ضرب المثل کہانی: (ج) جماعت میں کرامت ہے

 


’’ارے بشیر میاں! میں نے کہا کہ یہ چھت کی دیواروں پر سفیدی پھیر دیتے۔ نہ جانے کب سے چونے کی بالٹیاں لا رکھی ہیں تمھارے باوا نے ۔پر وہ صبح کا گیا دکان پر شام کو آئے۔ اور تم رہے سدا فارغ ! تم ہی کر دو یہ کام۔ موا چھت بے رنگ سا ہوا پڑا ہے ۔ کیا فرش کیا دیواریں سبھی قسمت کو رو رہی ہیں۔پھر میں نے سنا ہے کہ چھت کے فرش پر سفیدی پھیرو تو گرمی کم لگتی ہے نیچے کمروں میں۔ چلو اس بار یہ تجربہ بھی کیے دیکھتے ہیں۔‘‘

آپا جمیلہ نے اس ساری تقریر کے بعد اپنے لاڈلے اکلوتےبھائی اور چودہ جماعتیں پاس بشیر میاں کو دیکھا جو اس ساری تقریر سے بے نیاز فیس بک ریلز دیکھنے میں مگن تھے۔بشیر میاں ،آپا  جمیلہ کے میکے میں رہ جانے والے واحد رشتہ دار تھے۔ سوانہیں  اماں نے اپنے پاس بلا رکھا تھا تاکہ کوئی بھلی مانس لڑکی دیکھ کر بشیر میاں کی شادی کی جاسکے۔

یہ اور بات کہ بشیر میاں کی شادی کی جلدی ان سے زیادہ ان کے ننھے بھتیجے عارف کو تھی جن کا خیال تھا کہ ماموں بشیر کی شادی میں شہہ بالا تو وہی بنیں گے اور اگر بیس روپوں کا ہار کسی نے شہ بالا کو بھی پہنا دیا تو کیا ہی بات ہے زندگی سنور جائے گی۔اس خیال کے تحت وہ اکثر بیس روپوں کو ۱۲ سے ضرب دے دے کر متوقع آمدنی کے بارے میں پلان بناتے رہتے تھے۔   

’’پھر! کیا کہتے ہو بشیر میاں!‘‘ یہ کہتے ہوئےآپا  جمیلہ نے اپنی مشہور زمانہ  لاٹھی سے ان کی کرسی کے پائے کو  ایک  زوردارٹہوکا مارا۔


’’ہا۔۔ ہائے ہائے! کیا کرتی ہو آپا!  ابھی میرا پیاراموبائل نیچے گر جاتا!‘‘ بشیر میاں نے اس افتاد سے سنبھلتے ہوئے کسی متاع عزیز کی طرح موبائل کو دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔

’’ہاںںں! بس! ایک یہ تم اور ایک یہ تمھارا موا موبلیل! لوگ گر پڑ مر جاتے ہیں لیکن اس موئے پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتے۔ موبلیل نہ ہوا کوئی ہیرے جڑی شے ہو گئی جو اتنی قیمتی ہے تم لوگوں کے لیے۔‘‘

’’آپامیری پیاری آپا! پہلی بات تو یہ ہے کہ موبلیل نہیں موبائل ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس میں بے شک ہیرے نہ ہوں پر یہ ہیرے سے کم بھی نہیں ہے۔اس میں ۔۔ آپ خود۔۔۔ خود دیکھیں  کہ۔۔ کہ۔۔ ‘‘ بشیر میاں ابھی مزید قصیدے پڑھتے لیکن مخاطب کے طوفانی تاثرات دیکھتے ہوئے انہوں نے ازخود بات بدل لی۔

’’اچھا چھوڑیں۔۔۔۔ آپ کیا کہہ رہی تھیں آپا! پلیزحکم کیجیے۔‘‘

’’لو! اب کیا پھر سے ساری بات دہراؤں۔ توبہ ہے تم سے بشیرمیاں۔ مجھے تو وہ دن نہیں بھولتے جب تمھارا موبائل خراب ہوا تھا  اور ٹھیک ہونے کے لیے ماجد کی دکان پر دو دن تک پڑا رہا تھا۔ آہ! کتنے تابعدار تھے تم ان دنوں میں اور کتنے ہی کام نبٹا ڈالے تم نے۔۔‘‘  آپا جیسے کسی سہانے سپنے میں کھو گئیں۔

’’تابعدار نہیں مجبو ر و بے کس، بے چین و بے کل تھا میں آپا! اور آپ نے بھی اسی بہانے مجھے  خوب چونا لگایا تھا ان دنوں۔۔ اوہ ہاں! یاد آیا۔  آپ سفیدی کا ذکر کر رہی تھیں! ‘‘

آخر  آپا جمیلہ نے دوبارہ سے ساری بات دہرائی  تو بشیر میاں کچھ پریشان سے ہو گئے کیونکہ پہلے انہوں نے کبھی ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا اور آپا جب تک مطمئن نہ ہو جاتیں کسی کام سے ، تب تک وہ ڈانٹ ڈپٹ جاری رکھتی تھیں۔ پھر یہ چونے سفیدی  کا مکسچر کون بنائے گا۔ بشیر میاں نے آج تک بس پنسار کی دکان پر بیٹھ کر جڑی بوٹیوں کا مکسچر بنایا تھا وہ بھی جو حکیم صاحب بتاتے جاتے۔ اور بس! یہ سفیدی کیسے کرتے ہیں اور کیا کیا ڈالتے ہیں اس میں، یہ تو بشیر میاں کے بس کی بات نہیں تھی۔

آپا جمیلہ نے جو انہیں گہری سوچ میں دیکھا تو بول اٹھیں۔

’’اچھا! ویسے میں بھی سوچ رہی تھی کہ   اتنا پھیلا ہوا چھت اور ایک اکیلی جان۔ تو اکیلا کیسے کر سکے گا؟  چل  اپنے دوستوں کو بھی ساتھ ملا لے۔ دو چار ہاتھ مار دیں گے تو مدد ہو جائے گی۔ بڑے بزرک کہتے ہیں ناں جماعت میں کرامت ہوتی ہے۔ مل جل کر کرو گے تو پتہ بھی نہیں لگے گا۔‘‘

 

 یہ سن کر  بشیر میاں کو جوش ہی تو آگیا۔ انہوں نے آستینیں اوپر چڑھالیں۔ ساتھ کھڑا عارف ان کے مسلز سے ہمیشہ کی طرح متاثر سا ہونے لگا۔ اس کے لیے بشیر ماموں ، محمد علی کلے سے کم نہیں تھے جو دو ہی منٹ میں دشمن کو زیر کردینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ عارف کے ننھے دل پر یہ عظیم تاثر خود بشیر میاں نے ہی اپنے بارے میں بیسیوں طبع آزاد داستانیں سنا سنا کر نقش کیا تھا۔

ابھی بھی وہ شیخی میں آکر گویا ہوئے۔

’’ لو! دوستوں سے کہنے کی کیا ضرورت ہے آپا! اس کام کے لیے تو میں اکیلا ہی کافی ہوں۔ایک گھنٹے میں نبٹا کر رکھ دوں ایسے چھوٹے چھوٹے کام! ایسے ہی آپ جیجا جی کو کہتی رہیں۔ مجھے کہا ہوتا تو ابھی آپ سفیدی لگے چھت کے نیچے کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا لے رہی ہوتیں!‘‘ روانی میں بشیر میاں کہتے تو گئے لیکن  اس ٹھٹھرتی سردی میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے تذکرے سے ہی آپا جمیلہ کی لاٹھی جو حرکت میں آئی  تو بشیر میاں کو چھت کی آخری سیڑھی تک سی آف کرنے آئی۔بونس میں بھتیجے عارف کے دبے دبے قہقہے کانوں میں سیسہ انڈیلتے رہے۔

’’اس عارف کو تو چھوڑوں گا نہیں۔ یہی آپا کے کان بھرتا رہتا ہے ۔ جبھی وہ میرے پیارے موبائل کے اس قدر خلاف ہیں۔‘‘

یہی سوچتے سوچتے جب چھت پر پہنچ کربشیر میاں نے جب زمینی حقائق یا ’’چھتی ‘‘حقائق کا جائزہ لیا تو ان پر یہ انکشاف ہوا کہ چاروسیع کمروں اور ایک  لمبے دالان پر ڈالا گیا یہ چھت ان کی ’’ایک گھنٹے‘‘ والی شیخی سے کافی بڑا ہے۔ لیکن کیا کرتے! آپا جمیلہ اور چھوٹو عارف کے سامنے کہہ آئے تھے کہ اکیلا ہی کر وں گا۔ تو اب غیرت اجازت نہ دیتی تھی کہ کسی کی مدد لیتے۔

’’کوئی نہیں! سفیدی کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ یہ لو! ابھی ہوا کہ ہوا! ‘‘

اتنا کہہ کر انہوں نے چونے کی بالٹیوں کے ڈھکن الٹے۔ مکسچر جیجا جی یعنی عارف کے ابا نے تیار کر رکھا تھا۔ بس برش لے کر کام شروع کرنا تھا۔

’’جیجا جی بھی کمال کرتے ہیں ۔ جب سب کچھ تیار ہو گیا تھا تو دو چار ہاتھ بھی  مار ہی لیتے۔ کیا جاتا تھا۔ہائے واٹس ایپ پر کیا ہو رہا ہو گا۔ کمبخت سہیل  ٹوٹی کے گروپ میں زیادہ بات چیت ہوتی ہے۔ سلیفیز بھی سب وہیں بھیجتے ہیں۔ میرے گروپ میں مصر کی ممیاں بن جاتے ہیں ۔ خاموشی ہی خاموشی۔ حد ہو گئی۔ میں بھی گروپ کا نام بدل کر ’’اہرام مصر‘‘ رکھ دیتا ہوں۔ ‘‘ یہی جلی بھنی  سوچیں سوچتے ہوئے  بشیر میاں برش ڈبو ڈبو کر فرش پر پھیرتے گئے ۔

 ابھی ایک چوتھائی چھت بھی نہ ہو پائی تھی کہ کمر جواب دینے لگی۔

’’ہائے! اف! بھلا یہ چھت سیمنٹ ہی کے کیوں بنائے جاتے ہیں۔ ٹین اور لکڑی سے بھی تو کام لیا جا سکتا تھا۔ ‘‘

انہوں نے برش بالٹی میں پٹخا اور اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔

ایک نظر کیا ڈالتے ہیں چھت پر تو یوں محسوس ہوا کہ دائیں کونے میں برف باری سی ہوئی ہے اور باقی چھت اس حسین برفباری سے محروم ہے۔

’’آہا! کتنا پیارا لگ رہا ہے یہ کونا! آپا کو بتاتا ہوں۔ ۔نہیں بلکہ!‘‘ وہ سیڑھیوں کی طرف جاتے جاتے رک سے گئے۔

’’ایک سیلفی لے کر گروپ میں سینڈ کرتا ہوں۔اور فیس بک پر بھی۔ ہیش ٹیگ سفیدی ایٹ روف بائی بشیر دا گریٹ‘‘ یہ سوچتے ہی انہوں نے بائیں جیب سے موبائل نکالااورسفیدی لگا انگوٹھا دبا کر ان لاک کیا ۔ لیکن یہ کیا! بار بار

ان لا ک کرنے کی پانچ  ناکام کوششوں کے بعد موبائل اب پاسورڈ مانگ رہا تھا۔ بشیر میاں کو یاد نہ آیا کہ پاسورڈ کیا تھا۔اس ناہنجار و ہوشیار عارف کی دسترس سے موبائل دور رکھنے کی خاطر انہوں نے بیک اپ پاسورڈ اتنی بار بدلے تھے کہ اب خود بھی انہیں پاسورڈ یاد نہیں رہا تھا۔ بہتیر ی بار انہوں نے دونوں انگوٹھے آزما لیے ۔ لیکن موبائل سفیدی لگے انگوٹھوں کو پہچاننے سے یکسر انکاری تھا۔

آخر کار چھت پر ایک جانب لگے نلکے سے انہوں نے ہاتھ اچھی طرح دھوئے اور ایک طرف پڑی چارپائی پر جا بیٹھے۔ اب اطمینان سے انگوٹھا لگایا تو لاک فوراً کھل گیا۔ لیکن یہ اطمینان بس دو سیکنڈ کا تھا۔بی   16 کے فرنٹ کیمرے  کے اندر سے ہی  بشیر میاں اپنے ’’کیے کرائے‘‘ چونے سفیدی  پر پانی پھرتے دیکھ سکتے تھے۔ جی ہاں وہی پانی جو انہوں نے ہاتھ اچھی طرح دھونے کے لیے استعمال کیا تھا۔ وہی ناہنجار پانی بڑے مزے سے بہتا ہوا اب چونے کو کراس کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ چونکہ سفیدی نئی نئی تھی سو پانی کی کوشش بار آور ثابت ہوئی  اور وہ سارے مکسچر کو کونے والے پرنالے کی جانب بڑی کامیابی سے بہا کرلے گیا۔

بشیر میاں فرنٹ کیمرہ کھولے سکتے میں کھڑے تھے۔ نہ کوئی فلٹر انہیں یاد آرہا تھا نہ کوئی خوبصورت سا فوٹو فریم۔ یاد تھا تو بس کمر کا درد، سفیدی لگے دو انگوٹھے اورایک  بڑا سا نلکہ۔

آخر کار سارا غصہ نلکے پر اترا۔

’’ہونہہ! بھلا چھت پر نلکہ بنانے کی تک ہی کیا تھی۔ ‘‘

یہ جملہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ  چھت پر نلکہ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی  اور اگر تھی بھی تو ساتھ ایک  ریمائنڈر بھی لگا ہونا چاہیے تھا جو بول بول کر بتاتا کہ معزز بھائیو اور بہنو! اگر آپ نے فرش پر سفیدی لگا رکھی ہے تو نلکہ کھولنے سے یکسر گریز کریں۔

کمر میں الگ ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔بشیر میاں نے سوچا۔

’’آپا ٹھیک ہی کہہ رہی تھیں۔ ماجد ، منو اور سلیم کو بلا کر لاتا ہوں۔ حاشر سے بھی کہتا  آؤں گا۔ مل کر کریں گے تو کام آسان ہی ہو گا۔ اور گپیں بھی لگا لیں گے۔پھر کام ختم کر کے گلابی چائے پینے جائیں گے اور تیکھا تکے والے سے ۔۔۔۔‘‘

اس سے آگے بشیر میاں کچھ نہ سوچ سکے۔ بس انہوں نے سولہ سیڑھیاں پھرتی سے چار پانچ چھلانگوں ہی میں پھلانگ ڈالیں اور اب بشیر میاں سلیم کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ سلیم ان کا پرانا پڑوسی اور جگری یار تھا۔

جب اس نے ساری بات سنی تو اچانک ہی اس کے چہرے پر درد سا نمودار ہو گیا۔

’’یار۔۔ وہ۔۔ اف!! مجھے یاد آیا کل ہی میرا ڈینگی پازیٹو آیا ہے۔ یقین مانو سارے جسم میں اتنا درد ہے کہ بس۔ بخار بھی کبھی چڑھتا ہے کبھی اترتا ہے۔ ‘‘

ابھی سلیم کی اداکاری مع صداکاری جاری و ساری تھی کہ ان کی اماں کی خرانٹ سی آواز بشیر میاں کے کانوں سے ٹکرائی۔

’’اوئے سلیم! تجھے اللہ پوچھے۔کوئی ڈینگی وینگی نہیں تجھے اب تو ’’لیباٹی‘‘ کے کاغذ نے بھی کہہ دیا ہے۔ خبردار جو بستر پر لم لیٹ ہوا اب۔ کام والی آنے والی ہے ۔ آج ساری چادریں دھوئے گی وہ۔‘‘

سلیم میاں یوں کھڑے تھے کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ جب بشیر میاں کی طنزیہ ہنسی اور ’’اب بولو ذرا‘‘ کہتی آنکھوں کا گھورنا طویل ہوتا گیا تو وہ خود ہی بول پڑے۔

’’اچھ۔۔ چھا! وہ۔۔ ب۔۔برش لے لیے ہیں؟‘‘

اب بشیر میاں نے زوردار قہقہہ لگایا اور سلیم  کو کان سے پکڑ کر گھر سے نکال لائے ۔

منو  اورماجد کریانے کی دکان سے مل گئے۔

جب سب دوست اکھٹے ہو گئے تو سبھی نے ایک ایک برش سنبھال لیا ۔ بیچ میں دو بار عارف چائے بسکٹ بھی دے گیا۔کیا منو اور کیا سلیم کسی نے بھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ یہ کام برسوں سے جانتے تھے۔شاید یہ جمیلہ آپا کے ہاتھ کی مزیدار چائے اور رانی بیکرز کے بسکٹوں کا کمال تھا۔  خود بشیر میاں کی جانفشانی دیکھنے والی تھی۔ وہ اکیلے میں کام کے وقت عود کر آنے والی سستی و بیزاری اب یکسر عنقا تھی۔ دوستوں کے ساتھ مل کر کام کرنے نے ان کے اندر حیرت انگیز پھرتی بھر دی تھی۔

 کچھ ہی گھنٹوں بعد سب سے پہلے بشیر میاں نے ہی  برش بالٹی میں پھینکا اور ایک زوردار انگڑائی لی۔ پھر ایک نظر چھت پر دوڑائی۔ایسا معلوم ہوا کہ کسی اور کی چھت پر آنکلے ہیں۔ اپنا ہی چھت اور اس کی دیواریں ایک پل کر اجنبی لگنے  لگیں۔ آہستہ آہستہ منو اور ماجد پھر سلیم نے برش رکھ دیے اور سب آکر چارپائی پر ڈھیر ہو گئے۔

’’یار! ایسا لگتا ہے کہیں اور آ نکلے ہیں۔ وہ بدرنگ سا فرش اور چوہے رنگ کی دیواریں کہاں گئیں؟‘‘

بشیر میاں جیسے ابھی تک چونے کی سفیدی کے سحر میں تھے۔

’’تو یہ سوال دوبارہ پوچھ کر دیکھ کہ چوہے رنگ کی دیواریں کہاں گئیں۔ میں نے تجھے بھی دیوار سمجھ کر برش پھیر دینا ہے۔‘‘ سلیم نے اپنے بازو دباتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تو بشیر میاں یکدم ہوش میں آگئے۔

’’اچھا ! اچھا! ٹھیک ہے۔ رانی کے سموسے کھلادوں گا۔‘‘

’’کیا! کیا! صرف سموسے۔۔ مطلب صرف سموسے اور بس! بشیرمیاں! یہ بازو ہم نے کیا دھوپ میں سفید کیےہیں۔جی نہیں! آپ کی چھت کو سفیدی کرنے میں یہ بے چارے سفیدا سفید ہو گئے ہیں بلکہ درد سے کرلا بھی رہے ہیں۔اب ہم بریانی ، گجریلا اور پیپسی کے علاہ اور کوئی صورت نہ مانیں گے۔ کیوں بھئی جوانو؟‘‘ اتنا کہہ کر ماجد نے ’’جوانو‘‘ کی طرف دیکھا۔

سلیم اور منو نے فورا ہاتھ اٹھا کر ووٹ دے دیا۔

بشیر میاں نے بھی خوشی خوشی سر ہلا دیا۔ ان کے جگری دوستوں نے کتنی محنت سے ان کا ساتھ دیا تھا ۔ اب کیا بھلا وہ کنجوسی کرتے ! ہرگز نہیں!

نیچے اترنے سے پہلے بشیر میاں نے آخر ی بار وسیع  سفید صاف ستھرے فرش اور سفید بے داغ دیواروں  اور دودھ جیسے فرش والی  چھت پر نظر ڈالی تو آنکھوں کو گویا سکون ہی مل گیا ۔ انہیں بے اختیار آپا جمیلہ کا جملہ یاد آگیا۔

’’ٹھیک ہی کہتی ہیں پیاری آپا! جماعت میں کرامت ہے!‘‘