مچھلیوں کی بات سنو


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ایسے جنگل کی جو جھیل کے کنارے واقع تھا۔ جھیل کے کنارے بہت سارے درخت تھے جن پر پرندوں کے گھونسلے بنے ہوئے تھے۔ایک دن چڑیا نے اپنا گھونسلہ صاف ستھرا کیا اور فالتو تنکے اور دھاگے پھینکنے کے لیے درخت کے نیچے دیکھا۔ وہاں ڈسٹ بن نہیں پڑی ہوئی تھی۔ چڑیانے سوچا۔

’’یہ کچرا پھینکے والی ٹوکری کہاں گئی؟ اچھا چلو جھیل میں ڈال دیتی ہوں یہ تنکے۔ کسی کو کیا پتہ لگے گا۔‘‘

یہ سوچ کر چڑیا نے سارے تنکے اور دھاگے جھیل میں پھینک دیے  اور اپنے گھر واپس آگئی۔

دوپہر ہوئی تو کوے میاں واپس اپنے گھر آگئے ۔ ان کی چونچ میں گوشت کا ٹکڑا تھا۔

’’آہا! آج تو زبردست سا لنچ کریں گے۔ اٹھ جاؤ بچو! یہ دیکھو میں کیا لایاہوں۔‘‘ کوے نے اپنے تینوں بچوں کو اٹھایا اور انہیں کھانا کھلایا۔ گوشت کے ٹکڑے میں سے چند ہڈیاں بھی نکلیں جنہیں کوے اور اس کے بچوں نے اچھال اچھال کر جھیل میں پھینک دیا۔

کچھ دنوں بعد ایک چھوٹا سا بندر اپنے دوست بھالو سے ملنے جھیل کے کنارے آیا۔

’’اور سناؤ بھالو میاں! کیا کر رہے ہو؟‘‘ بندر نے پوچھا۔

بھالو میاں درخت پر چڑھے ہوئے شہد اتار رہے تھے۔

’’ایک منٹ! میں نیچے آتا ہوں۔‘‘

تھوڑی دیر بعد بھالو میاں نیچے آئے تو ان کے ہاتھوں میں کیلے کے بڑے بڑے پتے تھےجن پر تازہ شہد رکھا ہوا تھا۔

’’یہ لو! میٹھا اور مزیدار شہد۔ مجھے معلوم تھا تم آج آؤ گے اسی لیے میں صبح سے یہ شہد اتار رہا تھا۔ ‘‘

’’واہ ! بہت شکریہ بھالو میاں!‘‘

بندر نے- خوش ہو کر کہا اور پتوں سے شہد چاٹ کر پتے نیچے گھاس پر پھینک دیے۔ تیز ہوا چل رہی تھی ۔ کچھ دیر بعد وہ سب پتے جھیل ہوا سے اڑ کر جھیل کے اندر گرچکے تھے۔ پھر ان دونوں نے کیلے کھائے۔ اچانک بندر کو خیال آیا۔

’’بھالو میاں! کیا تم یہ سب چھلکے کہاں پھینکو گے؟‘‘

’’امم! ‘‘ بھالو میاں سوچ کر بولے۔

’’پہلے تو ہم سارا کچرا ایک بڑے سے ڈرم میں ڈالتے تھے۔ پھر وہ ڈرم پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔ اچھا چھوڑو!‘‘

یہ کہہ کر بھالو میاں نے چھلکے اٹھائے اور بولے۔

’’یہ چھلکے جھیل میں پھینک دیتے ہیں۔ دیکھنا! بہت مزہ آئے گا۔ ایسے۔۔ کر کے اچھال کر  پھینکتے ہیں۔‘‘


بھالو میاں نے ایک ہاتھ سے چھلکے ہوا میں اچھالے پھر انہیں جھیل میں پھینک دیا۔بندر بھی ایسا ہی کرنے لگا۔

اس دن  ایک زرافہ پتے کھانے آیا۔ وہ جھیل کے کنارے اگے ہوئے درختوں کے پاس گیا اور ٹہنیاں توڑنے لگا۔ پہلے تو اس نے ان ٹہنیوں پر لگے ہوئے پتے کھائے پھر یہ ٹہنیاں سب کی سب جھیل میں پھینک دیں۔

بچو! اب تو اکثر جانور جھیل میں کچرا پھینکنے لگے تھے۔ جھیل کا پانی جو پہلے نیلا اور صاف ستھراتھا، اب بہت گندا اور کالا سا لگنے لگا تھا۔  

اگلے دن الو میاں گہری نیند سو رہے تھے۔ اچانک شور سے ان کی آنکھ کھل گئی۔انہوں نےدیکھا جھیل سے کچھ مچھلیاں سر نکال کر کہہ رہی تھیں۔

’’ہماری جھیل گندی نہ کرو۔تم سب اپنا اپنا کچرا جھیل میں ڈال دیتے ہو۔ کل ہی دو مچھلیوں کے گلے میں تنکے اور دھاگے پھنس گئے تھے جو چڑیا نے پھینکے تھےاور۔۔۔‘‘

ابھی ایک مچھلی اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ چڑیا بول اٹھی۔

’’چوں چوں چوں! ہاں تو بس چار دھاگے اور تین تنکےہی تو تھے جو میں نے جھیل میں پھینکے تھے۔ ویسے  تمھیں  پتہ ہے!  یہ کوے میاں اکثر ہڈیاں جھیل میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔‘‘

یہ سن کر کوا کیسے چپ رہتا ۔ وہ بھی فوراً بول اٹھا۔

’’کائیں کائیں! کائیں کائیں! یہ کیسی باتیں کر رہی ہو بی چڑیا! میں نے کب ہڈیاں پھینکی ہیں۔ وہ تو بس دو تین دفعہ ہی ایسا ہو ا کہ گوشت میں سے ہڈی نکل آئی اور مجھے کچرے والا ڈرم نظر نہیں آیا۔ ‘‘

الو میاں سوچ  رہے تھے کہ ان کی لڑائی کیسے ختم کروائیں۔ اچانک بھالو میاں کی آواز آئی۔ مچھلیوں کی آوازیں سن کر وہ بھی اپنے گھر سے نکل آئے تھے۔

’’ہاں تو ڈرم ڈھونڈنا چاہیے تھا ناں۔ بھئی اب یہ چھلکوں والا الزام مجھ پر کوئی نہ لگائے ۔ وہ تو بس بندر میرا دوست آیا ہوا تھا تو اس کے ساتھ مل کر میں نے پانچ چھ چھلکے پھینک دیے تھے۔ وگرنہ یہ ٹہنیاں تو میں نے کبھی نہیں پھینکیں۔ یہ  تو زرافے کا کام لگتا ہے۔ اسی کی گردن اتنی اونچی ہے کہ وہ یہ سب ٹہنیاں توڑ سکتا ہے۔‘‘

زرافہ جو ویسے ہی وہاں سے گزر رہا تھا، اپنا نام سن کر رک گیا۔

’’اچھا میاں! اب میں کہاں سے آ گیا اس لڑائی جھگڑے میں۔ میں نے تو بس ایک بار ہی ٹہنیاں جھیل میں ڈالی تھیں۔ افوہ! کیا یاد دلا دیا بھئی۔ کتنے بدمزہ پتے تھے تمھارے درختوں کے۔ میں تو دوبارہ یہاں سے کھانا نہیں کھاؤں گا۔‘‘

یہ کہہ کر زرافہ جلدی سے جانے لگا تو الوّ میاں نے اسے آواز دی۔

’’نہیں نہیں! زرافے بھائی! ابھی آپ نہیں جا سکتے۔ اور ہاں ذرا بندر کو نیچے اتاریں جو کیلے کے پتوں مین چھپ کر ہماری باتیں سن رہا ہے۔‘‘

الومیاں نے کہا تو سب نے اوپر دیکھا۔ واقعی بندر کی دم نظر سبز پتوں کے بیچ میں سے نیچے لٹکی ہوئی تھی۔ زرافے نے اسے اپنی گردن بٹھا کر نیچے اتار لیا۔

پھر الو میاں سب جانوروں اور پرندوں کو جھیل کے پاس لے گئے۔ وہاں ریت پر دو مینڈک مردہ پڑے ہوئے تھے۔ ان کے منہ کھلے ہوئے تھے اور ان کے گلے میں ہڈیاں پھنسی ہوئی تھیں۔ ایک کیکڑا الٹا پڑا ہوا تھا۔ شاید وہ بے ہوش تھا ۔ اس کی ٹانگوں کے گرد دھاگے لپٹ گئے تھے جن کی وجہ سے وہ حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ چند مچھلیاں بھی ایک طرف مردہ پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے حلق میں ٹہنیاں پھنس گئی تھیں جنہیں وہ اپنا کھانا سمجھ کر نگل گئی تھیں۔

یہ سب دیکھ کر چڑیا، کوا ، بھالو ، بندر اور زرافہ سبھی خاموش رہ گئے۔انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کےایک چھوٹے سے غلط کام نے  جھیل کے رہنے والوں کو اتنا نقصان پہنچا یا ہے۔

مچھلیاں بھی بول بول کر اب خاموشی سے تیر رہی تھیں۔وہ اداس اور بیمار لگتی تھیں۔

اس خاموشی میں الو میاں کی آواز گونجی۔

’’ہو! ہو! ساتھیو! اگر ہم اپنا اپنا کچرا ڈرم میں ڈال دیتے تو آج یہ سب مچھلیاں کیکڑے اور مینڈک زندہ ہوتے۔ یہ ہماری سستی کی وجہ سے چلے گئے ہیں۔ ڈرم تو تھوڑا سا آگے جا کر مالٹے کے درخت کے نیچے پڑا ہوا ہےلیکن آپ نے اپنی سستی کی وجہ سے نہیں دیکھا۔ آپ سب اپنا کچرا یہیں جھیل میں ڈالتے رہے جس سے جھیل کا پانی گندا ہو گیا اور مچھلیاں بیماررہنےلگیں۔ کتنا اچھا ہو کہ آج سے ہم جھیل کو صاف ستھرا رکھیں اور کبھی اس میں کوئی کچرا نہ ڈالیں۔‘‘

الو میاں نے کہا ۔خاموش کھڑے جانوروں اور پرندوں سے زور زور سے ہاں میں سر ہلایا۔ پھر چڑیا آگے بڑھی اور جھیل میں تیرتے  تنکے اپنی چونچ سے اٹھا نے لگی۔ یہ دیکھ کر زرافے نے آگے بڑھ کر گردن جھکائی اور چھوٹے چھوٹے کنکر منہ میں پکڑ لیے۔ کوے نے ہڈیاں اٹھائیں اور بندر اور بھالو نے چھلکے۔ پھر سب نے سارا کا سارا کچرا  ڈرم میں لے جا کر پھینک دیا۔

مچھلیاں اب تیز تیز یہاں وہاں تیر رہی تھیں۔ وہ اپنے رہنے کی جگہ کو صاف ستھرا دیکھ کر بہت خوش تھیں۔

میرے پیارے بچو! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہر سال ایک ملین مچھلیاں اور دوسرے سمندری جانور اس کچرے کی وجہ سے مر جاتے ہیں جو ہم جھیلوں ، نہروں اور دریاؤں میں پھینکتے ہیں۔ یہ جانور کبھی زندہ تھے، ہنستے مسکراتے  اور کھیلتے تھے۔  یہ مر گئے کیونکہ جب ہم پکنک منانے گئے تو ہم نے پلاسٹک کی بوتلیں ، چپس کے ریپرز اور دیگر بہت ساری چیزیں جھیل کے پانی  میں پھینک دیں۔ میرے بچو! اب ایسا نہ کیجیے گا۔ کتنا اچھا ہو کہ اب جب ہم نہر کی سیر کو جائیں تو سارا کچرا اپنے ساتھ لائے ہوئے بڑے  سے سیاہ شاپر میں ڈال دیں ۔ پھر یہ شاپر راستے میں کچرے کے ڈرم میں پھینک دیں۔ارے! کیا میں نے آپ کو بتایا ہے کہ مچھلیاں تھینک یو بھی بولتی ہیں؟ جی ہاں! آئندہ جب جھیل کنارے جائیں تو کان لگا کر ضرور سنیے گا!