12 December, 2021
"وہ رہا۔۔ وہ رہا!"
جیسے ہی اسرائیلی ٹینک نے موڑ مڑا، میں نے چلا کر اپنے ساتھیوں کو خبردار کیا۔
ہم نے اپنی اپنی غلیلوں کو نئے سرے سے کس لیا۔ پتھر کی مضبوطی ہم پہلے ہی چیک کر چکے تھے۔ بس اب ٹینک کے نشانے پر آنے کی دیر تھی۔
پہل محمد فاتح نے کی۔
"ٹھک۔ ٹھاہ!"
پتھر زور سے ٹینک کے اوپر بیٹھے ہوئے فوجی کے بلٹ پروف شیشے سے ٹکرایا۔ پھر ٹھاہ کی آواز نکالتا ہوا نیچے آگرا۔
اب عبداللہ کی باری تھی۔ اس نے فوجی کے ہاتھ کا نشانہ لینے تھا۔ یہ میں آپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ عبداللہ کا نشانہ ہم سب سے زیادہ اچھا ہے۔
زوں! کی آواز کے ساتھ پتھر غلیل کے نکلا۔ پھر ہلکی سی آواز آئی۔
"آہ۔ اوف!"
فوجی کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا۔ پھر ہم نے ٹینک کو اپنی طرف آتے دیکھا۔
ہم سب اچھل کر ٹینک کے سامنے کھڑے ہو گئے۔
جی! ڈرنا ورنا کیا ہوتا ہے۔ ہمیں روند کر گزرتا ہے تو گزرے۔ اور گزر کر دکھائے!
اب نشانہ لینے کی باری میری تھی۔
میں نے تو سیدھا ٹینک ہی کا نشانہ لیا۔ اس موٹے تازے لوہے کے ہاتھی کا ہمارے کنکروں سے کچھ نہیں بگڑتا لیکن ہم نے بھی اس کی کمزوری جانچ لی ہے۔ ہم اس کی ہیڈ لائٹ کے اوپر لگے ہوئے اضافی شیشے کو قریب سے نشانہ بناتے ہیں۔ قریب مطلب۔ بس تین چار فٹ کے فاصلے سے۔
سو، میں نے ایسا ہی کیا۔ مجھے غلیل کی پٹیاں کستے دیکھ کر اسرائیلی فوجی چھلانگ مار کر ٹینک سے نیچے اترنے لگا۔
میرے پاس وقت کم تھا۔ میں نے دل ہی دل میں بسم اللہ کہہ کر پتھر چھوڑ دیا۔
"چھناک!"
"اوہ یو ۔۔۔۔ "
فوجی گالی دیتا ہوا میرے پیچھے لپکا۔
اب آپ کا خیال ہے ہم سب بھاگ گئے ہوں گے اور اپنے اپنے گھروں میں چھپ گئے ہوں گے۔ شاید آپ میری جگہ ہوتے تو یہی کرتے۔
لیکن میں کیا کروں۔ مجھے امی نے دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا سکھایا ہے۔ سو ہم میں سے تو کوئی بھی ان منحوس ظالموں اور غاصبوں سے نہیں ڈرتا۔
"اے۔ تم نے شیشہ کیوں توڑا؟"
فوجی میرے پاس آکر بولا۔ اس کا ایک ہاتھ اپنی پسٹل پر تھا اور کندھے کے ساتھ دوسرا گولیوں کی پٹی پر۔
مجھے ہنسی آ گئی۔ ابھی بھی وہ مجھ سے اور میری غلیل سے ڈر رہا تھا۔
"تم غاصب ہو۔ ہماری سرزمین سے اپنے ناپاک وجود کو رخصت کرو۔"
اچانک عبداللہ نے سامنے آکر کہا۔
"اچھا۔ تو تم وہی ہو جس نے میرے ہاتھ پر پتھر مارا ہے۔ تم تو چلو میرے ساتھ۔"
اتنا کہہ کر اس نے عبداللہ کو جرسی سے پکڑ کر گھسیٹا۔
"تمھاری یہ جرات۔"
میرے اندر اس وقت نہ جانے کیسے اتنی انرجی آئی۔ میں غصے سے آگے بڑھا اور ایک جھٹکے سے عبداللہ کو اس سے چھڑا لیا۔
"تم مسجد اقصی کے مجرم ہو۔ تمھیں تو درخت بھی پناہ نہیں دیں گے جب تمھاری شامت آئے گی۔"
میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
وہ خائف سا ہو کر پیچھے ہٹا اور ٹینک میں جا بیٹھا۔
"یہاں سے مت گزرنا۔ پچھلی بار بھی تم لوگوں نے ہمارا باغ برباد کیا تھا۔"
محمد فاتح چلایا۔
"ہاں ہاں۔ واپس جاو۔ واپس جاو۔ فلسطین سے واپس جاو۔"
ہم نے ٹینک کے سامنے کھڑے ہو کر نعرے لگانے شروع کر دیے۔
وہ کچھ دیر ہمیں دیکھتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ ٹینک ریورس کرنے لگا۔
"ان کو میں بتاتا ہوں۔ کون مجرم ہے۔ جب جیل میں ڈالوں گا تب پوچھوں گا اچھی طرح۔"
اچانک ایک اور فوجی نہ جانے کیسے ٹینک کے پیچھے سے نکل کر آیا اور اس نے محمد فاتح کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔ ہم نے مڑ کر دیکھا۔ تب تک اپنے گھروں کے دروازے تک پہنچ چکے تھے۔
"چھوڑو مجھے۔ تم ہی غاصب ہو۔ تم ناجائز ہمارے ملک پر قابض ہو۔ چھوڑو مجھے۔"
محمد فاتح کہتا رہا۔
ہم اس کے پیچھے لپکے لیکن وہ میرے دوست کو کھڑی گاڑی میں ڈالنے لگے۔ اس کی مدد کو تین اور فوجی بھی آگئے تھے۔
محمد فاتح کے بارے میں میں ایک ضروری بات لکھنا بھول گیا ہوں۔ وہ یہ کہ وہ بہت پھرتیلا ہے۔ بہت زیادہ۔ جیسے ہی فوجی نے اسے پچھلی سیٹ پر دھکا دے کر دروازہ بند کرنے کی کوشش کی، وہ یکدم دروازے کو دھکیل کر باہر نکل آیا۔ پھر یہ جا وہ جا۔ جب محمد فاتح بھاگتا ہے تو ہم میں سے کوئی بھی اسے پکڑ نہیں سکتا۔
فوجی غصے سے اسے دیکھتے رہے پھر گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔
"اگلی باری تمھاری ہے۔" ٹینک پر کھڑے فوجی نے میری طرف انگلی اٹھا کر کہا۔ اس نے اپنے زخمی ہاتھ پر پٹی کر لی تھی۔ ان ظالموں نے فرسٹ ایڈ کا سامان اپنے ساتھ رکھا ہوتا ہے اور ہمیں جان بچانے کی ادویات ہسپتال سے بھی نہیں ملتیں۔
"سوچ ہے تمھاری۔ میں اور تمھارے قابو آجاوں۔"
میں نے سینہ تان کر کہا۔
"اور اگر میں واقعی تمھیں پکڑ لوں؟" وہ ہنسا۔
"ہونہہ! جیسے ان چار بندوں نے مل کر ایک بچے کو پکڑا۔ ہاہاہا!"
میں بھی ہنسا اور اپنے گھر کی طرف چل دیا۔
فوجی وہیں کھڑا غصیلی نظر سے دیکھ رہا تھا، میں کس گھر میں داخل ہوا ہوں۔
"اب یہ میرے گھر آئے گا مجھے پکڑنے۔ اس کی ایسی کی نہ تیسی نہ کر دوں تو میرا نام حاتم فلسطینی نہیں۔"
دوستو! میں نے پورا پلان بنا لیا ہے۔ اب دیکھیں کب شکار خود میری شکار گاہ کا رخ کرتا ہے!
بچو! یہ سب کچھ میں آپ کو اس لیے بتا رہا ہوں تاکہ آپ کو یاد رہے۔ مسجد اقصی کو ان ناپاک قابضین سے آزاد کروانا صرف میرہ یعنی دس سال کے حاتم فلسطینی کی ذمہ داری ہی نہیں، بلکہ آپ کی بھی ہے۔