گوگو گڑیا کے بال


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے اس وقت کی جب سیما کو چچا جان نے نئی گڑیا تحفے میں دی۔یہ گڑیا بہت پیاری تھی ۔ اس کا فراک  نیلے رنگ کا تھا جس پر سنہری رنگ کی جھالر لگی ہوئی تھی۔ گڑیا نے سر پر سنہرے رنگ کا تاج پہنا ہوا تھا۔ اس کے بال بھورے رنگ  کے تھے  اور....بے حد گھونگھریالے !

سیما نے گڑیا کو ہاتھ میں لیا اور کہنے لگی۔

’’امی جان! کیا میں اس کا نام گوگو رکھ لوں؟‘‘

’’ہاں کیوں نہیں!‘‘

امی جان نے کچن سے جواب دیا۔

پہلے تو سیما کچھ دیر گوگو کے ساتھ کھیلتی رہی پھر اس نے اس کی جھالر ٹھیک کی، تاج صحیح طرح اس کے سر پر جمایا اور  اسے باقی گڑیوں کے ساتھ کھلونوں والے  شو کیس میں رکھ دیا۔ پھر وہ اور راشد ٹینک والے فوجی کے ساتھ کھیلنے لگے۔

رات ہوئی تو ہمیشہ کی طرح کھلونے آپس میں باتیں کرنے لگے۔

’’ارے واہ! نئی گڑیا! تمھارے بال تو بہت پیارے ہیں۔‘‘

ٹینک والے فوجی نے پیار سے کہا۔

’’آں ہاں! ‘‘ گوگو نے سر ہلایا تو اس کا تاج ہلنے لگا۔

’’کیا تمھارا نام گوگو ہے؟‘‘ اچھلنے والے بندر نے قلابازی لگائی اور پوچھا۔

’’اوں ہوں!!‘‘ گوگو نے پھر ہاں میں ہلایا تو تاج اس کے بالوں میں الجھتا ہوا نیچے جا گرا۔ ساتھ ہی گوگو کے منہ سے نکلا۔

’’آہ ! آہ! آہ!!‘‘


تاج کے کے ساتھ اس کے بال بھی کھنچ گئے تھے اور اسے بہت درد ہوا تھا۔ اسی لیے ! اسی لیے! گوگو کو اپنے گھونگھریالے بال بہت برے لگتے تھے۔ یہ اسے درد کراتے تھے اور ہمیشہ الجھے ہی رہتے تھے۔

باربی ڈول آگے آئی اور اس نے تاج اٹھا کر دوبارہ گوگو کے سر پر رکھ دیا۔

’’ہی ہی ہی! تمھارے بال تو خراب ہو گئے ہیں۔‘‘ اچھلنے والے بندر نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’اور یہ بھیڑ کی اون کی طرح الجھے ہوئے  لگ رہے ہیں! ہاہاہا‘‘ ریل گاڑی کا انجن یہ کہہ کر اتنا ہنسا کہ اس میں سے آواز آنے لگی۔

’’پوں ںں! پوں! چھک چھک چھک!!‘‘ یہاں تک کہ وہ چلنے لگا اور اس نے پٹڑی پر پورے دو چکر لگائے۔

گوگو بے حد اداس تھی۔ وہ جانتی تھی اس کے بال ذرا سی آہٹ سے الجھ جاتے ہیں۔ ابھی بھی تاج کے گرنے کی وجہ سے اس کے سامنے کی طرف کے بال بے حد خراب لگ رہے تھے۔

باربی نے انجن اور بندر دونوں کو خاموش رہنے کو کہا۔ پھر اس نے اپنے ننھے سے پرس سے ایک چھوٹا سا  گلابی برش نکالا اورگوگو گڑیا کی طرف بڑھی۔

’’اداس نہ ہو گوگو! چلو میں تمھارے بالوں میں کنگھا کر دوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے گوگو کے بالوں میں برش کرنا چاہا لیکن یہ کیا!چھوٹا سا برش تو گوگو کے  پھولے ہوئے بالوں میں پھنس کر رہ گیا تھا۔ باربی نے زور لگا کر برش کو بالوں سے نکالنا چاہا تو گوگو کو بہت درد ہوا۔

’’اوہ! آہ! آہ!!‘‘

آخر کار برش تو گوگو کے بالوں سے نکل آیا جس پر بہت سے بال لگے ہوئے تھے، لیکن وہ ٹوٹ بھی گیا تھا!

نازک سی باربی بھی گوگو سے ناراض ہوگئی۔

’’نہ جانے تمھارے بال کیسے ہیں! میرا برش توڑ ڈالا ۔ مجھ سے بات نہ کرنا اب!‘‘

یہ کہہ کر اس نے ٹوٹا ہوا برش شوکیس سے باہر پھینک دیا اور تیز تیز چلتی ہوئی اپنے گھر چلی گئی۔

’’ٹک! ٹک!ٹک!‘‘

گوگو اس کے جوتوں کی آواز سنتی رہی اور سوچنے لگی کہ کیا واقعی میرے بال بہت برے ہیں۔ اتنے میں اونی گڑیا سو کر اٹھی تو اس کی نظر  گوگو پر پڑی۔

’’ارے! یہ کون ہے! اتنے پیارے بالوں والی گڑیا!‘‘

گوگو نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ جانتی تھی اس کے بال پیارے نہیں ہو سکتے۔

’’یہ گوگو ہے! نئی آئی ہے ہمارے ہاں! لیکن اس کے بال!! امم۔۔ وہ!!‘‘ اچھلنے والا بندر بتاتے بتاتے رک گیا۔ وہ گوگو کو مزیدتنگ نہیں کرنا چاہتا تھا۔

’’کیا بال؟ اتنے پیارے تو ہیں گوگو کے بال!! پیاری گوگو! کیا تم اپنا برش ساتھ لائی ہو؟ مجھے دو تو میں تمھاری دو  پونیاں بنا دوں ! بہت پیاری پیاری!!‘‘ اونی  گڑیا کہتے کہتے گوگو کے پاس آگئی۔

گوگو کو یاد آیا ۔ سیما نے ڈبے کے  ساتھ ہی ایک پرس بھی رکھا تھا۔ اس نے وہ پرس اٹھا کر اونی گڑیا کو پکڑا دیا۔ اونی گڑیا نے پرس میں سے ایک برش اور دو ربر کی پونیاں نکال لیں۔

’’یہاں آؤ اور میرے پاس بیٹھو!‘‘ یہ کہہ کر  اونی گڑیا جھولنے والی کرسی پر بیٹھ گئی ۔

گوگو کو بہت اچھا لگا۔ اونی گڑیا نے ایک بار بھی اس کے بالوں کا مذاق نہیں اڑایا نہیں تھا۔ وہ کرسی کے پاس آکربیٹھی تو اونی گڑیا نے برش اس کے بالوں میں پھیرا۔ یہ برش بھی بار بار اس کے بالوں میں پھنسنے لگا۔ اگرچہ اونی گڑیا نے بہت آرام سے برش پھیرا تھا لیکن پھر بھی بال کھنچنے لگے اور گوگو کے منہ سے نکلا۔

’’آہ! آہ! رہنے دو پلیز!!‘‘

پھر گوگو سوچنے لگی۔

’’صبح جب سیما میرے بالوں میں کنگھی کرے گی تب بھی مجھے اتنا ہی درد ہو گا؟‘‘

یہ  سوچ کر اس کو رونا ہی آگیا۔

’’ہمم!!‘‘ اونی گڑیا کچھ سوچتے ہوئے اٹھی  اور سامنے والی الماری میں سے ایک بوتل نکال کر لے آئی۔

گوگو گڑیا نے دیکھا ۔ اس بوتل پر لکھا تھا۔

’’Mustard Oil‘‘

’’کہیں یہ تیل میرے فراک پر نہ گر جائے۔‘‘ یہ سوچ کر گوگو جلدی سے شوکیس میں واپس چلی گئی ۔

’’ارے! تم واپس کیوں چلی گئیں! میں تمھارے بالوں میں برش نہیں پھیروں گی۔ بس یہ آئل لگاؤں گی۔ جلدی آجاؤ! سورج نکلنے والا ہے۔‘‘

یہ سن کر گوگو بھاگتے ہوئے آئی لیکن اس کی جھالر ہیلی کاپٹر کے پروں کے ساتھ الجھ گئی۔

’’چررچرر!‘‘

گوگو نے نیچے دیکھا۔ اس کا فراک ایک طرف سے پھٹ گیا تھا۔

’’اونہوں! اونہوں!! اوں ہوں!!‘‘ گوگو نے زارو قطار رونا شروع کردیا۔

اتنے میں دروازہ کھلا اور سیما اندر داخل ہوئی۔وہ فجر کی نماز پڑھ کر قاعدہ لیے دادی جان کے کمرے میں جارہی تھی۔ گوگو کی آواز سن کر وہ کھلونوں والے کمرے میں آگئی۔

 گوگو گڑیا ابھی تک رو رہی تھی۔

سیما نے جلدی سے اسے اٹھا لیا اور کندھے سے لگا لیا۔

’’تم کیوں رور ہی ہوگوگو! میں تمھیں دوسرے کپڑے پہنا دوں گی۔ یہ دیکھو! آپا نے تمھارے لیے کتنا اچھا فراک سیا ہے۔‘‘

لیکن گوگو جانتی تھی اسے زیادہ رونا کس بات پر آرہا ہے۔

سیما گوگو کو اٹھائے دروازے کی طرف بڑھی تو اس کی نظر تیل کی شیشی پر پڑی۔

’’اوہ! یہ یہاں کیسے آئی؟ خیر ! ‘‘ سیما نے کچھ سوچا اور شیشی بھی اٹھا لی ۔ پھر وہ کمرے سے  نکل گئی۔

اپنے بیڈ پر بیٹھ کر سیما نے گوگو کا تاج آہستہ سے اتارا ۔ پھر اس کے الجھے ہوئے  گھونگھریالے بالوں میں خوب تیل لگایا۔ جب وہ نرم ہو گئے تو سیما نے گوگو کو ایک طرف بٹھا دیا۔ پھر وہ قاعدہ پڑھنے دادی جان کے پاس چلی گئی۔ جب وہ واپس آئی تو گوگو سو رہی تھی۔ سیما نے اسے اٹھایا اور نہلانے کے لیے واش روم لے گئی۔

نہانے کے بعد گوگو ڈر رہی تھی کہ ابھی سیما اس کے بالوں میں کنگھا پھیرے گی اور ابھی اسے بہت درد ہو گا۔ لیکن کیا ایسا ہوا!! جی نہیں!! گوگو کو بالکل بھی درد نہیں ہوا بچو! کیونکہ نہانے سے پہلے سیما نے اس کے بالوں میں تیل لگایا تھا۔

بچو! اب گوگو بہت خوش رہتی ہے۔ اسے اپنے بال بالکل برے نہیں لگتے۔ اونی گڑیا نے اسے بتایا ہے کہ گھونگھریالے بال تو بہت ہی پیارے اور کیوٹ بال ہوتے ہیں اور اگر گھونگھریالے بالوں میں دو پونیاں بنائی جائیں تو وہ کسی کھلے ہوئےپھول کی طرح خوبصورت نظر آتی ہیں!

میرے بچو! اگر آپ کے بال بھی گھونگھریالے ہیں تو میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ بہت ہی پیارے بچے ہیں! اور کبھی بھی یہ سوچ کر اداس نہ ہوں کہ میرے بال اچھے نہیں! اللہ پاک نے ہمیں جو کچھ دیا ہے وہ سب پیارا ہے اور ہمارے لیے اور ہمارے حق میں بے حد اچھا بھی! بس جب آپ نہائیں تو نہانے سے ایک دو گھنٹے پہلے بالوں میں کوئی اچھا سا تیل لگالیں۔ پھر جب نہانے کے بعد آپ کنگھی کریں گے تو آپ کو بالکل بھی درد نہیں ہو گا کیونکہ تیل لگانے سے بال بہت نرم اور ملائم ہو جاتے ہیں۔ ہاں! کیا میں نے آپ کو بتایا ہے کہ سیما کو تیل لگانے والی بات کیسے معلوم ہوئی! وہ اس لیے کہ ہماری ننھی سیما کے اپنے بال بھی تو بے حد گھونگھریالے ہیں!!

بھالو میاں نے ایک ہاتھ سے چھلکے ہوا میں اچھالے پھر انہیں جھیل میں پھینک دیا۔بندر بھی ایسا ہی کرنے لگا۔

اس دن  ایک زرافہ پتے کھانے آیا۔ وہ جھیل کے کنارے اگے ہوئے درختوں کے پاس گیا اور ٹہنیاں توڑنے لگا۔ پہلے تو اس نے ان ٹہنیوں پر لگے ہوئے پتے کھائے پھر یہ ٹہنیاں سب کی سب جھیل میں پھینک دیں۔

بچو! اب تو اکثر جانور جھیل میں کچرا پھینکنے لگے تھے۔ جھیل کا پانی جو پہلے نیلا اور صاف ستھراتھا، اب بہت گندا اور کالا سا لگنے لگا تھا۔  

اگلے دن الو میاں گہری نیند سو رہے تھے۔ اچانک شور سے ان کی آنکھ کھل گئی۔انہوں نےدیکھا جھیل سے کچھ مچھلیاں سر نکال کر کہہ رہی تھیں۔

’’ہماری جھیل گندی نہ کرو۔تم سب اپنا اپنا کچرا جھیل میں ڈال دیتے ہو۔ کل ہی دو مچھلیوں کے گلے میں تنکے اور دھاگے پھنس گئے تھے جو چڑیا نے پھینکے تھےاور۔۔۔‘‘

ابھی ایک مچھلی اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ چڑیا بول اٹھی۔

’’چوں چوں چوں! ہاں تو بس چار دھاگے اور تین تنکےہی تو تھے جو میں نے جھیل میں پھینکے تھے۔ ویسے  تمھیں  پتہ ہے!  یہ کوے میاں اکثر ہڈیاں جھیل میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔‘‘

یہ سن کر کوا کیسے چپ رہتا ۔ وہ بھی فوراً بول اٹھا۔

’’کائیں کائیں! کائیں کائیں! یہ کیسی باتیں کر رہی ہو بی چڑیا! میں نے کب ہڈیاں پھینکی ہیں۔ وہ تو بس دو تین دفعہ ہی ایسا ہو ا کہ گوشت میں سے ہڈی نکل آئی اور مجھے کچرے والا ڈرم نظر نہیں آیا۔ ‘‘

الو میاں سوچ  رہے تھے کہ ان کی لڑائی کیسے ختم کروائیں۔ اچانک بھالو میاں کی آواز آئی۔ مچھلیوں کی آوازیں سن کر وہ بھی اپنے گھر سے نکل آئے تھے۔

’’ہاں تو ڈرم ڈھونڈنا چاہیے تھا ناں۔ بھئی اب یہ چھلکوں والا الزام مجھ پر کوئی نہ لگائے ۔ وہ تو بس بندر میرا دوست آیا ہوا تھا تو اس کے ساتھ مل کر میں نے پانچ چھ چھلکے پھینک دیے تھے۔ وگرنہ یہ ٹہنیاں تو میں نے کبھی نہیں پھینکیں۔ یہ  تو زرافے کا کام لگتا ہے۔ اسی کی گردن اتنی اونچی ہے کہ وہ یہ سب ٹہنیاں توڑ سکتا ہے۔‘‘

زرافہ جو ویسے ہی وہاں سے گزر رہا تھا، اپنا نام سن کر رک گیا۔

’’اچھا میاں! اب میں کہاں سے آ گیا اس لڑائی جھگڑے میں۔ میں نے تو بس ایک بار ہی ٹہنیاں جھیل میں ڈالی تھیں۔ افوہ! کیا یاد دلا دیا بھئی۔ کتنے بدمزہ پتے تھے تمھارے درختوں کے۔ میں تو دوبارہ یہاں سے کھانا نہیں کھاؤں گا۔‘‘

یہ کہہ کر زرافہ جلدی سے جانے لگا تو الوّ میاں نے اسے آواز دی۔

’’نہیں نہیں! زرافے بھائی! ابھی آپ نہیں جا سکتے۔ اور ہاں ذرا بندر کو نیچے اتاریں جو کیلے کے پتوں مین چھپ کر ہماری باتیں سن رہا ہے۔‘‘

الومیاں نے کہا تو سب نے اوپر دیکھا۔ واقعی بندر کی دم نظر سبز پتوں کے بیچ میں سے نیچے لٹکی ہوئی تھی۔ زرافے نے اسے اپنی گردن بٹھا کر نیچے اتار لیا۔

پھر الو میاں سب جانوروں اور پرندوں کو جھیل کے پاس لے گئے۔ وہاں ریت پر دو مینڈک مردہ پڑے ہوئے تھے۔ ان کے منہ کھلے ہوئے تھے اور ان کے گلے میں ہڈیاں پھنسی ہوئی تھیں۔ ایک کیکڑا الٹا پڑا ہوا تھا۔ شاید وہ بے ہوش تھا ۔ اس کی ٹانگوں کے گرد دھاگے لپٹ گئے تھے جن کی وجہ سے وہ حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ چند مچھلیاں بھی ایک طرف مردہ پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے حلق میں ٹہنیاں پھنس گئی تھیں جنہیں وہ اپنا کھانا سمجھ کر نگل گئی تھیں۔

یہ سب دیکھ کر چڑیا، کوا ، بھالو ، بندر اور زرافہ سبھی خاموش رہ گئے۔انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کےایک چھوٹے سے غلط کام نے  جھیل کے رہنے والوں کو اتنا نقصان پہنچا یا ہے۔

مچھلیاں بھی بول بول کر اب خاموشی سے تیر رہی تھیں۔وہ اداس اور بیمار لگتی تھیں۔

اس خاموشی میں الو میاں کی آواز گونجی۔

’’ہو! ہو! ساتھیو! اگر ہم اپنا اپنا کچرا ڈرم میں ڈال دیتے تو آج یہ سب مچھلیاں کیکڑے اور مینڈک زندہ ہوتے۔ یہ ہماری سستی کی وجہ سے چلے گئے ہیں۔ ڈرم تو تھوڑا سا آگے جا کر مالٹے کے درخت کے نیچے پڑا ہوا ہےلیکن آپ نے اپنی سستی کی وجہ سے نہیں دیکھا۔ آپ سب اپنا کچرا یہیں جھیل میں ڈالتے رہے جس سے جھیل کا پانی گندا ہو گیا اور مچھلیاں بیماررہنےلگیں۔ کتنا اچھا ہو کہ آج سے ہم جھیل کو صاف ستھرا رکھیں اور کبھی اس میں کوئی کچرا نہ ڈالیں۔‘‘

الو میاں نے کہا ۔خاموش کھڑے جانوروں اور پرندوں سے زور زور سے ہاں میں سر ہلایا۔ پھر چڑیا آگے بڑھی اور جھیل میں تیرتے  تنکے اپنی چونچ سے اٹھا نے لگی۔ یہ دیکھ کر زرافے نے آگے بڑھ کر گردن جھکائی اور چھوٹے چھوٹے کنکر منہ میں پکڑ لیے۔ کوے نے ہڈیاں اٹھائیں اور بندر اور بھالو نے چھلکے۔ پھر سب نے سارا کا سارا کچرا  ڈرم میں لے جا کر پھینک دیا۔

مچھلیاں اب تیز تیز یہاں وہاں تیر رہی تھیں۔ وہ اپنے رہنے کی جگہ کو صاف ستھرا دیکھ کر بہت خوش تھیں۔

میرے پیارے بچو! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہر سال ایک ملین مچھلیاں اور دوسرے سمندری جانور اس کچرے کی وجہ سے مر جاتے ہیں جو ہم جھیلوں ، نہروں اور دریاؤں میں پھینکتے ہیں۔ یہ جانور کبھی زندہ تھے، ہنستے مسکراتے  اور کھیلتے تھے۔  یہ مر گئے کیونکہ جب ہم پکنک منانے گئے تو ہم نے پلاسٹک کی بوتلیں ، چپس کے ریپرز اور دیگر بہت ساری چیزیں جھیل کے پانی  میں پھینک دیں۔ میرے بچو! اب ایسا نہ کیجیے گا۔ کتنا اچھا ہو کہ اب جب ہم نہر کی سیر کو جائیں تو سارا کچرا اپنے ساتھ لائے ہوئے بڑے  سے سیاہ شاپر میں ڈال دیں ۔ پھر یہ شاپر راستے میں کچرے کے ڈرم میں پھینک دیں۔ارے! کیا میں نے آپ کو بتایا ہے کہ مچھلیاں تھینک یو بھی بولتی ہیں؟ جی ہاں! آئندہ جب جھیل کنارے جائیں تو کان لگا کر ضرور سنیے گا!