کیا شق القمر apparent splitting تھی؟



 دیکھیں شق القمر کا واقعہ جو ہوا ہے وہ اصل میں ہوا ہے یعنی واقعی چاند دو ٹکڑوں میں شق ہوا اور اس کا ایک ٹکڑا کوہ قیقعان نامی پہاڑ پر دیکھا گیا دوسرا ٹکڑا کوہ ابی قبیس پر۔ جبکہ کوہ حرا کا پہاڑ ان دو ٹکڑوں کے بیچ میں دیکھا گیا۔ 

(بحوالہ تفسیر فتح الرحمان)

شق کا معنی ہوتا ہے کسی چیز کو دو equal parts میں تقسیم کر دینا۔

پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ ساحل عدیم اپنی ایک وڈیو میں جو بات کہہ رہے ہیں شق القمر کے متعلق وہ 

Apparent spitting 

ہے۔ یعنی اصل میں سلپٹ نہ ہونا لیکن ایسا نظر آنا۔ 

اور یہ ایسے ہوتا ہے جب ہم ایک planet پر کھڑے ہوں اور دوسرے planet یا چاند کو دیکھیں تو بیچ میں بلیک ہول کی گریوٹی کی وجہ سے مڑی ہوئی اسپیس کی وجہ سے وہ دوسرا پلینٹ یا چاند ہمیں دو الگ الگ جگہوں پر نظر آئے۔ اور ایسا لگے  جیسے وہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہو۔


لیکن شق القمر سے اگلی آیت ہمیں بتاتی ہے کہ شق القمر واقعی میں ہوا تھا۔ یہ apparent splitting نہیں تھی۔ کیونکہ اللہ کہہ رہے ہیں۔  کہ اگر وہ کوئی آیت دیکھ لیتے ہیں تو اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو چھپا ہوا جادو ہے۔ 

یعنی یہ نظر بندی نہیں ہے۔ نظرکا دھوکہ نہین ہوا۔بلکہ چاند واقعتا دو ٹکڑے ہوا۔ 

اچھا۔ اب ایک بات ذہن میں لے لیں کہ شق القمر آیا لوگوں کے مطالبے پر ہوا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشن گوئی پر۔ 

تو ہم اس میں تفسیر کوثر اور تفسیر عروہ الوثقی کو ترجیح جائیں گے جس میں علی بن ابی طالب کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چودھویں یا 15ویں کی رات کو بیان کر رہے تھے اور آپ کی پیشن گوئی کے مطابق چاند جیسے ہی طلوع ہوا دو ٹکڑے ہوا۔ ایک ٹکڑا اس پہاڑ تک گیا دوسرا وہاں۔ 

اور آپ نے فرمایا۔ لوگو گواہ رہنا۔ گواہ رہنا۔ 

۔۔۔ 

اب ہم نے یہ سمجھ لیا کہ چاند واقعی دو ٹکڑے ہوا تھا۔ 

تو کیا اس کو دنیا کے باقی حصے میں دیکھا گیا جہان جہاں تک چاند دیکھا جا رہا تھا یا جہاں جہاں تک رات تھی؟ 

جی بالکل دیکھا گیا اور ان کی تاریخ کی کتابو ں میں نوٹ بھی کیا گیا۔ 

بقول ابن عربی

"بے شک چاند کا پھٹنا قربِ قیامت کی بڑی نشانی ہے، کیونکہ چاند دل کے مشابہ ہے، چنانچہ جب دل متزلزل ہو، تو روح میں اثر ہوتا ہے۔ اور روح جب متاثر ہو، تو نور میں اثر ہوتا ہے، اور نور جب متاثر ہو، تو شعور و حس میں اثر ہوتا ہے۔ اور جب شعور متاثر ہو، تو اس کا ظہور عالمِ شہادت میں ہوتا ہے۔


تو چاند کا پھٹنا دل کے پھٹنے اور روح کے اضطراب کی طرف اشارہ ہے۔ اور جب روح اضطراب میں ہو تو شعور و حس میں اس کا ظہور ہوتا ہے۔ اور جب نفس اپنی طبیعت پر غالب نہ رہے تو چاند پھٹتا ہے، کیونکہ چاند نفس کے دل کے مقام پر ہے، اور اس کا تعلق نفس کی آنکھ سے ہے۔


اور چاند کا پھٹنا وقتِ ظہور میں ہوا، اور یہ زمانہ مہدی کے ظہور کا ہے۔ پس چاند کا پھٹنا، اس کے ظہور سے متعلق ہے، اور قرآن میں چاند کا پھٹنا اس وقت ذکر ہوا جب نفس کے اوصاف ٹوٹ گئے۔"

نفس کی آنکھ سے مراد pituitary gland ہے۔ جہاں سے سب ہارمونز مانیٹر کیے جاتے ہیں۔ 

ہارمونز اور چاند کی منازل ہم اوپر ڈسکس کر چکے ہیں کہ کس طرح چاند جیسے جیسے بڑھتا ہے تو ہارمونز بھی بڑھوتری کی طرف آتے ہیں حتی کہ چودھویں کی چاند میں ہارمومز اپنی پیک پر ہوتے ہیں۔

لترکبن طبقا عن طبق

سورہ الانشقاق

بقول مولانا زاھد الراشدی: (۲) ملا محمد قاسم فرشتہؒ تاریخ ہند ص ۴۸۹ ج ۲ میں لکھتے ہیں کہ تیسری صدی ہجری کی ابتداء میں کچھ عرب مسلمان کشتی پر سوار جزائر سری لنکا کی طرف جا رہے تھے کہ طوفانوں کی وجہ سے جزائر مالابار کی طرف جا نکلے اور وہاں گدنکلور نامی شہر میں کشتی سے اترے۔ شہر کے حاکم کا نام ’’سامری‘‘ تھا۔ اس نے مسلمانوں کے بارے میں یہودی اور عیسائی سیاحوں سے کچھ سن رکھا تھا۔ عرب مسلمانوں سے کہنے لگا کہ پیغمبر اسلامؐ کے حالات اور ان کی کچھ علامات بیان کریں۔ ان مسلمانوں نے اسے آنحضرتؐ کے حالات زندگی، اسلام کے اصول و مسائل اور نبی اکرمؐ کے معجزات کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں، دریں اثنا شق القمر کے تاریخی معجزہ کا ذکر بھی کیا۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ ذرا ٹھہرو ہم اسی بات پر تمہاری صداقت کا امتحان لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں دستور ہے کہ جو بھی اہم واقعہ رونما ہو اسے قلمبند کر کے شاہی خزانہ میں تحریر کو محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ اگر تمہارے کہنے کے مطابق محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صداقت کے اظہار کے لیے چاند دو ٹکڑے ہوا تھا تو اسے یہاں کے لوگوں نے بھی دیکھا ہوگا اور اتنا محیر العقول واقعہ ضرور قلمبند کر کے شاہی خزانے میں محفوظ کر لیا ہوگا۔ یہ کہہ کر اس نے پرانے کاغذات طلب کیے، جب اس سال کا رجسٹر کھولا گیا تو اس میں یہ درج تھا کہ آج رات چاند دو ٹکڑے ہو کر پھر جڑ گیا۔ اس پر وہ بادشاہ مسلمان ہوگیا اور بعد میں تخت و تاج چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ ہی عرب چلا گیا۔

(۳) علامہ سید محمود شکری آلوسیؒ اپنی کتاب ’’مادل علیہ القرآن مما یعضد الہیئۃ الجدیدۃ القویمۃ البرہان‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں:

میں نے تاریخ میں پڑھا ہے کہ جب سلطان محمود غزنویؒ ہندوستان پر بار بار حملے کر رہے تھے، انہوں نے بعض عمارتوں پر یہ تختی لکھی ہوئی دیکھی کہ اس عمارت کی تکمیل اس رات ہوئی جس رات چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔

ماخذ۔ ابو عمار زاہد الراشدی