شرارتی کن کن



میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک بے حد شرارتی کوے کی  جو برگد کے ایک درخت اپنی بڑی بہن کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ اس کا نام کِن کِن اور اس کی بہن کا نام سِن مِن تھا۔ کِن کِن کبھی اپنی ہمسائی چڑیا بی کے بچوں کو تنگ کرنے لگتا  کبھی  فاختہ خالہ  کا گھونسلہ خراب کر دیتا۔ اور تو اور کِن کِن کی شرارتوں سے بندرمیاں اور بھالو انکل بھی بہت تنگ تھے۔ کیونکہ کِن کِن بند ر میاں کی بنائی ہوئی دوائیاں خراب کر دیتا تھا اور ایک دن اس نے بھالو انکل کے شہد کے دو مرتبان بھی گِرا دیےتھے۔

پیارے بچو! کِن کِن کو ایک دن اس کی بہن سن من اسے سمجھا رہی تھی  کہ کبھی ایسی شرارت نہیں کرتے جو کسی کے لیے نقصان دہ ہو اور جس سے اوروں کو رنج پہنچتا ہو ۔ لیکن کِن کِن نے ہمیشہ کی طرح  سن من  کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیں اور یہ کہ کر اڑ گیا کہ آج وہ گاؤں کی سیر کرنے جارہا ہے۔


کِن کِن بڑے مزے سے کھیتوں کے اوپر اڑتا جارہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک مکان پر پڑی جہاں ایک  مزدور دیوار بنا رہا تھا۔ کِن کِن کو شرارت سوجھی۔ وہ آ  کر دیوار پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد جب مزدور کسی  کام سے اندر کمرے میں گیا تو کِن کِن اڑ کر صحن میں پڑے ایک برتن کے کنارے  پرجا بیٹھا۔ پھر اس نے دو تین چھلانگیں لگائیں تو برتن الٹ گیا اور سارا محلول فرش پر بہنے لگا۔ یہ دیکھ کر کِن کِن نے خوشی سے پر پھڑپھڑائے ۔  

کچھ دیر بعد اسے پیاس محسوس ہوئی تو وہ صحن میں بہتے ہوئے پانی  میں چونچ مارنے  لگا۔ لیکن یہ کیا! کِن کِن نے محسوس کیا اس کے پاؤں زمین سے چپک سے گئے ہیں۔ جب اس نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ پانی کے ساتھ سفید سیمنٹ بھی بہ رہا تھا   جو کِن کِن نے برتن سے گرا یا تھا۔

اب کِن کِن کے پاؤں فرش کے ساتھ چپکنے لگے  تھے ۔ اس نے گھبرا کر زور لگایا تو اس کے پاؤں تو زمین سے الگ ہو گئے لیکن ان کا رنگ سفید ہو چکا تھا۔ کچھ سفید سیمنٹ اس کے پروں پر بھی لگ گیا تھا۔

 اسی اثناء میں مزدور کمرے سے باہر آیا تو سارا سفید سیمنٹ فرش پر گرا  دیکھ  کر اسے بہت غصہ آیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کن کن کو کچھ دے مارتا، کن کن تیزی سے اوپر اڑتا چلا گیا۔ تیز تیز اڑانوں کے بعد  جنگل کے پاس پہنچ کر اس نے اپنی سانسیں بحال کیں اور نیچی اڑان اڑنے لگا۔ برگد کے پاس پہنچ کر اس نے دیکھا ۔  سِن مِن  اس کے انتظار میں ایک ٹہنی پر بیٹھی تھی۔

کن کن نے زور زور سے کائیں کائیں کی۔ سِن مِن  نے  فوراًنیچے دیکھا۔ ایک سفید رنگ کا پرندہ کائیں کائیں کر رہا تھا۔یہ کن کن تھا لیکن سن من اسے پہنچان نہ سکی  بلکہ  لگی شور مچانے۔ ’’یہ کون ہے ۔ یہ کون ہے۔‘‘  اس کے شور سے چڑیا بی، فاختہ خالہ، الو انکل اور بندر میاں بلکہ سبھی تو اکھٹے ہو گئے اور لگے سوال کرنے۔’’کون ہو تم ! کہاں سے آئے ہو۔‘‘

کِن کِن نے انہیں یقین دلانے کی بے حد کوشش کی کہ وہ کِن کِن کوّا ہے لیکن سب جانوروں اور خاص طور پر اس کی بہن سن من نے اسے پہچاننے سے  بالکل انکار کر دیا۔

’’ کِن کِن کے تو پر اور پاؤں سیاہ تھے۔اور تمھارے سفید ہیں۔تم تو اجنبی ہو۔ ہمارے جنگل کے نہیں لگتے ہو۔  تم کِن کِن کیسے ہو سکتے ہو؟ ‘‘

سن من نے   کہا اور اڑ کر گھونسلے میں چلی گئی۔

پیارے بچو! کِن کِن بہت دیر تک  برگد کے نیچے اداس  اور پریشان کھڑا رہا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اچانک صبح سے آئے بادلوں نے  بارش برسانا شروع کر دی۔  کِن کِن موسلا دھار بارش میں بھیگنے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ روتا جارہا تھا اور اپنی شرارتوں سے دل ہی دل میں توبہ کر رہا تھا کہ اچانک  اس کی نظر اپنے پاؤں پر پڑی۔ ان پر سے سفید رنگ اتر چکا تھا ۔اس کے پاؤں اورپَر پھر سے سیاہ ہو گئے تھے۔  وہ خوشی سے اچھلا اور لگاکائیں کائیں کرنے۔ پھر اس نے جلدی سے اڑ کر گھونسلے کے دروازے پر دستک دی۔ سِن مِن  نے دروازہ کھولا۔

 ’’ کِن کِن! تم کہاں رہ گئے تھے؟ ارے تم اتنا بھیگ گئے ہو۔  جلدی سے انگیٹھی کے پاس بیٹھ جاؤ۔ ورنہ تمھیں ٹھنڈ لگ جائے گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اس کے لیے پنیروالے سینڈوچ بنانے چلی گئی۔

سوہنے موہنے بچو! کِن کِن کبھی سن من کو نہ بتا سکا کہ وہ سفید پاؤں والا پرندہ بھی کِن کِن ہی تھا! اور آپ بھی کبھی نہ بتائیے گا کیونکہ اب ہمارا کِن کِن ایسی شرارتوں سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر چکا ہے جو دوسروں کو نقصان پہنچائیں۔