مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت 57 ملکوں کے سربراہان اور ان کی افواج کیا سوچ رہی ہیں؟ ہمارے ملک میں کہا جاتا ہے کہ قتال و جہاد صرف اہل اقتدار کی مرضی سے ہونا چاہیے۔ سو سب دینی و سیاسی راہنما ابھی تک بیانات یا امداد کی حد تک محدود ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے دنیا میں اس وقت کوئی مسلمان نہیں بچا۔ جو ہیں وہ فلسطین میں شہید ہو رہے ہیں بس۔ وہی ہیں مسلمان۔ باقی روئے زمین پر کوئی بھی مسلمان موجود نہیں یا کوئی ایک بھی مسلمان حکمران موجود نہیں جو اس قتل عام کو روک سکے۔ اگر واقعی میں کوئی اصل مسلمان ہوتا اس وقت تو اسرائیل کی یہ جرات ہوتی کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو شہید کرے؟ ان کا کھانا پانی بند کرے اور انہیں ایک ایک نوالے کا محتاج بنائے؟
آخری ترکی خلیفہ عبدالحمید یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا میں فلسطین کا ایک ذرہ بھی ان یہودیوں کو نہیں دوں گا۔
یہاں میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ یا تو آپ ظالم کا ہاتھ روکنے والوں میں سے ہوتے ہیں یا پھر ساتھ دینے والوں میں سے۔ ہم جو بس خاموش ہیں جان لیں کہ ہم ظالم ہیں۔ ہم جو اپنے آپ کو نیوٹرل ظاہر کر رہے ہیں جان لیں کہ ہم قاتل ہیں۔
یا آپ قاتل ہوتے ہیں یا پھر قتل ہونے والے۔ یا آپ ظالم ہوتے ہیں یا پھر وہ جن پر ظلم کیا جا رہا ہو۔ کیا ہم پر اس وقت ظلم کیا جا رہا ہے؟ نہیں۔
کیا ہم فلسطین کے قتل عام کو روک رہے ہیں؟ نہیں۔ اس کا مطلب ہم قاتل ہیں۔
اسلام میں یہ درمیانی سی باتیں کوئی نہیں ہیں کہ اچھا چلو ہمارے بس میں تو کچھ نہیں بائیکاٹ کرتے ہیں۔ آپ کی بیٹی کا ریپ ہو نوزائیدہ بچہ کا بھیجہ باہر ہو بیوی کا بازو کہیں سے کٹا پھٹا ملے اور میں کچھ نہ کروں بس پیمپرز کے پیمرز نہ خریدوں آپ کیا کہیں گے؟ لعنت بھیجیں گے مجھ پر۔ مجھ ہٹے کٹے انسان پر جو ظلم کی وڈیوز دیکھتا رہا اور تمھاری عملی مدد کے لیے اپنے آرام اور کمفرٹ زون کی قربانی نہ دے سکا۔
ابھی ایک پوسٹ دیکھی کہ دیکھیں آپ کا دل فلسطین کے لیے غمزدہ ہے تو پلیز اللہ کو بتائیں اس سے باتیں کریں۔ کیا نرم نرم باتیں کرتے رہتے ہیں ہم۔ اللہ نے ہم جیسوں سے ہی دوزخ کا۔ایندھن بنانا ہے جو اتنے بڑے قتل عام کو دیکھ کر خود کو ایسی تسلیاں دیتے رہے اور فلسطینیوں کی کوئی مدد نہ کی۔
اچھا میں دیکھتی ہوں عملی طور فلسطین کی مدد کرنے کو یعنی جہاد کرنے کو ابو عبیدہ کو افرادی قوت بھیجنے کو کوئی نہیں کہہ رہا۔ کیوں؟ سب جانتے ہیں پھر وہ ان کے آرام دہ بستر میں ان کے بچوں کے ساتھ ان کی آخری رات ہو گی۔ بس چاہے علمائے کرام ہوں یا صحافی یا سیاسی لیڈر۔ زیادہ سے زیادہ بائیکاٹ والی پکچر شیئر کر دیتے ہیں یا امدادی ٹرکوں والی وڈیو سلوموشن میں عربی نشید کے ساتھ چڑھا دیتے ہیں۔ بہت جوش آ گیا تو عربی دعائیں بمع ترجمہ۔ ہاں وہ والی وڈیو بھی سٹیٹس پر لگائیں گے سبحان اللہ لکھ کر جس میں شہید نے انگلی آسمان کی طرف کھڑی کر رکھی ہے۔ صاحبو۔ یہ انگلی آسمان کی طرف نہیں میرے اور آپ کی طرف اٹھی ہوئی ہے کہ تم کیا کررہے تھے جب یہ اسرائیلی میرے جسم میں گولی اتارنے آئے۔ کیوں نہیں آئے مجھے میرے بچوں کو بچانے۔
ایک گروپ میں دیکھا فلسطینی شہداء کے لیے دعا کی درخواست کی گئی تھی۔ ساتھ ہی نیچے روضۂ رسول ﷺ کی تصویر تھی اور بڑے ہی جذے سے دعا مانگی گئی تھی کہ اللہ ہمیں حاضری نصیب فرمائے۔
بھائیو! اس سارے سینیریو میں اتنا تو سن لیں کہ میری اور آپ کی دوزخ کی تو حاضری یقینی ہے اگر ہم نے واقعی اس وقت فلسطین کی مدد نہ کی۔ دو گروپ واضح ہو چکے ہیں۔ یزیدی، حسینی۔ آپ سوچ لیں آپ کون ہیں کس گروپ میں ہیں اور پھر اپنے جینے کا مقصد واضح کر لیں۔
میرا بہت گلہ ہے علمائے کرام سے سارے نام آجاتے ہیں اس میں جو میڈیا سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں سب۔ کیوں نہیں لوگوں کو اصل بات بتارہے؟ کیوں نہیں اس اندھیری رات میں راستہ دکھا رہے ؟ آپ تو قرآن اور حدیث کے وارث کہتے ہیں خود کو۔ آپ تو قال اللہ قال الرسول ﷺ کے حافظ ہوتے ہیں۔ آپ کو تو پتہ ہے سیرت کیا کہتی ہے اس وقت کیا کرنا چاہیے۔ سنت کیا کہتی ہے اس سمے کیا کرنا چاہیے نوجوانوں کو۔ ہم سب۔ کیوں اصل راستہ نہیں بتاتے۔ کس سے ڈرتے ہیں آپ سب۔ بس اپنی جانیں اپنے خاندان بچا کر بیٹھے ہیں۔ کیا واقعی آپ روز قیامت جنت میں جا سکیں گے؟ کیا فلسطینی بچے آپ کا راستہ نہیں روکیں گے؟ کیا آج کا نوجوان کل آپ کا گریبان نہیں پکڑے گا کہ ہمیں دین کا اصل ورژن کیوں نہ بتایا؟
کوئی مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ حکومت نے اگر کچھ کرنا نہیں ہے تو ہمیں ایک جہاز میں بھر کر فلسطین بھیج دیں۔ خدایا! یعنی میں اور آپ جن کو نہ ایک چھوٹی سی پستول چلانی آتی ہے نہ ہم سے جیو ڈرامے کی نیکسٹ ایپی سوڈ کا انتظار ہوپاتا ہے، مطلب ہمیں فلسطین بھیج دیا جائے۔ توندیں ہماری نکلی ہوئی شوگر بلڈ پریشر ہمیں۔ ڈیپریشن وٹامن ڈی کی کمی ہمیں۔ امی کی اجازت کے بغیر بیوی کو سیر نہیں کرا سکتے اور ساس کے طعنے سن کر ہم ٹی وی کے ڈرامے دیکھ کر بھڑاس نکالی جاتی ہے۔ تیس سال کے ہو کر بھی ابو سے جیب خرچ لینے والے۔ ائیر پورٹوں پر انڈین اداکاروں کے ساتھ فخریہ سیلفیاں بنوانے والے۔ آئی کیو ہمارا کامن سینس والا بھی نہیں رہا۔ فلسطین کی تاریخ معلوم نہ ہیکل سلیمانی کے شوشے کا پتہ۔ بس حکومت ہمیں بھیج دیں وہاں پر۔
رئیلی ہم نے وہاں جا کر ایک تو چھپ چھپا اسرائیلیوں سے مک مکا کر لینا ہے سمجھوتہ عہد۔ جناب ! انشاءاللہ جہاد کا لفظ منہ سے نہ نکالیں گے۔ آپ کو ہمیشہ عزت و سیکیورٹی دیں گے۔ اور بظاہر ایک آدھ جلسہ جلوس نکال نعرے شعرے مار گھر واپس۔ مسجد اقصی کے ساتھ سیلفی بھی بنائیں گے وی کے نشان کے ساتھ۔ وی لاگ بھی کر لیں گے زیتون کے درختوں کے نیچے۔ بس چلو جی۔ چھٹی۔
کبھی خونم خون وڈیوز کے نیچے کیپشن ہوتا ہے۔ دیکھیں اور ایمان تازہ کریں۔ میرے خدایا! ہمارے ایمان کے باسی پن کا یہ criteria ہو گیا ہے کہ جب تک اپنے بہن بھائیوں بچوں کی سرخ لاشیں نہ دیکھ لیں، کم بخت تازہ ہی نہیں ہوتا۔
کبھی لکھا ہوتا ہے غزہ میں بجلی پانی بند۔ اپنے نلکے سے آتے پانی پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ مطلب ہمیں اور تو کوئی موقع میسر نہ آیا جب فلسطینی بچوں کو پیاس سے تڑپتے دیکھا تو فریج سے ٹھنڈی بوتل نکالی اور پورے دل سے کہا۔ الحمد للہ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن سے اللہ پوچھ کرے گا کہ فلسطینیوں کی آزمائش تیرے لیے شکر کا باعث کب سے بن گئی؟ بجائے اس کے کہ تو آگے بڑھ کر ظالم کا ہاتھ توڑتا، تو اپنے ہی کمفرٹ زون میں کر بس سبحان اللہ الحمداللہ کہتا رہا۔
دیکھیں۔ اصل بائیکاٹ تو بنتا ہے اپنے کمفرٹزون کا سستی کا حق بات کہنے کے خوف کا۔
چلیں میں نیسلے کا نیڈو نہیں خریدتی۔ کیا شفاء ہسپتال فلطسطین میں پری میچور بچے جو آکسیجن نہ ہونے سے مر گئے، زندہ ہو جائیں گے؟ میں پیپسی بھی نہیں پیوں گی کیا بےگھر اجڑے بالوں والے پیاسے بچوں کی شہید مائیں ہاتھوں میں منرل واٹر تھامے واپس آجائیں گی؟
کس کو دھوکہ دے رہیں ہم۔ اپنے آپ کو۔
بس ایک تسکین سی مل جاتی ہے کہ جی ہم نے فلسطینیوں کا ساتھ دیا ہے۔
جو چار ہزار بچے فلسطین میں شہید ہوئے ہیں اور اس پر اسرائیلی فوجی والیوم تیز کر کے ناچ گانا کر رہے ہیں، وہ ہنس رہے ہیں ہم پر۔ ہماری سستی اور ہماری بزدلی پر۔
یہ چار ہزار بچے ہمارے اپنے تو تھے نہیں، لیکن لگتا ہے انسان بھی نہیں تھے۔ کیونکہ انسانیت کا تقاضا کچھ اور کہتا ہے اور فی الحال میں اور آپ اس ڈیفینیشن پر پورا نہیں اتر رہے۔
اب کئی لوگ کہیں گے بائیکاٹ سے ان کو اتنا اتنا نقصان ہوا جو کہ ہماری کامیابی کی علامت ہے۔
تو وہ کیا ہے کہ میرے نزدیک کامیابی وہ ہے جو اس وقت ابو عبیدہ کے نزدیک کامیابی ہے اور ناکامی وہ ہے جو ابو عبیدہ کے لیے ناکامی ہے۔۔ صرف یہی۔ اور بس۔
..........
لوگ پوچھتے ہیں ہم فلسطین کے بچوں کے لیے کیا کریں؟ میرا ہمیشہ یہی جواب ہوتا ہے کہ جب آپ کے بچے فاسفورس بم سے فرائی ہو رہے ہوتے آپ کے سامنے، تو آپ کیا کرتے؟ بس وہی کرنا چاہیے۔