میں خشکی پر رہوں یا پانی میں؟



میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے اس وقت کی جب مچھلیاں جنگل میں رہتی تھیں۔ وہ گھاس پر اچھلتی پھرتیں، کبھی درخت پر چڑھتیں اور کبھی ٹیلوں پر۔ ایک دن ایک مچھلی جس کا نام مارمو تھا، گھاس پر بیٹھی ہوئی تھی۔ مارمو کا گھر وہیں پاس ہی ایک بہت بڑے پتے کے نیچے تھا۔ یہ پتہ ہوا سے اڑتا نہیں تھا کیونکہ وہ بہت پرانا اور بھاری ہو گیا تھا۔ مارمو کے گھر میں ایک کمرہ، صحن اور پھر دروازہ تھا۔ دروازے کے ساتھ ایک چھوٹی سی کھڑکی بھی تھی۔

اچانک مارمو نے دیکھا۔ زمین زور زور سے ہل رہی تھی۔ ساتھ ہی آوازیں آرہی تھیں۔

’’ہو ہو ! ہا ہا! ہم ہاتھی میاں ہیں۔ ۔۔ ہو ہو ! ہا ہا! ہم ہاتھی میاں ہیں!‘‘

وہ جلدی سے اچھل اچھل کر اپنے گھر کے اندر چلی گئی۔ پھر اس نے کھڑکی میں سے  دیکھا۔


ایک سفید رنگ کا  ہاتھی اپنی سونڈ کو دائیں بائیں ہلاتا چلا آرہا تھا۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہہ رہا تھا۔

’’ہو ہو ! ہا ہا! ہم ہاتھی میاں ہیں۔ ۔۔ ہو ہو ! ہا ہا! ہم ہاتھی میاں ہیں!‘‘

’’ ’’کٹ کریک کٹ! کٹ کریک کٹ!‘‘ مارمو مچھلی نے اپنے دانت بجا  کر آواز نکالی اور کھڑکی سے سر باہر نکال کر  کہنے لگی۔

’’ہاں تو اس میں اتنا شور کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

ہاتھی میاں نے  اپنی سونڈ سے اپنے دو تین بالوں میں کنگھا کیا اور بولے۔

’’وہ میں اس لیے کہتا ہوں تاکہ۔۔۔ تم جیسی چھوٹی  مچھلیاں میرے پاؤں کے نیچے نہ آجائیں۔‘‘

’’کیا کہا! چھوٹی! ‘‘ مارمو جلدی سے باہر نکلی اور اچھل کر ہاتھی میاں کے سامنے ایک ٹیلے پر سیدھی کھڑی ہو گئی ۔ تب بھی وہ ہاتھی میاں کی آدھی سونڈ تک بھی نہ پہنچ سکی۔

’’دیکھو! راستے سےہٹ جاؤ۔‘‘ ہاتھی میاں نے غصے سے کہا۔

مارمو وہیں کھڑی رہی۔لیکن کب تک! بارش کی وجہ سے پہلے ہی  گھاس گیلی تھی اور اس کی دم پھسل رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ ہاتھی میاں کچھ اور کہ پاتے، مارمو پھسلی اور پھر بہت پھسلی۔ حتیٰ کہ وہ ٹیلے کے پیچھے بنے ہوئے چھوٹے سے تالاب میں جا گری۔

پہلے تو مارمو کو سمجھ نہ آئی کہ کیا ہوا۔ پھر ہاتھی میاں نے جلدی سے آگے بڑھ کر مارمو کو اپنی سونڈ سے پکڑ کر پانی سے باہر نکالا اورواپس گھاس پر رکھ دیا۔

’’اوہ! ویسے پانی میں رہنا کتنا اچھا لگا مجھے!‘‘ مارمو نے اپنی دم پر سے پانی کے قطرے جھاڑے اور چپکے سے سوچا۔

’’کٹ کریک کٹ! کٹ کریک کٹ! ‘‘

اسے نے اپنے دانتوں سے آواز نکالی اور پوچھا۔

ویسے ہاتھی میاں! کیا مجھے پانی میں رہنا چاہیے یا خشکی پر؟‘‘

’’امم! تم جنگل میں رہتی ہو۔ تو بس ! تمھیں یہیں رہنا چاہیے۔‘‘ ہاتھی میاں نے کہا اور سونڈ ہلاتے ہوئے چل دیے۔

مارمو کو یہ جواب کچھ ٹھیک نہیں لگا۔ وہ تھوڑا آگے گئی  جہاں درخت  پر چڑیا اپنے بچوں کو کھانا کھلا رہی تھی۔

’’کٹ کریک کٹ! کٹ کریک کٹ! سنو بی چڑیا ! کیا میں جنگل میں رہوں یا پانی میں؟‘‘

’’چوں چوں ! چوں چوں! تم میرے ساتھ رہو۔ میں تمھیں اڑنا سکھاتی ہوں۔ ‘‘

مارمو مچھلی کو یہ جواب بھی ٹھیک نہ لگا۔ وہ آگے گئی تو اس کی نظر بندر پر پڑی جو کیلے کے درخت کے ساتھ لٹکا ہو ا تھا۔

’’ ’’کٹ کریک کٹ! کٹ کریک کٹ! بندر بھیا! کیا میں جنگل میں رہوں یا پانی میں!‘‘

’’ہائیں! بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ تم جنگل میں رہو بلکہ میرے پاس آؤ۔ میں تمھیں ٹہنی پر سے چھلانگ لگانا سکھاتا ہوں۔‘‘

مارمو نے یہ سن کر منہ بنایا اور آگے چل دی۔

کچھ دور جا کر اس نے دیکھا۔ شیر انکل کچھ ڈھونڈتے ہوئے چلے آرہے تھے۔

’’ ’’کٹ کریک کٹ! کٹ کریک کٹ! شیر انکل! کیا میں جنگل میں رہوں یا پانی میں؟‘‘ مارمو نے چلا کر پوچھا۔

’’ہمم ہم ہمم ہمم!!‘‘ شیر نے ایک زوردار آواز منہ سے نکالی۔

’’تم جنگل میں ہی رہو ننھی مچھلی! ویسے بھی مجھے مچھلی کا گوشت کھانے کا بہت شوق ہے۔‘‘

مارمو نے یہ سنا تو اپنی دم پر اچھلتی ہوئی دور بھاگ گئی۔ پھر ایک ٹیلے کے پاس جا کر اس نے سانس لی اور ادھر ادھر دیکھا۔ وہاں ایک خرگوش مٹی کھود کھود کر اپنا گھر بنا رہا تھا۔

’’کٹ کریک کٹ! کٹ کریک کٹ! ‘‘ مارمو نے دانت بجا کر آواز نکالی۔

خرگوش نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

’’خرگوش میاں! یہ بتاؤ! میں جنگل میں رہوں یا پانی میں!‘‘

’’پر پررر! پر پررر! تم میرے ساتھ ٹیلے کے اندر رہو۔ یہاں سردی بالکل بھی نہیں لگتی۔‘‘

خرگوش اتنا کہہ کر اپنے گھر میں گھس گیا ۔

مارمو اداس ہو گئی۔ اس کو کوئی جواب بھی ٹھیک نہیں لگتا تھا۔  

وہ خاموشی سے اپنے گھر چلی گئی۔

تھوڑی دیر بعد اس کے دروازے پر دستک ہوئی جو گھاس پھونس کا بنا ہوا تھا۔

’’ٹھس ٹھس ٹھس!‘‘

مارمو نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے ایک ننھا سا Sloth کھڑا تھا۔

’’سکیوئیک ک ک ک! سکوئیک ک ک!!! کیا میں تمھارے گھر رہ سکتا ہوں۔ کچھ دن کے لیے؟‘‘

Sloth نے پوچھا۔ بارش کی وجہ سے سب درختوں پر پانی اور پھسلن تھی۔  

’’ہاں بالکل۔ اچھا یہ بتاؤ! کیا مجھے پانی میں رہنا چاہیے یا خشکی پر!‘‘

مچھلی نے اسے سوپ کا پیالہ تھمایا اور پوچھا۔

’’ سکوئیککک! سکوئیکک!! میرا خیال ہے تم پانی میں زیادہ انجوائے کرو گی کیونکہ وہاں تمھارے لیے نئے دوست ہیں۔ کیکڑے، جیلی فش، ڈولفن اور ۔۔۔ اور۔۔۔سکوو وکک یک ی ی کک ک ک ک !! ‘‘

Sloth اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ وہ سو گیا ۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ سوپ کا پیالہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کرنیچے گرتا ،  مارمو نے پیالہ پکڑ لیا اور شیلف پر رکھ دیا۔

’’ہاں تو! مجھے پانی میں رہناچاہیے۔ ‘‘

مارمومچھلی  نے سوچ لیا تھا۔  سو جلد ہی وہٍ تالاب میں شفٹ ہو گئی۔

بچو!اس دن سے  سبھی  مچھلیاں تالاب میں رہتی ہیں۔ وہ پانی سے باہر نکل نہیں سکتیں۔ انہیں سانس لینے کے لیے تالاب کے اندر ہی رہنا پڑتا ہے۔ لیکن! ارے  واہ! ہماری مارمو مچھلی کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں! وہ گھاس پر آکر بھی سانس لے سکتی ہے اور پانی میں جا کر بھی۔ مارمو مچھلی جب خشکی پر ہوتی ہے تو اپنی اسکن سے سانس لیتی ہے۔ جب وہ پانی میں رہ رہی ہوتی ہے تو وہ اپنے Gills سے سانس لیتی ہے۔ مارمو مچھلی کا پورا نام  Rivulus marmoratus ہے۔  ہاتھی میاں ، مارمو مچھلی کے گہرے دوست ہیں۔ سوچو! اگر وہ نہ ہوتے تو مارمو کو اپنا اصلی گھر کیسے پتہ چلتا؟

ارے ہاں! مارمو کے پرانے گھر میں Sloth ابھی تک سویا ہوا ہے۔ اگر آپ کا گزر وہاں سے ہو تو اسے ضرور جگا دیں۔