ریحان اور چیونٹیوں کا جزیرہ - 4

 


’’امی! سونے دیں پلیز۔ ابھی تو نو بجے ہیں۔ ‘‘

ریحان نیند میں کہہ رہا تھا لیکن کمبل تھا کہ اس کے اوپر سے کھنچے چلا آرہا تھا۔

’’امی! پرامس صرف تیس منٹ سونے دیں پھر اٹھ جاؤں گا۔‘‘ ریحان نے کمبل کو دوبارہ سے اوڑھنے کی کوشش کی لیکن اس کے منہ سے آہ نکل گئی۔

’’آہ ۔۔ آؤچ!‘‘


اس نے جلدی سے ہاتھ مسلا اور آنکھیں کھول دیں۔ پہلے تو اس کی نظر صاف آسمان پر پڑی جہاں سفید سفید بادل بہت بھلے لگے رہے تھے۔ پھر اس نے دائیں جانب دیکھا تو عجیب و غریب سی چیوٹیاں اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑی اسے دیکھ ہی تھیں۔ ریحان نے سن رکھا تھا چیونٹیوں کی آنکھیں نہیں ہوتیں لیکن ان سرخ رنگ کی چیونٹیوں کی سرخ رنگ ہی کی ننھی ننھی آنکھیں تھیں جو ان کی سروں پر لگے انٹینے کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی تھیں۔

ریحان نے جلدی سے گھبرا کر کھڑے ہونا چاہا لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔ اس کے اوپر ایک جال پھیلا ہوا تھا ۔ وہ چیونٹیوں کا جال تھا جو آہستہ آہستہ حرکت کرتا اس کے اوپر سے نیچے اتر رہا تھا۔ نیند میں جسے وہ لحاف سمجھا تھا ، یہ چیونٹیوں ہی کا وہ غول تھا جو اس کے اوپر سے سلائیڈ کھا کھا کر نیچے اتر رہا تھا۔

خوف سے ریحان کی سانسیں بند ہونے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد اسے اطمینان ہوا کہ یہ چیونٹیاں اسے کاٹ نہیں رہی تھیں۔ جب سب چیونٹیاں اس کے اوپر سے اتر گئیں تو ایک جانب چلنے لگیں۔ صرف وہ چیونٹیاں اس کے ساتھ کھڑی رہ گئیں جو اس کے دائیں طرف کھڑی تھیں۔

’’آہا! تو کیا میں زندہ ہوں!‘‘

ریحان نے سوچا۔ پھر اس کا دل جیسے کسی نے پکڑ لیا۔

’’امی ۔۔۔ ابو۔۔۔ دادا ابو! وہ۔۔ کیا وہ۔۔ ڈوب گئے؟‘‘

اس سے آگے ریحان سے کچھ نہ سوچا گیا ۔

اب وہ  اٹھ کر بیٹھ چکا تھا اور اردگرد کا جائزہ لے رہا تھا۔ یہ کوئی بے آباد اور ویران سا جزیرہ تھا۔ یہا ں بس اکا دکا درخت نظر آرہے تھے یا پھر بھوری جھاڑیاں۔ ہاں جہاں دیکھو چھوٹے یا بڑے ٹیلے ہی ٹیلے نظر آتے تھے۔ ان ٹیلوں میں ننھے سوراخ یا سرنگیں بنی ہوئی تھیں۔ یہ ان سرخ چیونٹیوں کے گھر تھے۔

جب ریحان جزیرے کا جائزہ لے چکا تو اسے دو باتیں شدت سے یاد آئیں۔ ایک امی ابو اور دادا ابو کی یاد اور دوسرا یہ کہ ۔۔۔ اسے شدید بھوک لگی ہوئی تھی۔ پتہ نہیں کتنے گھنٹوں سے پیٹ خالی تھا اور گلا بھی خشک ہو رہا تھا۔

کچھ کھانے کے خیال سے وہ اٹھ کھڑا ہوا لیکن پھر فوراً  ہی لڑکھڑا گیا۔ تھوڑی کوشش کے بعد وہ چلنے لگا لیکن اسے بہت کمزوری محسوس ہو رہی تھی۔ سامنے ہی درخت پر کچھ عجیب سے جامنی رنگ کے پھل لٹکے ہوئے تھے۔

’’اب درخت پر کیسے چڑھوں؟‘‘

ریحان وہیں کھڑے ہو کر سوچنے لگا۔

اچانک اسے بھنبھناہٹ کی سی آواز سنائی دی۔ اس نے اردگرد دیکھا۔ کچھ نظر نہ آیا۔ اچانک اس کی نظر زمین پر پڑی۔ اس کے پاؤں کے نزدیک  پانچ چیونٹیاں کھڑی اپنے انٹینا ہلا ہلا کر کچھ کہہ رہی تھیں۔

کچھ لمحوں بعد انہوں نے ایک جانب چلنا شروع کر دیا۔ ریحان سمجھ گیا۔ وہ بھی ان کے پیچھے چلنے لگا۔کچھ دیر بعد وہ ایک ٹیلے کے سامنے کھڑا تھا۔ یہ کچھ زیادہ اونچا نہیں تھا ۔ اس کے اندر بے شمار ؤچھوٹی چھوٹی سرنگیں بنی ہوئی تھیں جن میں سرخ  چیونٹیاں آجارہی تھیں۔  کچھ نے اپنے سروں پر ننھی ٹہنیاں ، پتے  اور ریت کے ذرے بھی اٹھا رکھے تھے۔

ریحان کو اپنے ساتھ لانے والی پانچ چیونٹیاں ٹیلے کے اندر چلی گئیں۔ پھر تھوڑی دیر بعد باہر آئیں تو ان کے سروں پر اسی جامنی پھل کے ٹکڑے تھے ۔ وہ ریحان کے پاس آکر کھڑی ہو گئیں۔

ریحان سمجھ گیا کہ وہ اس کے کھانے کے لیے لائی ہیں۔ لیکن وہ چیونٹیوں والا پھل نہیں کھانا چاہتا تھا۔ اس کے ٹکڑوں پر چیونٹیوں کے نشانات بھی تھے۔

’’امم! یہ کیسے کھاؤں۔  میں خود ہی تھوڑے سے پھل  توڑ لیتا ہوں۔ ‘‘

اتنا کہہ کر ریحان درخت کی جانب بڑھا اور اس کے تنے کے ساتھ چپک کر اوپر چڑھنے لگا۔تھوڑی ہی دیر بعد اس کے ہاتھ پھسلے اور پھر پاؤں بھی۔ اور وہ نیچے آگرا۔

’’اوہ! اوہ!‘‘

جب وہ تیسری بار نیچے گرا تو اسے محسوس ہوا کوئی ہنس رہا ہو۔

’’ہی ہی ہو ہو!!‘‘

’’ یہاں کہاں کوئی انسان ہو گا ۔ اور یہ چیونٹیاں تو ہنس نہیں سکتیں ۔‘‘

ریحان نے سوچا اور پھر دوبارہ تنے پر چڑھنے لگا۔ اچانک اس کو ایسا لگا کہ نیچے سے اسے کوئی کھینچ رہا ہو۔ اس نے گردن گھما کر دیکھا۔ سرخ چیونٹیوں کی ایک پوری قطار اس کے پاؤں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔

’’یہ کہاں سے آ گئیں! اوہ مجھے چھوڑو۔ چھوڑو مجھے!‘‘

ریحان نے زور لگا کر اپنا پاؤں چھڑانا چاہا لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔

’’اوہو! میرا پاؤں چھوڑو۔ مجھے بھوک لگی ہے اور میں تمھارا یہ کھانا نہیں کھا سکتا۔ پتہ نہیں کتنے دنوں کا رکھا ہوا ہے تم نے۔اس پر تو فنگس لگ گئی ہو گی۔  ‘‘ ریحان نے جھلا کر کہا ۔

’’تمھیں سمجھ نہیں آتی بے وقوف لڑکے! اس درخت پر سانپ رہتے ہیں۔‘‘ اچانک نیچے  جھاڑیوں سے آواز آئی ۔

’’ہائیں!‘‘

ریحان بوکھلا گیا اور اس نے تنے سے چھلانگ لگا دی لیکن وہ بھول گیا تھا اس کا بایاں پاؤں  چیونٹیوں کے قبضے میں تھا۔ سووہ الٹ کرجھاڑیوں کے پاس جا گرا ۔

’’چچ! چھلانگ لگا نی بھی نہیں آتی۔‘‘

وہی باریک سی  آواز دوبارہ آئی تو ریحان نے غور سے جھاڑیوں میں جھانکا۔

ایک بڑے سائز کی چیونٹی جس کے سر پر ننھا سا سنہری تاج  تھا اور اس نے اپنا اگلا پاؤں کسی ملکہ کی طرح سے ایک ننھے سے پتھر پر رکھا ہوا تھا، سر ہلا کر کہہ رہی تھی۔


(جاری ہے)