انجو گئی چڑیا گھر

 


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے انجو کی جب اس نے چڑیا گھر کی سیر کی۔  وہاں یہ بڑے بڑے جانور تھے۔ نہیں نہیں! آپ ڈریں نہیں! وہ جانور بچوں کو کچھ نہیں کہتے  بلکہ وہ بچوں سے پیار کرتے ہیں۔

ہوا یوں کہ اتوار کی صبح ناشتے کے بعد بابا جان نے کہا۔

’’بچو! تیار ہو جاؤ۔ آج ہم چڑیا گھر کی سیر کو جائیں گے۔‘‘

یہ سن کر سب خوش ہو گئے۔ سب نے جلدی جلدی تیاری کی۔ ماما جان نے آلو کے چپس بنائے۔ آپا نے پراٹھے اور کباب ٹفن میں باندھے۔ کچھ ہی دیر بعد ننھی انجو گاڑی میں بیٹھیں چڑیا گھر جا رہی تھی۔ ان کے ہاتھ میں بھنے ہوئے چنوں کا ایک چھوٹا سا تھیلا تھا۔ بھیا نے بتایا تھا کہ بندر کو چنے بہت اچھے لگتے  ہیں۔


 چڑیا گھر میں داخل ہوتے ہی سب نے ٹکٹ لیے اور سب سے پہلے پنجرے کی طرف چل پڑے۔ جی ہاں! یہ رنگ برنگے مور ہیں۔ جیسے ہی انجو بھیا کی انگلی تھامے مور کے پنجرے کے پاس پہنچی ، مور نے اپنے پر پھیلالیے۔ ہماری انجو کو آنکھیں تو کھلی کی کھلی رہ گئیں۔  

’’واؤ! اتنے پیارے پر!‘‘

اگلا پنجرہ پرندوں کا تھا۔ چھوٹی چھوٹی پیاری  پیاری چڑیاں چوں چوں کر رہی تھیں۔ اگلے خانے میں کبوتروں نے غٹر غٹر کر کے شور رکھا تھا۔

ساتھ ہی ایک خانہ آسٹریلین طوطوں کا تھا جو کبھی ایک جگہ شاخ پر بیٹھتے کبھی دوسری پر۔

انجو سب پرندوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔

اب ہاتھی کی باری تھی جو ایک بہت بڑی پنجرے میں بند تھا۔ اس کی سونڈ لمبی تھی اور دم چھوٹی۔ جب وہ اپنا بھاری پاؤں زمین پر رکھتا تو انجو کو لگتا جیسے زمین ہل رہی ہو۔ اس کی سونڈ میں پتوں بھری شاخیں تھیں جنہیں وہ آہستہ آہستہ چبا رہا تھا۔  اس کے کان پنکھوں کے پر کی طرح تھے ۔

وہاں شیر بھی تھا۔ نسواری لمبے لمبے والا ببر شیراور شیرنی۔  چڑیا گھر کے آدمی اس کے پنجرے میں بنے ہوئے ایک کمرے میں گئے۔ اس کمرے کا دروازہ باہر سے کھلتا تھا۔ انہوں نے وہاں گوشت کے بڑے بڑے پارچے رکھ دیے پھر باہر آگئے۔ پھر انہوں نے ایک لمبا ڈنڈا لیا اور پنجرے کی جالی میں سے گزار کر کمرے کا وہ دروازہ کھول دیا جو پنجرے میں  اندر کی طرف کھلتا تھا۔ انہوں نے باباجان کو بتایا کہ یونہی ہر روز شیر کو کھانا دیا جاتا ہے۔ جب شیر کی گرجدار آواز آئی تو انجو جلدی سے آپا کے ساتھ جا کھڑی ہوئی۔

سیر کرتے ہوئے کئی جانوروں کےپنجرے گزر چکے تھے لیکن بچو! انجو کو بندر والے پنجرے کا بہت انتظار تھا۔ آخر کار دور ہی سے انہیں بندر نظر آگئے۔ وہ پنجرے کی سلاخوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ کچھ بندر چھلانگیں لگا رہے تھے۔ دو بندر کیلے کھانے میں مصروف تھے جو انہیں ایک بچے نے دیے تھے۔

دوسرے بچوں کی طرح ہماری انجو نے بھی پنجرے میں سے ہاتھ آگے کر چنوں کا تھیلا الٹ دیا۔ بندروں نے دیکھا تو دوڑے چلے آئے۔ وہ جلدی جلدی چنے کھا رہے تھے اور بیچ بیچ میں ننھی انجو کو یوں دیکھتے تھے جیسے کہ رہے ہوں ’’تھینک یو انجو! جنے بہت مزیدار ہیں!‘‘

اگلا پنجرہ ایک بہت پیارے جانور کا تھا۔ اس کے جسم پر سفید اور سیاہ دھاریاں تھیں۔وہ گھاس کھا رہا تھا۔ بھلا بتائیں کہ وہ کون تھا! جی ہاں! یہ زیبرا تھا۔ اس کے ساتھ دو چھوٹے بچے بھی تھے۔ انجو کو خاموش سا زیبرا بہت اچھا لگا۔

اب سب کو بھوک لگ گئی تھی۔ امی جان نے بھیا کو ایک چٹائی دی جو انہوں نے گھاس پر بچھا دی۔ پھر آپا نے کھانے کا سارا سامان لگا دیا ۔ سب نے مل کر کھایااور اللہ کا شکر ادا کیا۔ کچھ آگے کر کے ایک بڑا سا تالاب تھا جس میں سفید اور سیاہ بطخیں تیر رہی تھیں۔

انجو نے تالاب میں روٹی کے ٹکڑے ڈالے تو وہ تیز تیز تیرتی ہوئی کنارے پر آگئیں ۔ کچھ بطخوں کے پر دودھ کی طرح سفید تھے۔ ان کی چونچ نارنجی رنگ کی تھی۔ سیاہ بطخیں بھی بہت پیاری تھیں۔ جب وہ اپنی گردن پانی میں جھکا کر کے تیرتیں تو بہت اچھی لگتیں۔

واپسی کے گیٹ تک جاتے جاتے ایک بڑا پنجرہ بارہ سنگھا کا بھی آیا۔ اس کے بہت سارے سینگ تھے۔ اوپر نیچے بہت سارے! بارہ سنگھے دھوپ میں آرام کر رہے تھے۔ انجو کے بار بار ہاتھ بلانے پر بھی ان کی آنکھ نہیں کھلی۔

سرخ پتھروں والی فٹ پاتھ پر چلتے چلتے  سب چڑیا گھر سے باہر آگئے۔ گھر آکر بھی انجو کو چڑیا گھر کی یاد ستاتی رہی کیونکہ انہیں اچھلتے کودتے بندر بہت اچھے لگے تھے!