"یہ کیا کیا تم نے؟"
انجن چلایا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس کا اتنی محنت سے بنایا ہوا سوپ یوں گر جائے گا۔
ٹیڈی بھالو نے کہا۔
"وہ۔۔ میں۔۔ دیکھنا چاہتا تھا ٹرے پر رکھے باول میں کیا ہے۔"
"تو تمھیں اتنا سسپنس پھیلانے کی کیا ضرورت تھی؟"
باربی ڈول نے منہ بنا کر انجن سے کہا۔ وہ اپنا فراک سمیٹ رہی تھی تاکہ فرش پر پھیلا ہوا سوپ اس کے فراک پر نہ لگ جائے۔
انجن کچھ بھی کہے بغیر، ایک کپڑا لایا اور سوپ صاف کرنے لگا۔
"چھک چھک چھک"
ڈبے بھی چھوٹے چھوٹے سے رومال لے آئے اور صفائی میں انجن کی مدد کرنے لگے۔
کھانا اب کوئی بھی نہیں کھا رہا تھا۔
سب کھلونے اٹھ کر جانے لگے۔
"اسی لیے۔۔۔ اسی لیے میں کہتا ہوں۔۔۔!"
اچانک پلاسٹک کی سبز پہاڑی کے پیچھے سے آواز آئی۔
سب نے مڑ کر دیکھا۔ ریسنگ کار بھی زوں زوں کر کے آگے آئی۔ ٹینک والا فوجی تو یوں بھی ہر وقت اپنے اونچے سے ٹینک پر کھڑا رہتا تھا۔ اسی لیے اسے سب کچھ آسانی سے نظر آجاتا تھا۔
"دیکھو! اسی لیے میں کہتا ہوں کہ کھانا آرام سے کھانا چاہیے۔"
چھوٹے سے سبز ڈائنوسار نے کہا۔ اس کا نام ایلو تھا۔
"جلدی جلدی اور بے صبری میں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔" ایلو بولا۔
اس کی بات سن کر سفید گڑیا نے کہا۔
"بالکل۔ ایلو۔ تم نے ٹھیک کہا۔ ٹیڈی بئیر! کیا تم سن رہے ہو؟"
ٹیڈی بئیر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ میز پر سر رکھے سو رہا تھا۔
"اچھا چلو۔ سب شوکیس میں واپس چلیں۔ صبح ہونے والی ہے۔"
سفید گڑیا نے کہا اور اپنا اونی مفلر لپیٹ کر چلنے لگی۔ ریسنگ کار بہت تیز چلتی تھی۔ سو سب سے پہلے وہی زوں ں ں ں کی تیز آواز کے ساتھ اپنے شوکیس کے پاس پہنچی۔
باربی ڈول کو آہستہ آہستہ چلنا پڑتا تھا۔ اس کے سینڈل اونچی ہیل والے تھے۔
بلاکس بھی اچھلتے کودتے اپنے گھر جانے لگے۔ اچانک ایک بلاک نے جس پر G لکھا ہوا تھا، رک کر سفید گڑیا سے پوچھا۔
"آنٹی! کل کس کے گھر دعوت ہے؟"
"اممم! تمھارے گھر!" سفید گڑیا نے مسکرا کر کہا۔
"ہیں؟ لیکن۔۔" بلاک حیران ہو گیا۔الف والے بلاک نے آگے بڑھ کر کہا۔
"ہم تو بہت چھوٹے سے ہیں۔"
"تو ٹھیک ہے۔ ہم چھوٹا کھانا کھا لیں گے۔" گلابی رنگ کا یونی کارن بولا۔ وہ ٹیڈی بئیر کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔
اس کی آواز سے ٹیڈی کی آنکھ کھل گئی۔ وہ آنکھیں ملتا ہوا سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ پھر کہنے لگا۔
"چھوٹا کھانا۔ وہ کیا ہوتا ہے؟"
بلاکس والے بیگ نے اپنی زپ کھولتے ہوئے کہا۔
"وہ کل پتہ لگے گا۔" پھر سارے بلاکس جمپس لگا کر اس کے اندر چلے گئے۔ جیسے ہی آخری بلاک بیگ کے اندر گیا، اس نے خود ہی اپنی زپ بند کی اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا شوکیس میں جا کر بیٹھ گیا۔
"تم اتنا زیادہ کیسے سوتے ہو؟ مجھے دیکھو! میں کتنا ایکٹو ہوں۔" چھلانگیں لگانے والے بندر نے کہا۔ پھر اس نے ہمیشہ کی طرح تین قلابازیاں سیدھی لگائیں اور تین الٹی۔
"میرے خیال سے تو۔۔۔۔"
ٹینک والا فوجی ٹیڈی بئیر کے پاس آکر آہستہ سی آواز میں بولا۔
"تمھیں انجن کو سوری کہنا چاہیے۔"
"کیوں انکل۔ میں نے کیا کیا ہے؟" ٹیڈی بئیر نے اپنی مٹھیوں سے آنکھیں زور سے ملیں۔
"خدایا۔ تم نے اس کا پکایا ہوا سارا سوپ گرا دیا اور اب تم پوچھ رہے ہو کہ تم نے کیا کیا ہے۔" ٹینک والے فوجی نے غصے سے کہا۔
"اوہ ہاں۔ میں بھول گیا تھا۔"
ٹیڈی بئیر نے جلدی سے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا۔ پھر وہ اپنے گول مٹول پاوں پر چلتا ہوا انجن کے پاس پہنچا۔ انجن خاموشی سے ٹرین کے ڈبوں کو اپنے ساتھ جوڑ رہا تھا۔
"اہمم۔۔ وہ۔۔ انکل!"
یہ آواز سن کر انجن نے اپنی چمنی گھما کر اس طرف دیکھا۔
"وہ۔۔ نوڈلز بہت مزے کے تھے۔"
ٹیڈی بئیر کے منہ سے نکلا۔
"ہائیں!" باربی ڈول وہاں سے گزرتے گزرتے رک گئی۔
"کیا تم واقعی یہی کہنے آئے ہو۔"
یہ کہہ کر باربی ڈول نے انجن کو دیکھا۔ وہ بس جانے ہی والا تھا۔
"آں۔۔ نہیں۔ نہیں۔ انکل۔ میں کہنے لگا تھا کہ۔۔۔ کہ۔۔ آئی ایم۔۔۔!"
"پاں ں ں! پوں ں ں! پاں ں!"
ٹیڈی بئیر نے ابھی بات مکمل نہیں کی تھی کہ انجن سٹارٹ ہو گیا۔
"پاں ں ں ں! چھک چھک چھک! چھک چھک چھک!"
اور پٹڑی پر ٹرین کے ڈبے دوڑنے لگے۔ اب شور اتنا تھا کہ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
باربی ڈول بھی اپنے گھر جا چکی تھی اور باقی سب کھلونے بھی۔
ٹیڈی بئیر اداس ہو گیا۔ وہ واقعی سوری کہنا چاہتا تھا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ سو، وہ مڑا اور اپنے ڈبے کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
چھلانگیں لگانے والا بندر ابھی تک قلابازیاں لگا رہا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ اب اس کی قلابازیاں دیکھنے کو کوئی کھلونا نہیں جاگ رہا، تو وہ بھی شوکیس کی طرف چلنے لگا۔ راستے میں وہ ٹرین کے پاس سے بھی گزرا۔ وہ اب خاموشی سے اپنے سٹیشن پر کھڑی تھی۔ ڈبے سو چکے تھے۔
چائے کی چینک اور چھ کے چھ کپ بھی اچھلتے کودتے شوکیس میں پہنچ گئے۔ وہ ٹیڈی بئیر کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ جب آخری کپ شوکیس کے اندر آگیا تو چینک نے آگے بڑھ کر شیشہ کا دروازہ بند کر دیا۔
"اوہ! شکریہ! مجھے کافی سردی لگ رہی تھی۔"
ٹیڈی بئیر نے کہا۔ ویسے بھی وہ جامنی رنگ کی جرسی ہر وقت پہنے رکھتا تھا۔
اچانک ایک کپ نے سرگوشی کی۔
"ٹیڈی انکل! آپ کو کچھ بتانا تھا۔"
"مجھے؟" ٹیڈی بئیر نے گول مٹول ہاتھ سینے پر رکھ کر پوچھا۔
"جی۔" کپ نے تھوڑا سرکتے ہوئے کہا۔ ٹیڈی بئیر یہ سن کر تھوڑا سا جھکا۔۔۔ تھوڑا سا اور۔ اور پھر وہ اتنا جھکا جتنا جھک سکتا تھا۔
"انجن انکل کہہ رہے تھے۔ سوری کی ضرورت نہیں۔ اٹس اوکے۔"
کپ نے چپکے سے بتایا۔
"آہا!" ٹیڈی کو یہ سن کر ہی اتنا سکون ملا کہ وہ خوشی سے اچھلا۔ لیکن وہ پہلے ہی جھکا ہوا تھا۔ سو اچھلنے کی کوشش میں وہ چھ کے چھ کپوں پر جا گرا۔ باقی کے پانچ کپ ہڑبڑا کر جاگ گئے اور چینک جھلا کر بولی۔
"اوہ! کبھی تم کچھ گرا دیتے ہو اور کبھی تم خود گر جاتے ہو۔"
اتنا کہہ کر چینک نے اپنی لمبی سی گردن سے کپ درست کر کے رکھے اور پھر سے سو گئی۔
(جاری ہے)