ٹیڈی بھالو کی وہیل چئیر


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک چھوٹے سے بھالو کی  جس کی ٹانگ ایک حادثے میں ٹوٹ گئی تھی۔ہوا یہ تھا کہ ننھا منا بھالو جس کا نام ٹیڈی تھا، ایک بہت اونچے درخت پر چڑھ کر شہد کھا رہا تھا۔  ہاں یہ دو ماہ پہلے  ہی کی بات ہے !جب ہمارے ننھے  ٹیڈی نے یہ سمجھا  ابھی تو دوپہر ہے، شہد کی مکھیاں شام کو واپس آئیں گی۔بس یہ سوچ کر اس نے سب سے اونچی والی شاخ پر بنے ہوئے چھتے کے پاس بیٹھ کر شہد کھانا شروع کر دیا۔ اچانک وہاں سے گزرتی ایک مکھی کی نظر ٹیڈی پر پڑ ہی گئی۔ اس نے شور مچا دیا۔

’’بھن! بھن! بھن!!! چور! چور! پکڑو اس بھالو کو!!‘‘ چاروں طرف سے مکھیوں نے درخت کو گھیر لیا۔

  پھر کیا تھا؟ مکھیوں کے کاٹنے کے ڈر سے ٹیڈی نے سوچے سمجھے بغیر چھلانگ لگا دی۔ حالانکہ ٹیڈی کے پاپا نے اسےسمجھایا تھا کہ کیسے شاخوں کو سیڑھیوں کے طور پر استعمال کر کے ہم درخت کے اوپر اور نیچے آ سکتے ہیں۔لیکن گھبراہٹ میں اس نے کچھ دیکھ بغیر ہی چھلانگ لگائی  اور  نیچے ایک پڑے پتھر سے جا ٹکرایا۔

’’آہ! اووو! آوہ! آہ!!‘‘

اس کے منہ سے نکلا۔ شاید ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔اتنے میں کچھ مکھیوں نے ٹیڈی کو کمر پر کاٹ بھی لیا تھا۔

ٹیڈی کی چیخیں سن کر اس کے پاپا دوڑئے آئے اور اس کو اٹھا کر بھاگنے لگے۔ جلد ہی وہ اپنے گھر کے اندر پہنچ چکے تھے۔ مکھیوں نے کچھ دیر تک ان کا پیچھا کیا پھر وہ اپنے چھتے پر واپس چلی گئیں۔

’’پاپا!  میری ٹانگ میں بہت دردہے۔ ‘‘ ٹیڈی نے کہا تو بھالو پاپا سوچ میں پڑ گئے۔ان کا خیال تھا کہ تھوڑی سی چوٹ ہے گھر ہی میں ٹھیک ہو جائے گی لیکن ڈاکٹر زیبرے نے جب ٹیڈی کی ٹانگ کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔

’’کیا یہ کبھی نہیں جڑ سکتی؟‘‘

انہوں نے ٹیڈی کو باہر بٹھایا اور اندر آکر ڈاکٹر زیبرے سے آہستہ آواز میں پوچھا۔


’’ تین ما ہ تک پلستر رہے گا۔ پھر دیکھیں گے کہ ہڈی کتنی مضبوط ہوئی ہے۔ ابھی تو ٹیڈی کو وہیل چئیر پربٹھائیں۔‘‘

بس بچو! اس وقت سے ٹیڈی وہیل چئیر پر ہی تھا۔ابھی تین ماہ پورے ہونے میں بہت دن باقی تھے۔ پٹی کھلنے کے بعد بھی معلوم نہیں کہ وہ چل سکے گا یا نہیں! یہی سوچ سوچ کر ٹیڈی اداس اور خاموش خاموش رہتا تھا۔ ہنسنا اور ڈھیر ساری باتیں کرنا اس نے کب کا چھوڑ دیا تھا۔ اس کے دوست اب اس کے ساتھ کھیلنا پسند نہیں کرتے تھے۔

ٹیڈی بس اپنے کمرے کی کھڑکی سے پر بیٹھا انہیں دیکھتا رہتا۔ ٹومی بھالو مکھیوں سے شرارتیں کرتا، ہن ہن گھوڑا اونچی چھلانگیں لگا کر دکھاتا ، بندر درخت سے الٹا لٹکتا اور زرافے کے بچے یہاں وہاں گھومتے۔ لیکن ہمارا ٹیڈی! ان سب کو دیکھتا اور سوچتا۔

’’کاش ! میں بھی تیز تیز چل سکتا، دائیں بائیں بھاگ پاتا اور اپنے ہاتھ سے شہد  کا چھتہ توڑ کر لاتا۔ گھاس پر چلنا کتنا اچھا لگتا ہے اور ایک ایڑی پر گھومنے میں کتنے مزہ آتا ہے۔‘‘ یہ سوچ کر وہ اپنی وہیل چئیر کے پہیوں کو غور سے دیکھتا پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔

ایک دن جب ٹیڈی سو کر اٹھا تو اس نے دیکھا۔ اس کے کئی کزنز اس سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ ٹیڈی بہت خوش ہوا۔ اس نے روز کی طرح ٹوتھ برش کرتے ہوئے منہ نہیں بنایا نہ ہی کپڑے بدلواتے ہوئے پاپا سے ضد کی۔ جب وہ ناشتہ کر کے کھیلنے والے کمرے میں پہنچا، اس کے کزنز اس کا انتظا ر کر رہے تھے۔

’’آؤ ٹیڈی! جب سے میں نے سنا کہ تم وہیل چئیر پر بیٹھتے ہو، میں بڑا اداس ہوا۔ بے چارے تم! کیسے بیٹھتے ہو اس پر سارا وقت!‘‘ ایک کزن نے ٹیڈی سے کہا۔ ٹیڈی خاموش رہا۔ وہ فرش کو گھورتا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہے۔

’’پتہ ہے!‘‘ ایک اور بھالو نے جس کا نام پتلو تھا، ملک شیک کا گھونٹ بھرا اور کہنے لگا۔ ’’ہمارے محلے میں بھی ایک انکل کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ پھر وہ فوت ہو گئے۔‘‘

’’اچھا کیسے؟‘‘ پردے کے پاس بیٹھے کزن نے پوچھا تو پتلو نے گلاس میز پر رکھ دیا اور بتانے لگا کہ کیسے وہ انکل وہیل چئیر سے گر گئے تھے۔

گرنے والی بات پر پنکی بھالو کو یاد آیا۔

’’او ہو! میں بھی ایک بار درخت سے گر گئی تھی لیکن میں تو ٹھیک ہو گئی تھی۔ ٹیڈی ! تم کب ٹھیک ہو گے؟‘‘

’’ٹیڈی! تم وہیل چئیر پر ہی سو جاتے ہو؟‘‘

’’ٹیڈی تم اس پر بیٹھتے بیٹھتے تھکتے نہیں ہو؟‘‘ سب بھالو کزنز باتیں کرتے رہے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ٹیڈی کو ایسی  باتوں سے کتنی  تکلیف پہنچا رہے ہیں۔

شام کو وہ  سب نئے کھلنے والے پارک میں گئے تو ٹیڈی پارک سے باہر ہی کھڑا رہ گیا۔ گیٹ سے اندر جانے کے لیے بڑی بڑی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ سب کزنز جھولے دیکھتے ہی بھاگےچلے گئے ۔ ٹیڈی نے اپنی وہیل چئیر واپس موڑ لی اور گھر واپس جانے لگا۔

’’ارے ! میرا پیارا بھتیجا! کہاں سے آرہے ہو!‘‘ ٹیڈی نے مالٹے کے درخت سے موڑ مڑا ہی تھا کہ ہاتھی میاں کی آواز آئی۔

’’پارک سے۔ ‘‘ ٹیڈی نے سر جھکا کر چھوٹا سا جواب دیا۔ وہ بہت اداس اور دکھی تھا۔

’’کیوں! تمھیں جھولے نہیں پسند؟‘‘ ہاتھی میاں حیرت سے بولے۔

’’پسند ہیں! لیکن! ‘‘ ٹیڈی نے ایک نظر اپنی پلستر والی ٹانگ پر ڈالی اور پھر خاموش ہو گیا۔

’’ہمم!میرا خیال تھا کہ تم ایک بہادر بھالو ہو۔ لیکن چلو! یونہی سہی!‘‘ ہاتھی میاں نے کہا اور آہستہ آہستہ چلنے لگے۔

’’ہاں ! ہاں! میں بہت بہادر ہوں۔ لیکن میں سیڑھیاں نہیں چڑ ھ سکتا انکل! ‘‘ ٹیڈی چلا کر بولا۔

’’تو کیا ہوا۔ دیکھو! اگر انسان میں ہمت ہو تو وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔یہ چھوٹا سا پلستر تمھیں خوش رہنے سے بھلا روک سکتا ہے؟ نہیں! تمھیں درد کا مقابلہ کرنا ہے۔ کیونکہ تم بہادر ٹیڈی ہو۔  چلو آؤ میرے ساتھ؟‘‘

یہ کہہ کر ہاتھی میاں نے ٹیڈی کو اپنی سونڈ کا سہار دے کر وہیل چئیر سے اتار لیا۔ ٹیڈی کو ایک لمحے کے لیے اپنی دونوں ہی ٹانگوں میں بہت درد ہوئی کیونکہ وہ بہت دنوں سے وہیل چئیر پر تھا۔ لیکن پھر وہ ہاتھی میاں کی سونڈ کا سہارا لے کر آہستہ آہستہ چلنے لگا۔

اسی طرح چلتے چلتے جب وہ پارک میں پہنچا تو سب اسے دیکھ کر حیران رہ گئے۔  جب ٹیڈی ہاتھی میاں کے سہارے سے جھولنے والے ٹائر پر بیٹھا تو سب نے زوردار تالیاں بجائیں۔

’’آہا! کتنا مزہ آرہا ہے۔ ہوا کتنی ٹھنڈی اور تازہ ہے۔‘‘ ٹیڈی نے جھولا جھولتے ہوئے نعرہ لگایا۔

اس دن ٹیڈی نے خوب جھولے کھائے۔ پھر وہ اسی طرح ہاتھی میاں کی سونڈ کا سہارا لیتے ہوئے اپنی وہیل چئیر کے پاس پہنچا۔ ہاتھی میاں نے اسے پیار کیا پھر وہ اپنے گھر چلے گئے۔

ٹیڈی گھر واپس پہنچا تو بھالو پاپا اس کا انتطار کر رہے تھے۔رات کو کھانے کے بعد پاپا نے کہا۔

’’چلو! ٹیڈی ! آؤ ورزش کر لو۔‘‘

ٹیڈی نے ہمیشہ کی طرح نہ انکار کیا نہ منہ بنایا۔ بلکہ وہ خوشی خوشی پاپا کے سہارےایکسرسائز کرنے لگا۔

اگلی صبح ناشتے کے وقت بھی اس نے خوب دل لگا کرناشتہ کیا۔ پاپا اس کے لیے ہمیشہ طاقت والا دلیہ اور پھلوں کا جوس بناتے تھے۔ ٹیڈی چٹ پٹی چیزیں کھانا چاہتا تھا لیکن پاپا کا کہنا تھا۔

’’تمھیں اپنی صحت کا خاص خیال رکھنا ہے۔ کیونکہ تم ایک اچھے بھالو ہو۔ تمھیں مضبوط اور صحت مند بننا ہے۔ ‘‘

پاپا ہر روز ٹیڈی کو سمجھاتے تھے لیکن آج ٹیڈی نے پاپا کی یہ بات بہت غور سے سنی اور دل میں بٹھا لی۔

بچو! ٹیڈی اب روز نہاتا ہے، دانت صاف کرتا ہے، ورزش کرتا ہے اور صحت مند کھانا کھاتا ہے۔وہ کبھی مایوس اور دکھی نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے اس کے لیے چاہا ہے، وہ اس کے لیے بہترین اور خوبصورت ہے۔

 اس کی  پلستر والی ٹانگ کب ٹھیک ہو گی، یہ تو اگلے مہینے ڈاکٹر زیبرا ہی بتائیں گے، لیکن  ٹیڈی  اداس نہیں ہے۔وہ اسی طرح ہرروز پارک میں جا کر کھیلتا ہے۔ اب تو وہ اسٹک کے ساتھ بھی تھوڑا تھوڑا چل لیتا ہے۔ یہ اس لیے کہ ٹیڈی کوشش کرتا رہتا ہے اور کبھی ہمت نہیں ہارتا۔

میرے بچو! اگر آپ بھی وہیل چئیر پر بیٹھ کر میری یہ کہانی پڑھ رہے ہیں تو میں کہنا چاہتی ہوں کہ  اداس ہونے کیا بھلا کیا بات ہے!آپ خوش رہیں ، خوب اچھا کھانا کھائیں،بہت زیادہ جھک کر نہ بیٹھیں اور ڈاکٹر نے جو بھی آپ کو ورزش بتائی ہے وہ باقاعدگی سے کریں۔ انشاء اللہ! مجھے پورا یقین ہے ایک دن ضرور  آئے گا جب آپ بھی خوب بھاگیں دوڑیں گے اورسلائیڈ کی سیڑھیاں چڑھ کر مزے سے سلائیڈ لیں گے۔ کسی کی باتوں سے پریشان نہ ہوں۔ دوست ناسمجھی میں ایسا بول  جاتے ہیں۔ کیا میں نے آپ کو بتایا ہے کہ ٹیڈی کے کزنز نے اس سے ان سب فضول باتوں کے لیے  سوری کر لی تھی؟ میری آپ کے دوستوں سے درخواست ہے کہ آپ سب بھی وہیل چئیر والے پیارے بچے سے معافی مانگ لیں۔ الفاظ سے کسی کو دکھ پہنچانا تو اچھی بات نہیں۔

خیر! جس دن آپ وہیل چئیر سے اٹھ کر خود کھڑے ہونے لگیں اور آہستہ آہستہ بغیر کسی سہارے کے چلنے لگیں، اس دن مجھے خوشی بھرا خط ضرور لکھیں۔ میں انتظار کر رہی ہوں!