1.
اونٹ کی
آواز کو "قرقر" کہا جاتا ہے۔ اس
کی آواز اکثر صحراؤں میں سنی جاتی ہے۔
2.
اونٹ
اکثر صحراؤں میں پایا جاتا ہے اور اسے صحراؤں کا سپاہی بھی کہا جاتا ہے. اس کی
مضبوطی اور صبر کی خصوصیات کی بنا پر اسے صحراؤں میں سفر کرانے اور بوجھ لادنے کے
لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
3.
اونٹ کی
کھال پر خار یعنی کانٹےموجود ہوتے ہیں جو اسے گرمیوں کی سخت شدید گرمی سے بچاتے
ہیں۔ اس کی کھال کی بھی فائدہ مندہے، اور
اس کے بال بھی کپڑوں کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔
4.
یہ
افریقہ،ایشیاء، اور آسٹریلیا کے صحرائی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
5.
اونٹوں
کو 5000قبل مسیح سے پالنا شروع کیا گیا ہے۔
6. اس جانور میں یہ خصوصیت ہے کہ یہ سخت سے سخت موسمی حالات کو برداشت
کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ جانور سخت موسمی حالات میں وہا ں بھی زندہ رہ سکتا ہے
جہاں دوسرے جانوروں کا زندہ رہنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ جانور اپنے جسم کا ایک چوتھا ئی
حصہ استعمال کرکے 5سے 7دن بغیر کھائے پیئے زندہ رہ سکتا ہے۔
7.
یہ جانور
اپنے جسم سے ہونے والے پانی کے نقصانات کو ایک ہی وقت میں پانی پی کر پورا کر سکتا
ہے اور 200لٹر پانی بیک وقت پی کر پوراکرلیتا ہے ۔یہ جانورصحرا میں پانی کی تلاش
کے لئے لمبا سفر کرسکتاہے۔
8.
ا ونٹ
سورج میں بیٹھنا پسند نہیں کرتا اگر اسے سورج میں مجبوری میں بیٹھناپڑے تو اونٹ
اپنا چہرہ سورج کی طرف کر کے بیٹھتا ہے اور اپنے جسم کو سورج کے سامنے آنے سے پوری
طرح بچانے کی کوشش کرتاہے۔ اونٹ صحرا میں ایک سائیڈ میں لیٹ کر اپنے سینے کی پلیٹ
کو ایسے سامنے لاتا ہے کہ اس کے جسم پر ہو ا کی ترسیل زیادہ سے زیادہ ہوسکے۔
9.
اونٹ
اپنے نتھنوں کو مکمل بند کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اونٹ اپنے ناک سے سانس کے ذریعے
ہونے والے پانی کے ضیاع کو کم کرسکتا ہے۔ بہت زیادہ گرمی ہونے کے باوجود اونٹ بالکل
نہیں ہانپتا۔اونٹ جب گرمی کے دباؤ میں آتا ہے تو اپنے سانس کی رفتار کم کرلیتا ہے
۔اونٹ میں جب پانی کی کمی ہوتی ہے تو وہ اپنے نتھنوں کے ذریعے ہو اسے پانی کھینچنے
کی صلاحیت رکھتا ہے
10.
اونٹ
اپنے جسم کا درجہ حرارت 34سینٹی گریڈ سے لرکر 42سینٹی گریڈ تک گھٹتا بڑھتا رہتا ہے
۔ اونٹ میں پسینہ بہت کم آتا ہے اور یہ اس وقت آتا ہے جب درجہ حرارت 42سینٹی گریڈ
تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ اونٹ جس کے جسم میں پانی پورا ہو اس میں پورا دن میں درجہ
حرارت صرف 2سینٹی گریڈ تک گھٹتا بڑھتا ہے۔ اور وہ اونٹ جس کے جسم میں پانی کی کمی
ہو اس کا درجہ حرارت 7سینٹی گریڈ تک گھٹتا بڑھتا ہے۔ اسی نظام کی وجہ سے اونٹ دن
میں 5لٹر تک پانی کو ضائع ہونے سے بچا لیتا ہے۔
11.
اونٹ کی
ایک مخصوص قسم کو "بکرا اونٹ" کہا جاتا ہے، جو انتھوں کے نیچے جھک کر
چلتا ہے اور اس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے.
12.
اونٹ کے
پورے جسم کے مقابلے میں اس کی ٹانگیں کافی پتلی ہوتی ہیں۔ تمام کھر دار جانور وں
کی انگلیوں پر کھروں کا خول چڑھا ہوا ہوتا ہے۔ اور ان کی انگلیاں نظر نہیں آتی
ہیں۔ یہ انگلیوں کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں۔ اور یہ جانور اپنے ان کھروں کے بل پر
چلتے ہیں۔ اونٹ اس معاملے میں بھی دوسرے جانوروں سے مختلف ہے۔ اس کے کھر تو ہوتے
ہیں، مگر اس کی انگلیوں کا اگلا حصہ ناخن کی صورت میں کھلا ہوتا ہے۔ بہت سے جانور
پنجوں کے بل پر چلتے ہیں ، جیسے کتا، بلی، وغیرہ۔ اونٹ نہ انگلیوں کے بل چلتا ہے ۔
اور نہ پنجوں کے بل پر۔ اس لیے اس کی چال دوسرے جانوروں سے مختلف ہے۔
13.
اونٹ کے
ہونٹ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص نشانیوں میں سے ہیں۔ اوپر کا ہونٹ بیچ میں سے کٹا ہوا
ہوتا ہے۔ یعنی دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ اور خاص بات یہ ہے کہ وہ ہونٹ کے ان
دونوں حصوں کو اوپر نیچے حرکت دے سکتا ہے۔
14.
ریگستانی
علاقوں میں دور دور تک درخت اور پودے نہیں ہوتے۔ اور اگر ہوتے ہیں تو کانٹے دار
جھاڑیاں یا کانٹوں والے کیکر جیسے درخت ہوتے ہیں۔ اونٹ کے کٹے ہوئے ہونٹوں کا
فایدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہونٹوں کو کانٹوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اس
کے ہونٹوں پر ایک گدی نما موٹی کھال ہوتی ہے جس پر چھوٹے بال ہوتے ہیں۔ اور ان کو
سخت کانٹوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔(وہ اپنے کٹے ہوئے ہونٹوں سے پتوں اور ٹہنیوں کو
ضرورت کے مطابق پکڑنے اور ہٹانے کا کام بھی لیتا ہو گا)
15.
اس کے
چرنے کا انداز بھی دوسرے جانوروں سے نرالا ہے۔ دوسرے حیوانات جہاں کہیں کوئی درخت
یا پودا دیکھتے ہیں، وہ اس کے سارے پتے اور ٹہنیاں تک کھا جاتے ہیں، اگر ان پودوں
کو پانی نہ ملے تو یہ مرجھا کر ختم ہو جاتے ہیں۔ اونٹ کے چرنے کا طریقہ یہ ہے کہ
وہ اپنی لمبی گردن سے درختوں کے کچھ پتے کھا کر آگے چل دیتا ہے۔ اور پھر دوسرے
پودے یا درخت کے چند پتے کھا کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح یہ کئی کلو میٹر کے علاقے
کو چرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
16.
اونٹ کے
سر کے اوپر دو چھوٹے چھوٹے کان ہوتے ہیں۔ اگر کان لمبے ہوتے تو کانوں کی بڑی سطح
بھی حرارت کو جذب کرتی۔ اگر کان کا رخ جیسا ہے ویسا نہ ہوتا۔ یعنی کان کھڑے ہوتے
تو ریت کے ریلوں کو نہ روک سکتے۔ کانوں کے اندرونی حصے میں بالوں کے گچھے ہوتے
ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ریت اور گرمی کی وجہ سے اس کی سماعت متاثر ہو سکتی تھی۔
17.
اونٹ کی
آنکھیں بھی قدرت کا عجوبہ ہیں۔ کانوں سے ذرا آگے اس کی دو بڑی بڑی آنکھیں ہوتی
ہیں۔ آنکھیں ہر جاندار کا بڑا ہی نازک حصہ ہیں۔ ان کی حفاظت کا قدرت نے یہ انتظام
کیا ہے کہ اس کی کھوپڑی کے آگے کی ہڈی آنکھوں کے آگے چھجے کا کام کرتی ہے۔ اس ہڈی
کے اوپر گہری گھنی بھنویں ہوتی ہیں۔ اس چھپر کی وجہ سے آنکھیں ہمیشہ سائے میں رہتی
ہیں۔ ریت سے بھی آنکھوں کی حفاظت ضروری ہے۔ یہ حفاظت اس کی پلکیں کرتی ہیں۔ اس کی
پلکیں بھی منفرد بنائی گئی ہیں۔ اونٹ کی پلکیں لمبی ہوتی ہیں، اس کے بال جھکے ہوئے
اور دو قطاروں میں ہوتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ آنکھ کے بند ہونے سے پہلے ہی اس
کی پلکوں کے اوپر اور نیچے کے خمیدہ بال آپس میں مل کر ایک جال سا بنا لیتے ہیں۔
اس کی وجہ سے آنکھ کے اندر ریت جانے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
18.
اونٹ کی
آنکھ کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس کی آنکھ کے اندر ایک باریک اور شفاف جِھلی
ہوتی ہے، جو ریت کے طوفان میں آنکھ کو مکمل طور پر ڈھانپ لیتی ہے اور حیرت کی بات
یہ ہے کہ اونٹ اس بندجھلی کے اندر سے دیکھ بھی سکتا ہے۔ آنکھ کو گرم اور خشک موسم
میں نمی کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ آنکھ خشک ہو کر سوکھنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ اس کے
لیے اللہ تعالیٰ نے ایک غدہ(غدود کا واحد) رکھ دیا ہے، جو اس کی آنکھوں کو نمی
مہیا کرتا ہے۔