اپنے آپ کو زندہ پاکر انہیں بڑی خوشی ہوئی۔
صبح کے پُرنور اُجالے میں انہوں نے اپنے بریف کیس کی تفتیش کی تو اس میں ایک سوراخ نظر آیا۔ جہاں سے چوہے کی آمدورفت ہوئی تھی اور اس میں موجود کتاب کا مسودہ ایسا دکھائی دیتا تھا جیسے آثار قدیمہ کی بوسیدہ تحریریں ملی ہوں۔ دلشاد خانپوری کو بڑا دُکھ تھا کہ اس مسودے کی انہوں نے فوٹو اسٹیٹ نہیں کرائی تھی، مگر ساتھ ہی مجھے اس بات کی بڑی خوشی تھی کہ ایک ہزار افراد یہ دُکھ اُٹھانے سے بچ گئے تھے (مگر صرف اس وقت تک جب تک دلشاد خانپوری دوسری کتاب نہ لکھ لیں)۔