کنگو کینگرو اور امی جان

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے منے سے کینگرو کی جس کا نام کنگو تھا۔  کنگو اپنی امی جان کے ساتھ ایک ایسے جنگل میں رہتا تھا جہاں درخت کچھ زیادہ گھنے نہیں تھے اورسورج کی روشنی سیدھی زمین پر پڑتی تھی ۔ ایک دن جب کنگو کی امی سو کر اٹھیں تو انہوں نے دیکھا۔ کنگو اپنے بستر پر نہیں تھا۔ وہ حیران رہ گئیں۔ کنگو ہمیشہ ان کے ساتھ سوتا تھا اور ان کے ساتھ ہی اٹھتا تھا۔

 پھر آج کیا ہوا؟ کینگرو امی یہی سوچتے ہوئے  اسے پورے گھر میں ڈھونڈنے لگیں۔ انہوں نےسیڑھیوں کے نیچے بھی دیکھ لیا جہاں کنگو اکثر چھپ جایا کرتا تھا،  لیکن کنگو وہاں بھی نہیں تھا۔

’’کنگو ! کنگو! کہاں ہو تم؟‘‘

وہ پریشانی سے آوازیں دیتی ہوئی باہر آئیں تو حیران رہ گئیں۔ کنگو دروازے کی سیڑھیوں پر سر جھکائے اداس بیٹھا تھا۔


’’میرے پیارے بیٹے! تم کہاں چلے گئے تھے؟ کیا تم ٹھیک ہو؟‘‘ کینگرو امی نے اسے گود میں اٹھا لیا اور پیار کرتے ہوئے کہا۔

’’امی جان!آپ اچھی امی نہیں ہیں۔‘‘ کنگو نے ناراضی سے کہا اور اچھل کر امی کی گود سے اتر گیا۔ ’’ آپ مجھے ان کینگروز کے ساتھ کھیلنے نہیں دیتیں نہ  ہی مجھے اونچی اونچی چھلانگیں لگانے دیتی  ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر کنگو نے دور کھیلتے ہوئے کینگرو ز کی طرف اشارہ کیا ۔

کینگرو امی نے بھی اس طرف دیکھا۔ وہ بڑے کینگرو تھے جو ٹیلوں کے  اوپر سے چھلانگیں لگا رہے تھے ۔

’’لیکن وہ بڑے ہیں بیٹا! آپ تو ابھی بہت چھوٹے ہو۔‘‘ کینگرو امی نے سمجھایا۔

’’نہیں! بالکل نہیں! میں چھوٹا نہیں ہوں۔ یہ دیکھیں! میں اتنا...بڑا ہو گیا ہوں۔‘‘  کنگو نے اپنے پنجے پر کھڑے ہو کر امی جان کو دکھایا۔ ’’اور میں اتنی اونچی چھلانگ بھی لگا سکتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک چھلانگ بھی لگائی۔

’’امی جان! میں جا رہا ہوں۔ بس! میں آپ سے ناراض ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر کنگو گھر سے دور چلا گیا۔ کینگرو امی اسے جاتا ہو ا دیکھتی رہیں۔ وہ بہت اداس ہو گئی تھیں۔

بچو!ہمارا ننھا کنگو جب بڑے کینگروز کے پاس پہنچا تو وہ پہلےتو حیران ہوئے۔

’’بھائی جان! میں آپ کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں۔‘‘ جب کنگو نے یہ کہا تو وہ  ہنسنے لگے۔  ایک موٹے کینگرو نے اپنے پیٹ پر کھجلی کرتے ہوئے کہا۔

’’لیکن تم بہت چھوٹے ہو۔ جاؤ اور اپنے امی کے ساتھ جا کرکھیلو۔‘‘

’’لیکن میری امی اچھی نہیں ہیں۔ وہ مجھے  خود سے چھلانگیں لگانا نہیں سکھاتیں اور نہ ہی خود سے پتے کھانے دیتی ہیں۔وہ مجھے کہیں بھی اکیلے آنے جانے نہیں دیتیں۔‘‘

ایک سانولا سا کینگرو جس کا نام نیرو تھا، کنگو کی بات غور سے سنتا رہا۔

’’اچھا! یہ بات ہے۔ تو ٹھیک ہے! تم آج ہمارے ساتھ کھیلو۔ ‘‘ یہ کہہ کر نیرو نے اسے اٹھا کر ٹیلے پر بٹھا دیا۔

’’دیکھو! ہم یہاں سے چھلانگ لگائیں گے۔ تم نے بھی ایسے ہی چھلانگ لگانی ہے۔۔ جیسے ہی ہم ایک دو تین کہیں۔‘‘

کنگو نے سر ہلا دیا۔ وہ بہت خوش تھا۔

 ’’ تین ن ن !!‘‘

نیرو کی آواز آئی اور سب کینگروز نے چھلانگیں لگا دیں۔ ایک دو کینگرو تو ننھے کنگو کے سر پر سے گزرگئے اور ٹیلے کی دوسری جانب جا کر رکے۔ کنگو نے ادھر ادھر دیکھا تاکہ وہ کسی کا ہاتھ پکڑ کا چھلانگ لگا سکے۔

اس کی امی جان تو اسے ہاتھ پکڑ کر چھلانگ لگواتی تھیں تاکہ وہ گر نہ جائے۔ آخر کنگو چھلانگ لگا  ہی دی۔ لیکن یہ کیا! دوسرے کینگروز کی طرح وہ اچھل نہیں سکا بلکہ لڑھکتا ہوا دور جا گرا۔

’’آہ! آہ ! اوہ!‘‘ کنگو کے منہ سے اتنا ہی نکلا تھا کہ نیرو کی آواز آئی۔

’’چلو چلو ننھے کنگو! پتے کھانے چلیں۔لگتا ہے تمھیں بہت بھوک لگی ہے۔‘‘

’’ہاں!‘‘ کنگو نے کہا۔ اسے یاد آگیا تھا کہ آج اس نے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا۔ کچھ دیر کے لیے اسے امی جان بھی یاد آئیں لیکن جب وہ سبز اور سرخ جھاڑیوں کے پاس پہنچے تو وہ سب کچھ بھول گیا۔ نیرو اور دوسرے کینگروز نے ایک جھٹکے کے ساتھ جھاڑیاں توڑیں اور ان کے پتے کھانے لگے۔

’’کچر کچر کچر! واہ واہ بہت تازہ ہیں۔‘‘ نیرو نے کہا۔ اس کا منہ پتوں سے بھرا ہوا تھا۔

’’بھائی جان! کیا آپ اس جھاڑی پر سے یہ نوکیلے کانٹے الگ کر دیں گے؟ یہ مجھے چبھ رہے ہیں۔‘‘ کنگو نے ایک جھاڑی اٹھا کر نیرو کے سامنے رکھی۔

’’دیکھو! یہ ایسے الگ کرتے ہیں۔ یوں ۔۔ اپنا ناخن جھاڑی پر پھیرو اور کانٹے الگ !!‘‘ نیرو نے اپنا بڑا سا ناخن جھاڑیوں پر پھیرا۔ کانٹے نیچے گرنے لگے۔

’’آں ہاں!! لیکن میرے ناخن تو چھوٹے ۔۔۔‘‘ کنگو نے کہنے کی کوشش کی لیکن نیرو نے اس کی پوری بات نہیں سنی اورچھلانگیں لگاتا ہوا دور چلا گیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے سب کینگروز نے بہت اونچی اونچی چھلانگیں لگائیں اور درختوں کے اس پار گم ہو گئے۔ کنگو جو ابھی تک کچھ کھانے کی کوشش کر رہا تھا، اکیلا کھڑا رہ گیا۔

’’ہاں! تو کیا ہوا۔میں اکیلا بھی کھیل سکتا ہوں۔ ‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ شام ہونے لگی تھی اور درختوں پر سے الووں کی تیز تیز آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں۔

’’ہو ہو ہو! ہو ہو ہو!‘‘

کنگو ادھر ادھر دیکھتا ہوا آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ اپنے گھر کا راستہ بھول چکا ہے۔ نیرو اور اس کے دوست بھی نظر نہیں آرہے تھے۔

اچانک ایک طرف سے آواز آئی۔

’’شش! شش!‘‘

کنگو کو تھوڑا ڈر لگنے لگا۔

’’کون ہے ! کون ہے وہاں!‘‘ اس نے اونچی آواز میں پوچھا۔

کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد پھر وہی آواز آنے لگی۔

’’شش! شش! ‘‘

کنگو کو خیال آیا۔

’’ امی کہتی ہیں تکونی دم والے عقاب جیسے ہی کینگرو کو اکیلا دیکھتے ہیں ، شکا ر کر لیتے ہیں۔ کیا پتہ یہ کوئی عقاب ہو۔‘‘

یہ سوچ کر اس نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔ رات ہو گئی تھی اور چاند کی چاندنی سیدھی زمین پر پڑ رہی تھی۔

’’شش! شش! ‘‘

اب کی بار آواز بہت قریب سے آئی تھی ۔ کنگو چلتے چلتے رک گیا۔

’’شاید یہ کسی جنگلی لومڑی کی آواز ہو جو مجھے کھانے کے لیے میرے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔‘‘

یہ سوچنا ہی تھا کہ کنگو کو ڈر کے مارے رونا آگیا۔ اسے امی جان یاد آئیں جو اسے ہمیشہ اپنی گود میں رکھتی تھیں تاکہ کوئی خطرناک جانور اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔

’’امی ! امی ! آپ کہاں ہیں؟‘‘ کنگو روتے ہوئے سوچ رہا تھا۔

’’آؤ! تمھیں گھر چھوڑ آؤں۔‘‘ اب نیرو سامنے آگیا تھا۔ یہ نیرو کینگرو ہی تھا جو کنگو کے ساتھ ساتھ لیکن جھاڑیوں کے پیچھے چھپ کر چل رہا تھا۔

شش شش کی آواز اس کے  قدموں کی تھی ۔

’’بھائی جان! مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ شکر ہے آپ آگئے۔‘‘  کنگو یہ کہتے ہوئے جلدی سے نیرو کی کمر پر سوار ہو گیا۔

نیرو مسکرایا ۔ پھر اس نے دوڑ لگا ئی اتنی تیز کہ کنگو کے گھر پہنچ کر ہی رکا۔

’’ننھے کینگرو! اپنی امی کے ساتھ رہو۔‘‘ نیرو نے کنگو کو نیچے اتارا اور جھک کر کہنے لگا۔

’’دنیا بہت بڑی ہے۔ اس میں رہنے کے لیے آپ کو  بھی بڑا اور مضبوط ہونا چاہیے۔ ابھی  آپ چھوٹے ہو۔  امی آپ سے بہت پیار کرتی ہیں اور  آپ کا خیال رکھتی ہیں ۔ ان کو ناراض نہیں کرتے۔جاؤ! وہ کب سے تمھارا انتظار کر رہی ہیں۔‘‘

کنگو دوڑتے ہوئے اندر چلا گیا۔ امی جان انگیٹھی کے پاس اداس بیٹھی تھیں۔ جیسے ہی ان کی نظر کنگو پر پڑی، وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئیں اور دونوں بازو پھیلا دیے۔ کنگو بھاگتا ہوا آیا اور ان کی گود میں چڑھ گیا۔ امی نے اسے بہت پیار کیا ۔

’’امی! آپ بہت اچھی  ہیں۔ بہت پیاری ! ‘‘ کنگو نے ننھے بازو امی کی گردن میں ڈال کر کہا ۔ ’’میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔ مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ آپ جو بھی کہتی ہیں میرے فائدے کے لیے کہتی ہیں۔مجھے معاف کر دیں امی!‘‘

کینگرو امی نے کنگو کی پیشانی چومی اور کہنے لگیں۔

’’اچھاچلو! کھانا کھا لو۔ ‘‘ یہ سن کر  کنگو امی سے پہلے ہی دوڑ کر کھانے کی میز پر چلا گیا۔ وہاں کیلوں کا کسٹرڈ اور سیب کا جوس اس کا انتظار کر رہے تھے۔

میرے پیارے بچو!اگر آپ کی امی آپ کو کسی کام سے روکتی ہیں یا کہیں جانےسے منع کرتی ہیں تو میرا یقین کریں، اس میں آپ کا بہت بڑا فائدہ ہے۔ امی کبھی غلط بات نہیں کہتیں۔ وہ ہمیشہ ہماری بھلائی سوچتی ہیں۔ یہ بتائیں! کیا آپ نے کبھی امی  جان کو  بتایا ہے کہ وہ  آپ کو کتنی اچھی لگتی ہیں؟ اگر نہیں تو سنیں! ہر  رات کو جب وہ  آپ کو سلانے  آئیں، آپ ان سے کہیں۔ ’’پیاری امی! آپ مجھے بہہہت زیادہ  اچھی لگتی ہیں۔ میں آپ کا ہمیشہ خیال رکھوں گا اورکبھی آپ کو اداس نہیں ہونے دوں  گا۔‘‘

میری مانیں تو ایسے ہی کہیں ہررات۔۔ جب چاند نکلے اور آپ کی کھڑکی سے جھانکنے  لگےیا جب آپ کو میری یہ کینگرو والی کہانی یاد آجائے!