صحراؤں کا سپاہی


 پچھلے رمضان کی بات ہے۔ میرے پاس ایک فون آیا۔ آواز آئی کہ میں ڈاکٹر سید صلاح الدین قادری بول رہا ہوں، میرے لیے یہ نام اجنبی تھا۔ پھر خود ہی انھوں نے اس کی تصدیق یہ کہہ کر، کر دی کہ آپ مجھے نہیں جانتے ہوں گے۔ پھر فرمایا: کہ میں نے قرآن کریم کی ایک آیت پر کچھ کام کیا ہے، اس کا مسودہ آپ کو دکھانا چاہتا ہوں اور اس پر آپ کی رائے درکار ہے۔

اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں خیال آیا کہ یہ بھی کوئی ایسے ہی محقق ہوں گے، جو ریٹائرڈ ہونے کے بعد قرآن کریم کو تختہ مشق بناتے ہیں۔ عربی نہیں جانتے۔ اصول تفسیر اور حدیث سے ناواقف اور اپنے ‘‘ورک’’ میں یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ اب تک قرآن کو مفسرین نے صحیح نہیں سمجھا تھا۔ یہ ایسا ہی کہ کوئی شخص انگریزی نہ جانتا ہو، انگریزی ادب سے ناآشنا ہو اور یہ دعویٰ کرے کہ اب تک شیکسپیئر کو کسی نے صحیح نہیں سمجھا۔
چنانچہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے ادب کے ساتھ اپنا عذر کر دیا، کیوں کہ کسی مسودے پر رائے یا تبصرہ اس کو پورا پڑھے بغیر کر دینا میں امانت کے خلاف سمجھتا ہوں۔ پھر رمضان المبارک کی اپنی ہی مصروفیات کافی ہوتی ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے بھی بے جا اصرار نہیں کیا۔
لیکن چند ہی روز بعد میرے ایک شاگرد کا فون آیا، مجھے ان کا شاگرد ہونا، ان ہی سے معلوم ہوا تھا، مانامہ گلوبل سائنس کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ ان کا یہ ماہنامہ سائنس پر شاید پاکستان میا شائع ہونے والا اردو کا سب سے بڑا رسالہ ہے۔ وپ شروع ہی سے ہر شمارہ مجھے اعزازی بھیجتے ہیں اور میں نے اس شمارے سے کمپیوٹر کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ (اس طرح میرے شاگرد میرے استاد بھی ہیں) انہوں نے فون کر کے کہا کہ ڈاکٹر سید صلاالدین کا یہ کام قابل مطالعہ ہے۔ آپ کو پسند آئے گا۔ میں اسے آپ کے پاس لا رہا ہوں ۔ اس طرح وہ مسودہ میرے پاس آیا۔

مطالعہ شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ تو اردو زبان میں ایک انوکھے موضوع ہر نہایت دلچسپ اور نہایت سنجیدہ تحقیق ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق کے لئے اونٹ کو منتخب کیا۔ اس مسودے کا عنوان تھا‘‘حیران کن اونٹ’’مسودے کو میں نے بڑی دلچسپی سے شروع سے آخر تک پڑھا۔ اونٹ میں موجود اللہ تعالیٰ شانہحیران کر دینے والے عجائبات پڑھ کر میرے ایمان اور حق تعالیٰ شانہ کی قدرت و عظمت کے احساس میں نمایاں اضافہ ہوا، بلکہ اللہ تعلایٰ کا شکریہ ادا کیا کہ یہ مسودہ میرے پاس آگیا، ورنی اس علمی ذخیرے سے میں محروم رہ جاتا۔
مسودہ میں نے اپنے چند مشوروں کے بعد ان کو واپس کر دیا۔ پھر کافی عرصے تک مجھے یہ انتظار رہا کہ یہ کتابی صورت میں آجائے تو میری مختصر لائبریری میں ایک قیمتی چیز کا اضافہ ہو جائےگا۔ کچھ روز پہلے ڈاکٹر صاحب کا فون آیا اور خوشخبری سنائی کہ کتاب چھپ کر آ گئی ہے اور وہ یہ کتاب لے کر آنا چاہتے ہیں۔ میں تو مشتاق ہی تھی۔ وہ علیم احمد صاحب کے ساتھ آئے اور یہ تحفہ دے کر چلے گئے۔
اس سے پہلے کہ میں اونٹ کے عجیب اوصاف بیان کروں، یہ عرض کر دوں کہ اس کتاب کے مؤلف ڈاکٹر صلاح الدین قادری شعبہ حیوانات کے ماہر پروفیسر ہیں۔ قرآن کریم میں مختلف جانوروں کے نام آئے ہیں۔ مثلاً ہاتھی، بجھڑا یا گائے، خنزیر، اونٹ، ہدہد، مکڑی، چیونٹی وغیرہ اور مختلف محققین نے ان میں سے تقریباً ہر ایک کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ہے۔ لیکن یہ تحریریں زیادہ تر انگریزی میں ہیں اور مختصر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اونٹ کو اپنا موضوع بنایا اور آٹھ سال کی عرق ریزی اور محنت کے ساتھ تحقیق و جستجو کے بعد اونٹ پر پوری کتاب 288 صفحات پر مشتمل لکھ کر اردو میں ایک انوکھا اضافہ کیا ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ جل شانہ کو ان سے یہ کام لینا تھا۔
چناں چہ ڈاکٹر صاحب اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
‘‘جب سے اس کتاب کے کام کا آغاز کیا ہے، ہر طرف اونٹ کے حوالے سے کوئی نہ کوئی بات علم میں آتی گئی۔ بار بار میرے رب کی طرف سے اونٹ پر غور کرنے کی یاد دہانی کرائی جاتی رہی، تلاش کسی اور چیز کی ہو رہی ہے ۔ سامنے انٹ کی معلومات آرہی ہیں۔ نماز میں ہوں تو سورۃ الغاشیہ کی تلاوت ہو رہی ہے۔ (اس سورۃ کی آیت 17 میں اونٹ پر نظر کرنے (یعنی غور کرنے ) کی دعوت دی گئی ہے۔’’
چنان چہ یہ کتاب اسی آیت میں غور وتدبر کے حکم کی تعمیل ہے۔ عربوں کی زندگی میں تین چیزیں بہت محبوب تھیں۔ اونٹ، گھوڑا اور تلوار۔ ان کے یہاں اونٹوں اور گھوڑوں کے شجرۂ نسب تک محفوظ رکھے جاتے تھے اور مختلف خصوصیات کے مطابق ان کے نام بھی مختلف ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایسے ایفاظ جو اوںت کے لئے عربی میں رائج ہیں، ان کی فہرست دی ہے جو 107 (ایک سو سات) الفاظ پر محیط ہے۔ مثلاً ایسی انٹنی جس کا بچہ چھ مہینے کا ہو، اس کو الخلفہ کہتے ہیں۔ ایسی اونٹنی جو نر سے قد میں لمبی ہو، وغیرہ وغیرہ۔
قرآن کریم میں اونٹ کے 13 مختلف نام آئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے قرآن کریم کی آیات اور ترجمے کے ساتھ ان تیرہ ناموں کو جمع کر دیا ہے اور قرآنی آیات کے حوالے بھی دیے ہیں۔ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لئے یہ تیرہ نام اور ان کے معانی دئے جاتے ہیں۔
(1)اِبل: یہ واحد اور جمع دونوں معنوں میں اونٹ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ دو جگہ استعمال ہواہے۔ سورۃ الانعام آیت 144 اور سورۃ الغاشیہ آیت 17 ۔ یہ لفظ لُغت میں بادل کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
(2)بحیرہ: اہل عرب بحیرہ اس جانور یا اونٹنی کو کہتے ہیں جو پانچ مرتبہ جن چکی ہو اور آخری بار اس نے نر بچہ جنا ہو۔ اس اونٹنی کے کان چیر کر کھلا چھوڑ دیا جاتا تھا۔ یہ ان کے بتوں کے نام پر ہوتی تھی۔ اس لئے اس کا دودھ، گوشٹ اور اون وغیرہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ اور نہ کوئی اس پر سواری کرتا تھا۔ اس کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ المائدہ میں 103 ویں آیت میں آیا ہے اور ایک ہی مرتبہ ذکر آیا ہے۔
(3 )بُدن: یہ لفظ بھی قرآن کریم میں ایک ہی مرتبہ سورۃ الحج کی 36 ویں آیت میں آیا ہے۔ عرب میں بُدن ایسے اونٹ یا جانور کے لئے استعمال ہوتا ہے جو قربانی کے لئے بیت اللہ لے جائے جاتے ہیں۔
(4) بعیر: یہ لفظ قرآن کریم کی سورۃ یوسف میں دو مرتبہ آیا ہے۔ عربی میں بعیر ان اونٹوں کے لئے بولا جاتا ، جو باربرداری کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ لفظ بھی واحد اور جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ سورۃ یوسف کی آیات 25 اور 72 میں اس کا ذکر موجود ہے۔
(5) جمل: اس کا ذکر عربی زبان میں عموماً اونٹ کے لئے استعمال ہوتا ہے اور ضرب المثل کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ سورۃ ا لاعراف میں یہ لفظ ضرب المثل ہی کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ (سورۃ الاعراف آیت 4 )
(6) جِمٰلٰت: یہ لفظ جمل کی جمع ہے۔ سورۃ المرسلٰت میں تشبیہ کے طور پر دوذک کی آگ کی لپٹ کے لئے استعمال ہوا ہے۔
(7) حام: یہ لفظ بی سورۃالمائدہ کی 103 ویں آیت میں استعمال ہوا ہے۔ اہل عرب حام اس اونٹ کے لئے استعمال کرتے تھے، جس کا پوتا سواری دینے کے قابل ہو جاتا۔ یا جس اونٹ کے نطفے سے دس بچے پیدا ہو جاتے، اس قسم کے بوڑھے اونٹوں کو معبود کے نام پر کھلا چھوڑ دیا جاتا تھا۔
(8) رکاب: اس کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ الحشر آیت 2 میں استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ ایسے اونٹوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، جو سواری کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
(9) سائبہ: یہ لفظ بھی سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 103میںبحیرہ اور حام کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ اہل عرب سائبہ ایسی اونٹنی کو کہتے ہیں، جو کسی منت کے پورا ہونے،بیماری سے شفا پانے یا کسی خطرے سے بچ جانے پر شکرانے کے طور معبودوں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ یہ لفظ ایسی اونٹنی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، جس نے دس مرتبہ بچے جنے ہوں اور ہر بار مادہ ہی جنی ہو۔ یہ لفظ بھی سورۃ المائدہ کی 103 آیت میں آیا ہے۔
(10) ضامِر: یہ لفظ سورۃ الحج کی آیت نمبر 2 میں استعمال ہوا ہے۔ ضامِر عربی زبان میں کمزور سواری کے جانور یا اونٹ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
(11) عِشار: قرآن کریم کی سورۃ التکویر کی آیت نمبر 4 میں استعمال ہوا ہے۔ عِ شار جمع کا صیغہ ہے۔ اس کا واحد عشراء ہے۔ یہ لفظ عربی میں دس ماہ کی حاملہ اونٹنیوں کے لئے رائج ہے اور جمع ہی کے لئے استعمال ہوا ہے۔
(12) ناقہ: اس کا ذکر قرآن کریم میں سات مرتبہ مختلف سورتوں میں ہوا ہے۔ اس سورتوں کے نام اور حوالے بالترتیب یہ ہیں: سورۃ الاعراف73، سورۃالاعراف 77، سورۃ الہود64 ، سورۃ بنی اسرائیل59 ، سورۃ الشعرا2، سورۃ القمر2 ، سورۃ الشمس

اونٹ کے حوالے سے ناقہ کا لفظ سب سے زیادہ استعمال ہوا ہے۔ لفظ ناقہ بطور خاص حضرت صالح علیہ السلام کی اس اونٹنی کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جو قوم ثمود کے مطالبے پر بطور معجزہ پہاڑی سے نکل آئی تھی۔ قوم ثمود نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ایسی اونٹنی پیدا کر کے دکھاؤجو جسامت کے لحاظ سے بڑی ہو۔ پہاڑی سے نکل آئے اور آتے ہی بچہ جن دے۔ اس معجزہ کی تفصیل قرآن کریم میں موجود نہیں۔ تفاسیر میں اس کی پوری تفصیل آئی ہے۔ البتہ سورۃ الشمس میں یہ ذکر ہے کہ قوم ثمود نے اس اونٹنی کو قتل کر دیا تھا، جس کے نتیجہ میں ان پر عذاب آیا۔
(13) ہیمہ: اس کا ذکر سورۃ الواقعہ آیت 55 میں دو ذخیوں کے پانی پینے کی حالت کو پیاسے اونٹ سے تشبیہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ہیمہ عربی زبان میں اس اونٹ کو کہتے ہیں جس کو ہبانہ، یعنی ایک خاص بیماری لاحق ہو۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اونٹ پانی پیتا ہی چلا جاتا ہے ۔مگر اس کی پیاس نہیں بجھتی۔ اس بیماری کو استسقاء بھی کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں دوزخیوں کے لئے فرمایا گیا ہے کہ‘‘پس وہ کھولتا ہو پانی تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پئیں گے۔’’
(سورۃ الواقعہ88۔از ‘‘اونٹ’’ صفحہ35 تا صفحہ 47)
(بشکریہ اردو مجلس ڈاٹ کام)