تم اچھے پڑوسی ہو


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک طوطے ٹیں ٹیں کی جو سٹرابری کے درخت پر رہتا تھا۔ ایک دن جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا۔ اس کے ساتھ والے گھونسلے میں ایک نیا طوطا آچکا تھا۔ اس کا نام ٹِن ٹِن تھا۔ ٹِن ٹِن اپنا سامان سیٹ کرنے میں مصروف تھا۔ ٹیں ٹیں کچھ دیر تو اسے دیکھتا رہا پھر دوبارہ سو گیا۔

تھوڑی دیر بعد اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔

’’ٹھک ٹھک ٹھک!‘‘

ٹیں ٹیں کی آنکھ دوبارہ کھل گئی۔ اس نے منہ بنایا اور دروازہ کھول دیا۔

’’پیارے بھائی! میں آپ کا نیا پڑوسی ٹِن ٹِن ہوں۔‘‘


’’تو؟ میں کیا کروں؟‘‘ ٹیں ٹیں نے منہ بنا کر جواب دیا۔ وہ چاہتا تھا ٹِن ٹِن جلدی سے واپس چلا جائے ۔

’’بس میں ملنے آیا تھا اور یہ کہنے آیا تھا کہ کیا آپ میرے سامان کا خیال رکھیں گے جو نیچے والی ٹہنی پر رکھا ہے۔ میں ذرا ناشتہ لینے جا رہا ہوں۔‘‘ ٹِن ٹِن نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

’’امم! میں تو سو رہا تھا کہ تم آ گئے۔اب۔۔‘‘ ٹیں ٹیں نے ایک پنجہ اٹھا کر کہنا  چاہا لیکن ٹِن ٹِن فوراً بول پڑا۔

’’اوہ! کیا تم اتنی دیر تک سوتے ہو۔ ۔اچھا چلو کوئی بات نہیں۔ میں چڑیا آپا سے کہہ دیتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ اڑ کر نیچے والی ٹہنی پر چلا گیا۔

ٹیں ٹیں نے دروازہ بند کیا اور کمرے میں چلا آیا۔

’’ہونہہ! میں کیوں اس کے سامان کا خیال رکھوں۔بھلا میرے پاس کوئی فالتو وقت ہے۔‘‘

اس نے سوچا۔ اب اس کی نیند تو اڑ چکی تھی۔ سو وہ ناشتہ کرنے کے لیے باہر نکلا اور ساتھ والے گاؤں چلا گیا۔ وہاں ایک کسان ہر روز طوطوں کے لیے مزیدار دانے بکھیرتا تھا۔ ٹیں ٹیں روز وہیں سے ناشتہ کرتا ، رات کے کھانے کے لیے بھی کچھ دانےچونچ میں دبا تا اور گھر واپس آجاتا۔

اس روز بھی ٹیں ٹیں نے ناشتہ کیا اور گندم کے کچھ دانے چونچ میں دبا کر گھر لے آیا۔ ساتھ والے گھونسلے سے سامان رکھنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ٹیں ٹیں کو غصہ آگیا۔ وہ باہر نکلا اور چلّا کر بولا۔

’’اف! کیا شور مچا رکھا ہے تم نے۔ توبہ میرے سر میں درد ہو گئی صبح سے یہ ٹھکا ٹھک سن سن کر۔‘‘

ٹِن ٹِن یہ سن کر جلدی سے باہر آیا اور کہنے لگا۔

’’میں معافی چاہتا ہوں  بھائی جان! دراصل میری آرام کرسی اوپر لاتے وقت ٹوٹ گئی تھی۔ میں اسی کو ٹھیک کر رہا تھا۔ ‘‘

’’تو آہستہ ہتھوڑی چلاؤ ناں۔ ‘‘ ٹیں ٹیں نے منہ بنا کر کہا اور اپنے گھر کے اندر چلا گیا۔

ٹِن ٹِن اداس سا ہو گیا۔ وہ چاہتا تھا کہ ٹیں ٹیں سے دوستی کرے لیکن ٹیں ٹیں تو بہت چڑچڑا اور غصے والا طوطا تھا۔

اگلے بہت سارے دنوں میں ٹِن ٹِن کو پتہ چل گیا کہ ٹیں ٹیں نے اس کے یہاں آنے کو بالکل پسند نہیں کیا۔ ٹِن ٹِن کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔

خیر! ایک رات ٹِن ٹِن کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی لیکن اس پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ ٹِن ٹِن کے بچے بار بار  کھانا مانگتے ۔ ٹِن ٹِن اندھیرے میں کہیں جانے کو تیار نہیں تھا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر وہ بچوں کو اکیلا چھوڑ گیا تو کوئی سانپ آکر انہیں کھانہ جائے۔

بہت سوچنے کے بعد اس نے ٹیں ٹیں کے دروازے پر ہلکی دستک دی۔

’’ٹھک ٹھک!!‘‘

’’کون ہے ! وہ بھی رات کے اس وقت۔ یہ پڑوسی مجھے ذرا آرام نہیں کرنے دیتے۔ ‘‘ ٹیں ٹیں کی غصے سے بھری آواز آئی۔ پھر ایک جھٹکے سے دروازہ کھل گیا۔

’’تم!اب تمھیں کیا چاہیے؟ پچھلے دنوں بھی تم نے مجھ سے چینی مانگی تھی۔ ابھی تک واپس نہیں کی۔ ‘‘

ٹِن ٹِن کو بھی غصہ آگیا۔

’’ہاں تو میں نے تمھیں مزیدار حلوہ بھی تو بھیجا تھا۔ اور اس روز باجرے کے دانے بھی۔تم نے مجھے شکریہ بھی نہیں کہا۔ ‘‘

’’تو میں کیا کروں۔ میں نے تو تمھیں نہیں کہا تھا بھیجنے کو۔ اب تم مجھے کیوں تنگ کرنے آگئے ہو۔جاؤ یہاں سے۔‘‘ ٹیں ٹیں نے چیختے ہوئے کہا۔پھر وہ اندر آکر رات کا کھانا کھانے لگا۔ وہ تیز تیز چاول کھا رہا تھا۔اسے ابھی تک غصہ آیا ہوا تھا۔

’’ٹیں! ٹیں! تم بہت برے پڑوسی ہو۔‘‘ باہر کھڑے ٹِن ٹِن کے منہ سے نکلا۔ وہ بہت اداس تھا۔ پھر وہ چڑیا آپا کے گھر چلا گیا۔ وہ جانتا تھا ان کے لائے ہوئے چھوٹے چھوٹے سے دانے اس کے بچوں کے لیے کافی نہیں ہوں گے لیکن وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔

اگلی صبح ٹیں ٹیں ناشتہ کرنے کسان والے گاؤں میں پہنچا۔ آج اسے دانوں کا رنگ کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔

’’شاید میری نیند پوری نہیں ہوئی اس لیے مجھے ایسا لگ رہا ہے۔‘‘ اس نے اپنے آپ کو تسلی دی  اور دانے کھانے کے لیے زمین پر آ بیٹھا۔

تھوڑی دیر بعد جب اس نے اڑنے کے لیے پر ہلائے تو یہ کیا! اس کے پنجے زمین پر بچھے ہوئے جال میں پھنس گئے تھے اور اب وہ اڑ نہیں سکتا تھا۔

’’ٹیں ں ں! ٹیں ں ں!!ٹیں ں ں!‘‘ ٹیں ٹیں نے خوب زور زور سے آوازیں نکالیں ۔یہ آوازیں سن کر کسان وہاں آپہنچا اور کہنے لگا۔

’’اتنے دنوں سے میں تمھیں دانے کھلا رہاہوں۔ آج تم قابو میں آہی گئے۔ چلو میرے ساتھ شہر !  میں وہاں تمھیں بیچوں گا اور تمھارے بدلے بڑے رقم حاصل کروں گا۔‘‘

اتنا کہہ کر کسان آگے بڑھا اور اس نے ٹیں ٹیں کو اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ اچانک اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔

’’آہ! آہ! یہ کیا! ‘‘

ٹیں ٹیں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ کسا ن کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا۔ یہ ٹِن ٹِن تھا جس نے کسان کے ہاتھ پر کاٹ ڈالا تھا۔ کسان آ ہ آہ کرتا ہوا اپنے گھر کے اندر چلا گیا۔ اب ٹِن ٹِن نے میلو کو اشارہ کیا۔ میلو چوہا ٹِن ٹِن کا گہر ا دوست تھا ۔ وہ وہیں کھیتوں میں رہتا تھا۔ ٹِن ٹِن، ٹیں ٹیں کو جال میں پھنسا دیکھ کر جلدی سے  میلو چوہے کو بلالایا تھا۔

جب تک کسان زخمی ہاتھ پر مرہم پٹی کرکے واپس آتا، میلو چوہے نے ٹیں ٹیں کے اردگرد جال  اپنے تیز دانتوں سے کاٹ دیا تھا۔ اب ٹیں ٹیں آزاد تھا۔ اس نے پر پھڑپھڑائے اور تیزی سے اوپر اڑ گیا۔ وہ میلو چوہے کو شکریہ کہنا چاہتا تھا لیکن وہ جانتا تھا اسے پہلے کس کو شکریہ کہنا چاہیے۔

اس رات ٹیں ٹیں پہلی بار ٹِن ٹِن کے گھر گیا۔ وہ خالی ہاتھ نہیں آیا تھا۔ اس کے پروں پر میٹھی گولیوں والے دو شاپر لٹکے ہوئے تھے جو وہ ٹِن ٹِن کے بچوں کے لیے لایا تھا۔

’’مجھے معاف کر دو ٹِن ٹِن!‘‘ ٹیں ٹیں نے دونوں شاپر اتار کر نیچے رکھے اور ٹِن ٹِن کے پاس آکر  کہنے لگا۔

’’میں مانتا ہوں میں بہت برا پڑوسی ہوں۔ لیکن تم بہت اچھے پڑوسی ہو ٹِن ٹِن! بہت اچھے! تمھار ا بہت بہت شکریہ! اگر تم آج مجھے نہ بچاتے توکسان مجھے پنجرے میں بند کر دیتااور۔۔‘‘ اتنا کہہ کر ہی  ٹیں ٹیں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

’’اچھا چلو کوئی بات نہیں! میری تم سے دوستی ہو گئی ہے۔ اور کیا چاہیے!‘‘

’’ٹیں ٹیں  انکل! زندہ باد!‘‘ اچانک یہ آواز آئی تو ٹِن ٹِن اور ٹیں ٹیں دونوں نے مڑ کر دیکھا۔ ٹِن ٹِن کے بچے میٹھی گولیاں پنجوں میں دبائے کھڑے تھے اور زور زور سے ’’ٹیں ٹیں  انکل! زندہ باد!‘‘  نعرہ لگا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر ٹیں ٹیں ہنسنے لگا   اور وہ بہت دنوں بعد یوں دل سے ہنسا تھا!

بچو! ٹیں ٹیں تو اب بہت اچھا پڑوسی بن گیا ہے۔ ٹِن ٹِن چونکہ جنگل میں نیا ہے، اس لیےٹیں ٹیں نے اسے ہر چھوٹے بڑے جانور سے ملایا ہے۔ جب بھی ٹِن ٹِن کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے ٹیں ٹیں فوراً اس کی مدد کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے لیے کوئی بہت اچھی کھانے کی چیز لائے تو ٹِن ٹِن اور اس کے بچوں کے لیے بھی ضرور لاتا ہے۔ اگر آپ کو سٹرابری کے درخت پر دو گہرے سبز رنگ کے طوطے ساتھ ساتھ بیٹھے نظر آئیں تو آپ سمجھ جائیں یہی ٹیں ٹیں اور ٹِن ٹِن ہیں!

میرے پیارے بچو! اپنے پڑوسی کا بہت خیال رکھیں۔ کسی مشکل میں اس کی مدد کریں۔ اسے اچھے اچھے تحفے بھیجیں اور کبھی اسے تکلیف نہ دیں۔ اگر پڑوسی بیمار ہو تو اس کا حال ضرور پوچھنے جائیں اور اس کی دوا اور کھانے پینے کا بھی خیال رکھیں۔ پیارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو بھی یہ چاہتا ہے کہ اللہ پاک اور رسول اللہ ﷺ اس سے پیار کریں، تو وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرے۔ میں تو کہتی ہوں کہ اگر آپ نے کئی ماہ سے اپنے پڑوسی کو کوئی تحفہ نہیں دیا تو دیر کس بات کی! ابھی جائیں اور خوبصورت سا تحفہ پیک کر کے ان کے گھر دے آئیں! ان کا حال بھی پوچھ لیں اور ڈھیر ساری باتیں بھی کر لیں! کیا خیال ہے!