بنٹی بھالو نے چپس کھائے

میرے سوہنے موہنے بچو! جنگل میں سردی بڑھ  گئی تھی۔ سب جانوراب زیادہ تر اپنے اپنے گھروں میں رہتے تھے۔ اس دن بھی بنٹی بھالو کی امی جان نے  دوپہر کو گھر کا دروازہ بندکیا اور کچھ دیر آرام کے لیے لیٹ گئیں۔

بنٹی بھالو بھی اپنے کمرے میں سونے کے لیے لیٹے ہوئے تھے۔ اچانک اسے ایک آواز آئی۔
’’کرچ کرچ! ہمم! بڑے مزیدار ! کرچ کرچ کرچ!‘‘ 

بنٹی بھالو جلدی سے اٹھ گئے۔ پھر انہوں نے صحن میں آ کر دیکھا۔ درخت کے اوپر بی گلہری کچھ کھا رہی تھی۔ بنٹی بھالو نے درخت کے نیچے جاکر آہستہ سے کہا۔

 
’’بی گلہری! بی گلہری!شی شی! یہاں یہاں! میں کہہ رہا تھا کہ آپ وہی والے چپس کھا رہی ہیں ؟ وہ جو نئے آئے ہیں!  مرچوں والے؟‘‘
بی گلہری نے منہ صاف کیا اورچپس کا خالی پیکٹ ٹوکری میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’جی ہاں! بنٹی بھالو!  یہ چپس بڑے مزے کے ہیں۔میں ابھی ابھی بندر میاں کی دکان سے لائی تھی۔‘‘
بنٹی بھالو کا بھی مرچیلے چٹ پٹے چپس کھانے کا دل کرنے لگا۔کھٹے کھٹے  اور مرچوں والے! 
اگلے دن امی نے سوچا کہ کیوں نہ ساتھ والے جنگل سے  آؤں۔ وہاں ان کی کزن مونی بھالو رہتی تھیں جو آج کل بیمار بھی تھیں۔ امی جان نے تیاری کی اور بنٹی بھالو کو لے کر چل پڑیں۔ راستے میں بندر میاں کی دکان آئی تو انہوں نے کہا۔
’’ٹھہرو! یہاں سے دودھ اور شہد کی ایک دو  بوتلیں ہی لے لوں۔ مونی خوش ہو جائے گی۔‘‘
بنٹی بھالو راستے بھر اچھلتے کودتے گئے۔ وہ بہت خوش تھے۔  جب وہ مونی آنٹی کے گھر پہنچے تو وہ بہت خوش ہوئیں ۔ ان کا بیٹا ٹونی بنٹی بھالو کا دوست تھا۔ دونوں کھیلنے لگے۔ پھر ٹونی نے کہا۔
’’بنٹی! کیا تم نے وہ کھٹے والے چپس کھانے ہیں۔ میرے پاس ایک پیکٹ پڑا ہوا ہے۔ ‘‘
’’ہاں چلو کھاتے ہیں!‘‘ بنٹی بھالو  نے اچھلتے ہوئے کہا۔
پھر دونوں بھالوؤں نے مزے سے چپس کھائے۔ ٹونی کا تو پتہ نہیں لیکن چپس کھانے کے بعد ہمارے بنٹی بھالو کے گلےمیں کچھ خراش سی ہونے لگی تھی۔پھرانہوں نے ٹونی کے ساتھ کھلونوں سے کھیلنے کی کوشش کی لیکن گلے کی چبھن جان ہی نہیں چھوڑ رہی تھی۔ 
گھر واپسی تک ان کے گلے میں اچھا خاصادرد ہو گیا۔ امی جان حیران تھیں کہ ابھی صبح تک تو بنٹی بھالو بالکل ٹھیک تھے۔ یہ اچانک ان کا گلاکیسے خراب ہو گیا۔ پھر بنٹی بھالو کے جیب سے چپس کا خالی پیکٹ نکلا تو انہیں سمجھ آگئی۔ اب تو بنٹی بھالو کو دوا کے ساتھ ڈانٹ بھی کھانی پڑی!
بنٹی میاں کا گلا بند ہو گیا تھا۔ اب وہ اشارے سے امی جان کو بتا رہے تھے کہ میں اب پیکٹ والے چپس  کبھی نہیں کھاؤں گا۔ساتھ ہی انہوں نے کانوں کو ہاتھ بھی لگایا۔ امی جان ہنس پڑیں اور انہوں نے بنٹی بھالو کو بہت پیار کیا۔ پھر جب بنٹی بھالو ٹھیک ہو گئے تو امی نے انہیں گھر کے بنے ہوئے چپس کھلائے جو پیکٹ والے چپس سے زیادہ مزیدار تھے اور تھے بھی بہت سارے!!
میرے پیارے بچو! کہیں آپ بھی تو بازار سے ملنے والے چپس تو نہیں کھاتے! یہ چپس صحت کے لیے اچھے نہیں ہوتے۔اس سے ہمارے گلہ اور ہمارے دانت خرا ب ہو جاتے ہیں۔ اچھے بچے گھر کی بنی ہوئی چیزیں کھاتے ہیں اور بازار کی چیزوں کے لیے ضد نہیں کرتے۔