اللہ نور السماوات و الارض



 اللہ زمین و آسمان کو نور ہے۔ 

اس آیت کا مطلب سمجھتے ہیں کہ نور کیا ہے۔ 

نور ہم لغت میں کسی بھی ایسی کیفیت کو کہتے ہیں جو سورج چاند وغیرہ سے دوسری چیزوں پر پڑتی ہے۔ 

اب اگر آیت کے ظاہری معنی میں جائیں کہ اللہ نور ہے ۔ یعنی یہ جو نور ہمیں نظر آتا ہے یہ خدا ہے تو ناممکن ہے۔ 

کیونکہ اس کے کئی دلائل ہیں۔ 

پہلی یہ اگر یہ نور کوئی جسم ہے تو جس کا حادث ہونا یعنی بننا پیدا ہونا وغیرہ ضروری ہے اور اللہ کے لیے حادث ہونا ناممکن ہے ۔ وہ ازل سے ابد ہے۔ 

دوسرا یہ کہ اگر یہ نور کوئی صفت ہے تو تب بھی یہ خدا نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ کا وجود جو ہے وہ ہے اس میں کوئی اور صفت حلول نہیں کر سکتی یا داخل نہیں ہو سکتی۔ 

تیسرا یہ کہ


 یہ نظر آنے والا نور ہی اللہ تعالیٰ نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ نور ہر روز چلا جاتا ہے پھر آتا ہے پھر جاتا ہے۔ کبھی طلوع ہوتا ہے کبھی غروب ہوتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہم نہیں کہہ سکتے۔ 

پانچویں بات یہ کہ یہ نور خود اجسام کا محتاج ہے جیسے سورج چاند وغیرہ۔ اگر یہ نور اللہ کا ہوتا ہے تو کسی دوسرے جسم کا محتاج نہ ہوتا۔ 

 چھٹی بات یہ کہ اگر یہ نور ازل سے ابد تک ہوتا مطلب ہمیشہ سے ہوتا تو اس میں حرکت ہوتی یا یہ ساکن ہوتا۔ اگر اس میں حرکت ہوتی تو حرکت کا مطلب ہے ایک جگہ چھوڑ کر جانا دوسری جگہ جانا۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہیں ۔ اسی لیے ہم نور کو خدا نہں کہہ سکتے۔ 

اگر یہ نور ساکن ہوتا یعنی غیر متحرک ہوتا تب بھی یہ کہنا غلط ہے کہ یہ نور خود اللہ ہے۔ کیونکہ نور ساکن ہے ہی نہیں ۔ یہ چلا جاتا ہے پھر آجاتا ہے۔


پس ثابت ہوا کہ یہ نور خود اللہ کی ذات نہیں ہے۔ 

۔۔۔۔۔ 

اس میں ایک اور نکتہ آجاتا ہے کہ نور جسم ہے یا صفت۔ یعنی آبجیکٹ ہے یا کوالٹی۔ 

اگر ہم نور کو جسم کہیں تو یہ غلط ہے کیونکہ جسم نور کے بغیر بھی جسم ہی رہتا ہے اور نظر آتا ہے۔ 

نور صفت ہے کیونکہ یہ