زو زو کی عینک

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک چھوٹے سے زرافے زوزو، جس کا آج سکول میں پہلا دن تھا۔زوزو کی میڈم سب چھوٹے زرافوں کو گردن اونچی کر کے پتے کھانا سکھانا رہی تھیں۔

’’تھوڑی سی اور!! یوں کرکے۔۔ تھوڑا اور پنجے اٹھا کر۔۔ آپ ہر درخت کے پتے کھا سکتے ہیں۔‘‘ میڈم نے کہا تو زوزو نے سر اٹھا کر درختوں کو دیکھا۔ اسے پتے کچھ صاف نظر نہیں آرہے تھے۔

’’اچھا ! اب آپ باری باری چیری کے درخت کے پاس جائیں اور تین تین پتے کھا کر دکھائیں۔یاد رہے آپ نے صرف سبزرنگ کے پتے کھانے ہیں۔ اگر آپ زرد اور مرجھائے ہوئے پتے کھائیں گے تو آپ بیمار ہو سکتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر میڈم نے پہلے زوزو کو اشارہ کیا۔

زوزو کچھ سوچتا ہوا درخت کے پاس گیا۔ پھر اس نے گردن خوب اونچی کی اور پتے کھانا لگا۔ اچانک پیچھے سے میڈم کی آواز آئی۔

’’ارے ! اوہو! زوزو! تم زرد پتے کھا رہے ہو۔ کیا تمھیں ٹھیک دکھائی نہیں رہا؟ سبز پتے تمھاری دائیں سمت میں ہیں۔ ‘‘

زوزو نے دائیں سمٹ گردن موڑی اور پھر سے پتے کھانے لگا۔ لیکن اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اوپر والے پتے اسے دھندلے نظر آرہے ہیں۔


’’کیا میری آنکھوں میں گرد چلی گئی ہے؟‘‘ اچانک اسے خیال آیا اوراس نے ایک ٹانگ اٹھا کر زور زور سے آنکھیں مسلیں۔

میڈم زوزو کو آنکھیں ملتے دیکھ کر اس کے پاس آگئیں۔

’’کیا بات ہے زوزو بیٹا! ‘‘

’’میڈم! مجھے صحیح نظر نہیں آرہا۔ لگتا ہے ہر چیز دھندلا سی گئی ہے۔‘‘

یہ سن کر زوزو کی میڈم سوچ میں پڑ گئیں۔ پھر انہوں نے زوزو کی ہوم ورک ڈائری میں ایک نوٹ لکھا اور کہا۔

’’زوزو! یہ نوٹ اپنی امی کو ضرور دکھانا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن زوزو کی امی اس کو  سکول بھیجنے کی بجائے آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔

’’زوزو کی نظر تھوڑی سی کمزور ہو گئی ہے۔ لیکن فکر کی بات نہیں۔ یہ عینک روز لگائے گا تو ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘ ڈاکٹر نے ایک سرخ رنگ کی عینک زوزو کو پہناتے ہوئے کہا۔

زوزو کو اپنی عینک بہت اچھی لگی۔ اسے پہن کر زوزو کو سب کچھ صاف صاف نظر آتا تھا۔ چاہے وہ زمین پر چلتی ہوئی  بھورے رنگ کی چیونٹیاں ہوں یا پھر درخت کے سب سے اوپر والے سبز پتے۔

ایک دن زوزو کے دوست  روفی نے کہا۔

’’زوزو! مجھے بھی یہ عینک پہننی ہے۔ پلیز تھوڑی دیر کے لیے  دے دو۔‘‘

’’امم! ‘‘ ز وزو نے کچھ دیر سوچا پھر اپنی عینک اتار کرروفی کو پہنا دی۔ جیسے ہی روفی نے عینک پہنی اس کے منہ سے نکلا۔

’’یہ کیا! مجھے تو کچھ نظر ہی نہیں آرہا۔ زوزو تم یہ کیسے پہنتے ہو؟  اوہ!اچھا ٹھہرو! تھوڑا سا آگے جا کر سورج کو دیکھتا ہوں کہ اس عینک سے وہ  کیسا نظر آتا ہے۔‘‘ یہ کہتے ساتھ ہی روفی نے دو قدم آگے بڑھائے لیکن وہ لڑکھڑا کر گھاس پر گر گیا۔

زوزو کی عینک پاس پڑے  ایک پتھر سے جا ٹکرائی اور اس کے شیشے کرچی کرچی ہو گئے۔

’’یہ کیا! تم نے میری عینک توڑ دی روفی۔‘‘ زوزو  رونے والا ہو گیا تھا۔ ’’اب میں گھر کیسے جاؤں گا۔ مجھے راستہ عینک کے بغیر صاف نظر نہیں آتا۔ ‘‘

خیر اس دن تو زوزو میڈم کا ہاتھ پکڑ کر گھر چلا گیا کیونکہ ان کا گھر بھی اس کےگھر کے ساتھ ہی تھا۔ لیکن امی جان بہت ناراض ہوئیں اور زوزو کو کہنے لگیں۔

’’بیٹا! کبھی کسی کو اپنی عینک نہیں پکڑاتے۔ یہ تو بہت نازک ہوتی ہے۔ اب میں نئی بنوا دیتی ہوں لیکن آپ کو نئی عینک کی بہت حفاظت کرنی ہے۔‘‘

زوزو نے سر ہلا دیا۔وہ اداس تھا۔ عینک کے بغیر وہ آج  کھیلنے والے گراؤنڈ میں نہیں جا سکتا تھا نہ ہی آم کے درخت والی چڑیوں کا نیا گھر دیکھ سکتا تھا۔

آخر دو دون بعد زوزو کی نئی عینک بن کر آگئی۔ یہ بھی سرخ رنگ کی تھی لیکن اس کی کمانیاں سنہری تھیں جو زوزو کے چھوٹے چھوٹے کانوں پر بہت اچھی لگتی تھیں۔

ایک دن  گراؤنڈ میں زوزو نے اپنے دوستوں کے ساتھ ریس لگائی۔

جیسے ہی روفی نے کہا۔

’’ون ٹوتھری! گو!‘‘

زوزو تیز تیز بھاگنے لگا۔ باقی سب ننھے زرافے بھی بھاگ رہے تھے لیکن ہمارا پیارا  زوزو سب سے آگے تھا ۔ اچانک زوزو کو پسینہ آنے لگا اور اس کی عینک ناک پر سے پھسلنے لگی۔ کراسنگ لائن بہت کم رہ گئی تھی۔وہ اول نمبر پر آنے ہی والا تھالیکن اس کی رفتار آہستہ ہو نے لگی۔

اس نے بار بار ناک سکیڑ کر عینک جمانے کی کوشش کی لیکن وہ اور پھسلنے لگی۔پھر اس نے ایک ٹانگ اٹھا کر عینک کو ٹھیک کیا لیکن اس کوشش میں وہ ریس میں بہت پیچھے رہ گیا۔

پھر جیسے ہی زوزو کراسنگ لائن پر پہنچا تو عینک اچانک  پھسل کرگر گئی  اور زوزو  کے منہ سے نکلا۔

’’اوہ اوہ! میری عینک پھر ٹوٹ گئی!‘‘

لیکن عینک گھاس پر گری تھی۔ اس لیے وہ ٹوٹی تو نہیں تھی بس اس کے شیشے کچھ گندے ہو گئے تھے۔ زوزو نے انگلیوں سے عینک کے شیشے صاف کرتے ہوئے سوچا۔

’’شکر ہے عینک نہیں ٹوٹی۔ لیکن میں اول آنا چاہتا تھاتاکہ وہ نیلے رنگ کا بڑا سا کپ مجھے مل جائے۔‘‘   

زوزو اس ریس میں ساتویں نمبر پر آیا تھا ۔ وہ بہت اداس تھا۔

جب وہ گھر پہنچا تواس نے  امی جان کو ساری بات بتائی۔ امی نے اسے پیار کیا اور کہا۔

’’کوئی بات نہیں۔ہار جیت تو ہو جاتی ہے۔ اب تم  کھانا کھاکرسو جاؤ۔ ‘‘

جب زوزو سو گیا تو  امی جان  نے عینک کو چھوٹے سے ڈبے میں ڈالا۔ اتنے میں ان کی نظر اس کے شیشوں پر پڑی ۔ان پر ناخنوں کے نشان نظر آرہے تھے۔ امی جان سمجھ گئیں کہ زوزو نے انہیں اپنے ہاتھوں سے ہی صاف کر لیا ہو گا۔

پھر وہ عینک  کو بندر میاں کی دکان پر لے گئیں۔ بندر میاں نے ململ کے رومال سے شیشے   صاف کیے اور سنہری کمانیوں کے سرے پر ایک  ڈوری باندھ دی۔

بچو! اب زوزو عینک لگاتا ہے تو وہ بالکل بھی نہیں پھسلتی۔ کیونکہ ڈوری کی وجہ سے عینک اس کے کانوں اور ناک پر اچھی طرح بیٹھی ہوتی ہے اور بھاگنے سے پھسلتی بھی نہیں۔ وہ اپنی عینک کا خیال رکھتا ہے۔  اسے معلوم ہے یہ بہت قیمتی اور فائدے کی چیز ہے اور اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔

میرے پیارے بچو! اگر آپ عینک لگاتے ہیں تو مجھے معلوم  ہے آپ بہت پیارے لگتے ہوں گے۔ جی ہاں! بہت پیارے!لیکن میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ عینک اصل میں بہت نازک ہوتی ہے اور بار بار نہیں بن سکتی۔اور اگر یہ ٹوٹ جائے تو آپ اس کے بغیرصحیح دیکھ نہیں پائیں گے۔خدانخواستہ  آپ گر سکتے ہیں یا آپ کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ 

 اس لیے آپ کو اپنی  عینک  کی حفاظت کرنی چاہیے۔عینک کسی دوست کو نہ پکڑائیں۔  میلے کچیلے ہاتھوں سے عینک کو نہ پکڑیں۔ ململ کے رومال سے شیشے صاف کریں تاکہ ان پر نشان نہ پڑیں۔ بھاگتے ہوئے دھیان رکھیں کہ عینک گر نہ جائے۔ 

کیا میں نے آپ کو بتایا ہے کہ  زوزو سونے سے پہلے اپنی عینک ایک چھوٹے سے کیس میں رکھتا ہے تاکہ وہ محفوظ رہے۔ مجھے یقین ہے آپ بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے کیونکہ آپ بہت اچھے بچے ہیں!