مجھے
یاد ہے میں شادی سے پہلےپینٹنگز بنایا کرتی تھی۔ پنسل شیڈنگ، واٹر کلرز اور
آئل پینٹس۔ یہ شوق میری زندگی میرا جنون تھا ۔ میں پینٹنگ بورڈ کے سامنے
گھنٹوں کھڑی رہتی تھی۔ کبھی مجھے تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی تھی۔یہ اور بات ہے کہ
پینٹنگ بنانے کے بعد میں اسے کچھ دن تک تنقیدی نظروں سے دیکھتی رہتی تھی پھر پھاڑ
کر پھینک دیا کرتی تھی۔ کیونکہ مجھے اپنے فن پر کبھی کوئی تعریف یا حوصلہ افزائی
نہیں ملی۔
ابو
کچھ سخت طبیعت کے تھے اور امی جی ، ہم چھ بہن بھائیوں کے کاموں میں ازحد مصروف۔
میں نے اپنی آخری پینٹنگ، ایک بڑے چارٹ پیپر پر جوبنائی تھی وہ ایک
بچے اور بلی کی تھی ۔
مجھے
یاد ہے کہ میں نے یہ تصویر پنسل شیڈنگ میں بنائی تھی اور مجھے اس میں پورا
ایک ہفتہ لگا تھا۔ بچے کے بالوں کو اصل کی ماننددکھانے میں، میں گھنٹوں کھڑی رہی تھی۔
اس دن یکدم میری باجی کمرے میں آئیں۔ وہ بچے کے بال دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ پھر
وہ مسکراتی نظروں سے مجھے دیکھ کر کہنے لگیں۔ ’’یہ تو بالکل اصلی لگتے
ہیں!‘‘ میں آپ کو بتاؤں میں اس پینٹنگ کو پھاڑ نہیں سکی۔ اس
وجہ سے نہیں کہ میں نے اسےدن رات کی محنت سے بنایا تھا۔ بس میرا دل ہی نہیں مانا۔
میں نے وہ اپنی، کمپیوٹر کی ٹیچر کو گفٹ کر دی تھی۔ مجھے پتہ نہیں انہوں نے اس کا
کیا کیا لیکن میرا دل کہتا ہے ہو سکتا ہے وہ پینٹنگ آج بھی کسی دیوار پر لگی ہو
اور اس میں ایک چھوٹا سا بچہ میٹ پر بیٹھے، اپنی بلی کے سر پر ہاتھ رکھ کر مسکرا
رہا ہو۔
یہ
میرا ایک ٹیلنٹ تھا جو وقت کی لہروں میں گم ہو گیا۔مجھے ایک اور بات یاد آرہی ہے۔
شادی کے بعد جب میں نے یونیورسٹی جوائن کی تو بہت مشکل ہوئی۔ لیکن اس سمسٹر کا
رزلٹ بہت اچھا آیا۔ کیونکہ میں نے غیر معمولی شوق اور لگن کے ساتھ پڑھائی کی تھی۔
پڑھنا میرا شوق تھا۔ میرا ٹیلنٹ تھا۔ اس جذبے اور شوق کو گھر کے بہت سارے کام،
برتنوں کا ایک بڑ ا ڈھیر، سسرال کی سیاستیں اور کلاس فیلوز کی عجیب سی نظریں کچھ
بھی نہیں کہ سکے۔ میں آگے بڑھتی گئی۔ جب میرے لیے یونیورسٹی جانا خراب صحت کی وجہ
سے بالکل ناممکن ہو گیا میں نے پرائیویٹ پڑھنا شروع کر دیا۔ کیوں؟ کیونکہ میرا شوق
مجھےچین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ یہ مجھے کہتا تھا مشکلات کی پروا نہیں کرو۔
آزمائش تمھار ا بال بیکا نہیں کر سکتی۔
چندہفتے
پہلے جب میں نے ویب کہانیاں کا پراجیکٹ شروع کیا تو میرے ساتھ بڑی عجیب سی بات
ہوئی۔ مجھے ٹین ایج بچوں کے لیے کہانیاں لکھتے ہوئے اتنی مشکل پیش آئی کہ
بس۔سوچ سوچ کر دماغ دکھ گیا۔ لیکن جب میں ننھے بچوں کے لیے لکھنے کے لیے بیٹھی تو
بغیر سوچے سمجھے آدھے گھنٹے میں دو کہانیاں میرے قلم سے نکل گئیں۔ مجھے نہیں پتہ
تھا میں نے کیسا لکھا ہے۔ لیکن جب میرے ہیڈ نے ننھے بچوں کی کہانیوں کی خاص طور پر
تعریف کی تو میں نے وہ کہانیاں ایک قاری کی حیثیت سے پڑھیں۔ مجھے بڑا مزہ آیا۔
میں نے سوچا یہ تو میں نے واقعی اچھی لکھی ہیں۔ یہاں میں نے پینٹنگ اور
پڑھائی کے بعد ایک اور شوق، ایک اور ٹیلنٹ دریافت کیا۔ مجھے پتہ لگا میں چھوٹے
بچوں کی کہانیاں بہت اچھی لکھ سکتی ہوں۔ میں بغیر کسی تھکاوٹ کے، بنا کوئی بات
سوچے بس لکھ سکتی ہوں اور اچھا لکھ سکتی ہوں۔
یہاں
مجھے ایک بات اور یاد آگئی۔ میری ایک عزیزہ ہیں۔ ان کو کپڑے سینے اور ان کی
ڈیزائنگ میں غیر معمولی مہارت حاصل ہے۔ پچھلے سال روزوں میں جب وہ میرے ہاں آئیں
تو کمزور سی نظر آرہی تھیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگیں ۔ ہمارے محلے میں ایک
آنٹی ہیں ۔ انہوں نے عید کے کچھ کپڑے دیے سینے کے لیے ۔ تو میں نے سی دیے۔
ان کو میری سلائی اتنی پسند آئی اب وہ اپنے سارے گھر کے کپڑے میرے حوالے کر گئی
ہیں۔ تو میں رات گئے کپڑے سیتی رہتی ہوں۔ میں نے پوچھا۔ اور کیا دیتی ہیں وہ
اس کے بدلے۔ کہنے لگیں ۔’’ کچھ نہیں۔ انہوں نے بہت کہا لیکن میں نے سوچا۔ یہ
تو میں ویسے ہی کر سکتی ہوں۔ مجھے اس کا معاوضہ لینے کی کیا ضرورت ہے۔ بس مجھے شوق
ہے۔ ‘‘ یقین جانیں مجھےاتنی حیرت ہوئی کہ بس۔ میں نے ان کو کہا
کہ آپ اتنی محنت کر رہی ہیں ۔ آپ کو اس کا کچھ تو لینا چاہیے۔
لیکن وہ مان کر نہیں دیں۔ کہنے لگیں۔’’ میں ایک دو گھنٹے میں پورا سوٹ سی لیتی
ہوں۔ کپڑے سیتے ہوئے اور ڈئزائینگ کرتے ہوئے مجھے کبھی کوئی خاص تھکن محسوس نہیں
ہوئی۔ یہ میرا شوق ہے۔ مجھے پیسوں کی کوئی چاہ نہیں۔ ‘‘
میری
ایک اور جاننے والی ہیں۔ ان کا ماشاء اللہ بھرا پرا سسرال ہے۔ خود ان کے چھ بچے
ہیں۔ سب سکول جاتے ہیں ۔ اور وہ بھی ایک سکول میں پڑھاتی ہیں ۔ پڑھانا ان کا جنون
ہے ۔مجھے یاد ہے ہم اس دن ان کے گھر گئے۔ ان کی والدہ کی طبیعت
خراب تھی تو اپنی والدہ کو اپنے ہاں لے آئی تھیں۔ میں نے دیکھا ان کا گھر شیشے کی
مانند چمک رہا تھا۔ جس تین منزلہ ریک کے ساتھ میں بیٹھی تھی وہ
بلامبالغہ ٹرافیز ، سرٹیفیکٹس اور انعامات سے بھرا پڑا تھا۔ یہ ان کی بچوں
کی بہترین تعلیم و تربیت کا منہ بولتا ثبو ت تھا۔ میں نے کہا۔ آپ یہ سب کیسے مینج
کر لیتی ہیں۔ کہنے لگیں ۔’’ میں نے اپنی ساس سے کہا پلیز مجھے سکول میں پڑھانے سے
مت روکیں۔ یہ میرا جنون ہے۔ آپ کو کبھی گھر یا بچوں کے کاموں میں
میری کوتاہی نظر نہیں آئے گی۔ اور پھر میں نے یہ کر کے دکھا دیا۔ آج میری ساس
میرے سے بہت خوش ہیں۔ میرے شوہر کو کبھی میرے سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ ‘‘
یہ بات کہتے ہوئے ان کے چہرے پر بڑی پیاری سی چمک تھی۔ کچھ ایسی خوشی۔۔ جو اپنے
آپ کو پہچان کر اور اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوا کر ملتی ہے۔
آپ
نے کئی ایسے لوگوں کی داستانیں پڑھی رکھی ہوں گی جنہوں نے زندگی میں آنے والی
مشکلات کی کوئی پروا نہیں کی۔ جنہوں نے دنیا کو دکھا دیا وہ سخت حالات سے بھی گزر
کر اپنا آپ منوا سکتے ہیں۔کیسے اور کیونکر وہ یہ سب کر پائے؟ وہ کون سی پہلی
سیڑھی تھی جس پر چڑھ کر جب انہوں نے اوپر دیکھا تو باقی تمام زینے اپنی
اونچائی اور سختیوں کے باوجود ان کو پست اور آسان دکھائی دینے لگے؟
وہ پہلی سیڑھی وہ پہلا قدم ۔۔۔ اپنے آپ کو پہچاننے کا تھا! اپنا آپ جاننے
کا تھا۔
میرا
ایک مشورہ ہے۔ آپ ایک پورے دن کے لیے خود سے الگ ہوکر ایک ناظر بن جائیں ۔ اپنی Audience
آپ بن جائیں۔ اور خود کو غور سے
دیکھتی رہیں۔ آپ کو کس کام میں تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی؟ آپ کو کون سا کام بغیر
کسی بدلے، معاوضے اور غرض کے بغیر بھی کرنا قبول ہے؟ کون سا کام کر کے آپ کو اندر
سے خوشی ملنے لگتی ہے؟ کون سا کام کر کے آپ کو ایسا لگتا ہے جیسے آپ اسی کام کے
لیے پیداہوئی تھیں؟
آپ
کا ایسا کون سا شوق ہے جس کے لیے آپ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں؟ کون سی
ایسی activity ہے
جس کو کرکے آپ کو تھکاوٹ کی بجائے مزید تازگی ملتی ہے؟ کس کام
کے بارے میں سوچنا آپ کے تخیل کو اور مزہ، اور لطف دیتا ہے؟ کس شوق
میں آپ کو ذہنی سکون اور خوشی ملتی ہے؟ اور کون سا ایسا کام ہے جس کو کرنے
کے بعد آپ معاوضے اور تعریف سے بھی بے نیاز ہو جاتی ہیں؟ کیونکہ اس کو کر کے خود
آپ کے اندر ایک ایسا سکون اتر آیا ہوتا ہے جو آپ کو غیر ضروری باتوں کے بارے
میں سوچنے نہیں دیتا۔
اب
میرا دل سے آپ کو مشورہ ہے۔ آپ اس کام کو اس خاص شوق کو زندہ کریں اور پھر ہمیشہ
زندہ رکھیں۔ یہ میں آپ کو اندر سے خوش اور فریش رہنے کا گُر بتا رہی ہوں ۔ اپنے
آپ کو روبوٹ نہ سمجھیے جو صبح اٹھتا ہے، کچن میں جاتا ہے ۔ ناشتہ بناتا ہے۔ پھر
کھانا بناتا ہے۔ پھر رات کا کھانا بناتاہے۔ صبح کے لیے یونیفارم استری کرتا ہے۔
پھر اگلی صبح تک کے لیے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ نہیں! آپ ایک انسان ہیں۔
منفرد صلاحیتوں اور abilities سے
بھرا ہوا انسان! آپ کے اندر اللہ نے کچھ شوق رکھے ہیں۔
ہر
انسا ن کے اندر کوئی ایک خاص صلاحیت ہوتی ہے جو اسے دوسرے سے ممتاز کر دیتی ہے۔اور
ضروری نہیں کہ آپ میں سے ہر ایک اندر سے آئن سٹائن ۔ تھامس ایڈیسن
یا بل گیٹس ہو۔ نہیں۔ صلاحیت اور کمال میں احساس کمتری مت کیا کریں۔ جو آپ
کی صلاحیت ہے جو آپ کا ہنر اس پر فخر کریں اوراللہ کا شکر ادا کیاکریں۔آپ کا ہنر
آپ کا تمغہ ہونا چاہیے آپ کا احساسِ کمتری نہیں۔
اللہ
نے بہت ساری صحابیات رضوان اللہ علیہن کو مختلف صلاحیتوں مختلف کمالات اور
اوصاف سے نوازا تھا۔ آپ نے صحابیات کے واقعات پڑھے ہوں گے۔ کسی واقعے میں
کوئی صحابیہ جنگ کے دوران زخمیوں کی مدد کرتی نظر آتی ہیں۔ کوئی صحابیہ اپنی
بہادری اور دلیری میں مشہور نظر آتی ہیں۔ کوئی صحابیہ احادیث یا مسائل کی تدریس
میں ماہر نظر آتی ہیں۔ یہ ان کا اپنا اپنا ایک خاص ٹیلنٹ تھا جس کو انہوں نے کبھی
مرنے نہیں دیا۔حضرت خولہ بنت الازور رضی اللہ عنہا، حضرت ضرار بن
الازور کی بہن تھیں۔ جب حضرت ضرار کو رومی پکڑ کر لے گئے توآپ نے مجاہدین
کا سا لباس پہنا ، چہرے کو سیاہ نقاب سے ڈھانپا اور اس بے مثال بہادری اور دلیری
کے ساتھ اپنے بھائی کو چھڑا لائیں کہ مجاہدین حیران رہ گئے۔ یہ ان کی خاص صلاحیت
تھی جس کا انہوں نے زبردست اوربروقت استعمال کیا۔ اسی طرح ام المومنین حضرت
زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی سخاوت مشہور تھی۔ حضور اکرم ﷺ نے امہات المومنین سے
فرمایا تھا کہ جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہوئے وہ تم میں سے سب سےپہلے میرے سے آملے
گی۔ تو امہات المومنین اپنے ہاتھ ناپا کرتی تھیں۔ لیکن جب حضور اکرم ﷺ کے
وصال کے بعد امہات المومنین میں سے پہلے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال
ہوا تو انہیں ادراک ہوا کہ آپ ﷺکے اس فرمان کا کیا مطلب تھا۔ ہاتھ کے
لمبے ہونے سے مراد سخاوت تھی جو حضرت زینب بن جحش رضی اللہ عنہا کی فطرت و طبیعت
میں کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھی۔ یہ آپ رضی اللہ عنہا کا مبارک وصف تھا۔ خداداد
صلاحیت تھی۔ آپ کی وفات کے بعد مدینہ کے مساکین میں کہرام برپا ہو گیا تھا کہ آپ
رضی اللہ عنہا بے شمار مساکین و غرباء کی کفالت کیا کرتی تھیں۔ ام المومنین حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فقہ اور مسائل کی بہت بڑی عالمہ تھیں۔ کبائر صحابہ کرام
مسائل میں ان سے رجوع فرمایا کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا فقہ اورحدیث
کی باقاعدہ تعلیم دیا کرتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا شاعرہ و خطیبہ تھیں۔ آپ رضی
اللہ عنہا مفسرہ قرآن بھی تھیں۔ اور آپ نے کبھی اپنی ان صلاحیتوں کو بے
یارو مددگار نہیں چھوڑا۔ ساری زندگی ان کا درست ،بہترین اور خوبصورت
استعمال کیا۔ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ایک دن میں چمڑے کی چالیس
کھالوں کو رنگ لیا کرتی تھیں اور مدینے کی عورتیں انکے اس ہنر اور کمال پر حیران
رہ جایا کرتی تھیں۔ حضرت زینب بن جحش رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا
بھی فنِ دباغت یعنی کھالیں بنانے کی ماہر تھیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی
غرباء پر خرچ کر دیا کرتی تھیں۔ حضرت رُفیدہ انصاریہ رضی اللہ عنہا ماہرطب تھیں۔وہ
ایک زبردست ڈاکٹر تھیں۔ آپ نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جنگ
خندق کے زخمیوں کا علاج کیا۔ حضرت خنساء رضی اللہ عنہا عرب کی مشہور و
باکمال شاعرہ تھیں ۔ ایک بار آ پ نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بھی
لاجواب کر دیا تھا۔ آپ کو مشہور عرب شاعر نابغہ ذبیانی نے کہا تھا۔ ’’
واقعی آپ عورتوں میں بڑی شاعرہ ہیں، اگر اس سے پہلے ابو بصیر (اعشیٰ) کے اشعار نہ
سن لیتا تو آپ کو اس زمانہ کے تمام شعراء پر فضیلت دیتا اور کہتا آپ
جن و انس میں سب سے افضل ترین شاعرہ ہیں۔‘‘ آپ رضی اللہ عنہا کا فصیح و
بلیغ اور حکمت بھرا کلا م سب کر پیارے نبی ﷺ فرماتے۔ ’’شاباش! خنساء!‘‘اور آپ نے
ایک نیک خاتون حضرت فضہ کا قصہ سن رکھا ہو گا جو ہر سوال کا جواب صرف اور صرف
قرآن کی آیت سے دیا کرتی تھیں۔ بات چاہے جیسی بھی ہو آپ کے منہ سے صرف قرآنی
آیت نکلا کر تی تھی۔یہ ان کا بڑا ہی منفرد ٹیلنٹ تھا۔ بہت ہی خوبصورت صلاحیت تھی۔
دیکھیں
، ہم آج کی خواتین بھی مختلف ہنراور صلاحتیوں کی مالک ہیں۔ جیسے کھانا ہم
سب بنالیتی ہیں لیکن ٹیلنٹ ہر ایک کا مختلف ہے۔ آپ میں سے کوئی سویٹ ڈش بہت ہی
اچھی بنا لیتا ہو گا۔ آپ میں سے کوئی spicy dishes کا ماسٹر ہو گا۔ آپ میں سے کوئی salad
dressing بہت خوبصورت اور تخلیقی انداز میں کر
لیتا ہوگا۔ کپڑے بہت سی خواتین سی لیتی ہیں لیکن آپ میں سے کوئی ایسی خاتون ہوں
گی جو نہ صرف کپڑے بلکہ بیگ ، پاؤچ اور اسی طرح کی چیزیں بھی نہایت مہارت سے بنا
لیتی ہوں گی۔آپ میں سے کوئی خاتون کڑھائی بہت اچھی کرتی ہوں گی۔
میری
چھوٹی بہن بہت بیمار تھی لیکن اس دن اس نے مجھے کچھ تصویریں بھیجیں ۔ جس میں
ایک دیوار چارٹ پیپرز اور پھولوں کی مدد سے بہت ہی خوبصورت سجائی ہوئی تھی۔ میں
حیران رہ گئی ۔ میں نے کہا۔ یہ کیا! آپ تو زیادہ دیر بیٹھ بھی نہیں سکتی تھی۔ پھر
یہ کیسے کیا۔ کہنے لگی ’’۔ مجھے خود نہیں پتہ۔ بس میرا دل کیا تو میں یہ سب بنانا
شروع ہو گئی۔ ‘‘
آپ
میں کوئی خاتون بہت اچھا کالم یا کہانی لکھ لیتی ہوں گی۔ آپ میں سے کسی کو
بہت اچھی اور خوشبودارچائے بنانی آتی ہوگی۔ آپ میں کسی کو مختلف ہئیر
سٹائلز بنانے کا جنون ہو گا۔ کسی خاتون کو گھر کی صفائی اور ڈسٹنگ کا بہت شوق ہو
گا۔ ہاں آپ میں سے کسی کو پڑھنے کا یا ریسرچ کرنے کا شوق ہو گا۔ ہو سکتا ہے آپ
میں کسی کا گھر ہرے بھرے پودوں اور رنگ برنگے پھولوں سے بھرا ہوا ہو کیونکہ آپ کو
گارڈننگ کا جنون ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے آپ میں کسی کا روم آئل پینٹنگ سے
سجا ہو ا ہو کیونکہ آپ کو پینٹنگ کا شوق ہے۔
مجھے
یاد آیا میری ایک دوست ہیں۔ میں ان کے گھر گئی تو ان کا ہر کمرہ کڑھائی سے بنائی
گئی پینٹنگز سے سجا ہو ا تھا۔ نہ صرف پینٹنگز بلکہ کڑھے ہوئے کپڑوں کے کور ٹی وی
پر، ریکس پر، ٹرالی پر، تکیوں پر اور نہ جانے کیا کیا انہوں نے اپنے ہاتھ سے بنا
کر سجایا ہوا تھا۔ مجھے ان کی محنت اور صلاحیت کے اتنے خوبصورت استعمال پر
بڑا رشک آیا۔ ان کی اولاد نہیں ہے۔ چھ دفعہ ان کا ابارشن ہو چکا ہے۔ لیکن
وہ اتنی نائس اور خوش اخلاق خاتون ہیں کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتی۔ یہ اس لیے کہ
انہوں نے اتنی بڑی محرومی کے باجود اپنے آپ کو اندر سے مرنے نہیں دیا بلکہ اپنی
صلاحیتوں کے ذریعے نہ صرف اپنے اندر کی دنیا بلکہ باہر کی دنیا بھی خوبصورت بنا
دی۔
میری
بات یاد رکھیں! جب تک آپ اپنے آپ کو نہیں پہچانیں گی آپ ادھر ادھر بھٹکتی
رہیں گی۔ آپ ایسے مسافر کی طرح ہوں گی جو ہر قدم کے بعد دوسروں کی جانب دیکھنے
لگتا ہے کہ اب کیا کروں۔ کہاں جاؤں۔ اپنے آپ کو ڈھونڈیں۔ اپنے آپ کو پہچانیں
اور اپنی راہ خود تلاش کریں۔
اپنی
صلاحیت کو اپنے ٹیلنٹ کو ضائع مت کریں۔ اس کا بہترین سے بہترین استعمال کرنا
سیکھیں۔اپنی صلاحیت اپنے ٹیلنٹ سے دوسروں کو خوشی اور فائدہ پہنچانا سیکھیں۔
لیکن اس دوران آپ کا گھر آپ کے بچے آپ کے شوہر اور آپ کی دینی ذمہ
داریاں پس پشت کبھی نہیں رہنی چاہییں۔ اچھا انسان وہ نہیں ہوتا جو سب کو اور سب
کچھ پیچھے چھوڑ کر اور خود غرض بن کر اپنا آپ منوائے۔ بلکہ اچھا انسان وہ
ہوتا ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلے، اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہوا
ٓگے بڑھے، دنیا کی سختیوں کو اپنا دوست بنائے اور مشکلات کی بھٹی سے نکل کر کندن
بن کر دکھادے ۔
؎ہم
خود تراشتے ہیں منازل کی سنگِ راہ
ہم
وہ نہیں ہیں جن کو زمانہ بنا گیا