قیں قیں کا رومال


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک بطخ کی جو جنگل میں تالاب کے کنارے رہا کرتی تھی۔ اس کا نام قیں قیں تھا اور اس کے پر سفید اور پاؤں نارنجی رنگ کے تھے۔ اس دن قیں قیں نے صبح اٹھ کر منہ ہاتھ دھویا اور سبزی کی ٹوکری اٹھا کر بندر میاں کی دکان کی طرف چل دی۔ دکان پر پہنچ کر اس نے دیکھا۔ بندرمیاں شہد کی بوتلیں بھی لائے ہوئے تھے۔

’’بھائی! یہ شہد بھی مجھے دے دیں۔ کیا یہ تازہ شہد ہے؟‘‘ قیں قیں نے بوتل کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’بالکل! ابھی ابھی بھالو میاں دے کر گئے ہیں۔ یہ لیں!‘‘

یہ کہتے ہوئے بندر میاں نے شہد کی  ایک بوتل قیں قیں کو تھما دی۔ جب قیں قیں نے بوتل اٹھا کر اپنی ٹوکری میں رکھی تو تھوڑا سا شہد اس کے ہاتھ پر بھی لگ گیا ۔ قیں قیں نے فوراً اپنے فراک پر رگڑ کر ہاتھ صاف کیا۔ پھر اس نے سبزی والی ٹوکری اٹھائی اور گھر آگئی۔

دوپہر کو قیں قیں نے سوچا۔ دھوپ اچھی نکلی ہوئی ہے۔ کیوں نہ گھر کی باہر والی دیوار پر رنگ کر لوں۔ یہ سوچ کر اس نے رنگ کا ڈبہ اور برش اٹھایا اور باہر آگئی۔ رنگ کرتے ہوئے کئی بار اس نے اپنے کپڑوں سے ہی ہاتھ  صاف کیے جس کی وجہ سے اس کا فراک اب بے حد گندا لگنے لگا تھا۔


ابھی آدھی دیوار ہی رنگ ہوئی تھی کہ قیں قیں کو بھوک لگنے لگی۔اس نے برش اور رنگ کا ڈبہ سیڑھی کے ساتھ لٹکایا اور کچن میں چلی گئی۔ پھر اس نے چھوٹی سی مچھلی تلی اور کیچپ کے ساتھ کھالی۔ کھانا کھا کر اس نے کیچپ والی انگلیاں فراک سے ہی  رگڑ کر صاف کیں اور باہر چلی آئی۔

 ابھی وہ رنگ مکمل کرکے تھوڑا دور ہٹ کر کھڑی  دیوار کو دیکھ رہی تھی کہ تالاب سےآواز آئی۔

’’ٹر ٹر! ٹر ٹر! کیا مجھے تھوڑی سی ڈبل روٹی مل سکتی ہے؟‘‘ یہ ایک مینڈک تھا۔

’’ہاں کیوں نہیں! ‘‘ یہ کہہ کر قیں قیں اندر گئی  اورفریج سے ڈبل روٹی لا کر مینڈک کو تھما دی۔

’’اف! قیں قیں! تمھارے کپڑوں سے کتنی بدبو آرہی ہے۔‘‘ مینڈک نے  ایک ہاتھ اپنے ناک پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے ڈبل روٹی لیتے ہوئے کہا۔

’’جی نہیں! یہ تو بس میں رنگ کر رہی تھی ۔‘‘ قیں قیں نے کہنے کی کوشش کی لیکن مینڈک اس کی پوری بات سنے بغیر تالاب میں واپس چلا گیا۔

قیں قیں وہیں گھاس پر کھڑی رہ گئی۔ اسے بہت غصہ آرہا تھا۔

’’اب یہ میرے پاس آئے گا تو میں اسے کچھ نہیں دوں گی۔ ‘‘

وہ ابھی یہی سوچ ہی رہی تھی کہ دور سے قیں قیں کی خالہ آتی نظر آئیں۔

’’قیں قیں بیٹا! میں نے سوچا کئی دن ہوئے تم سے ملی نہیں۔بس  اسی لیے۔۔۔‘‘

 خالہ جان بات کرتے کرتے رک گئیں ۔ وہ قیں قیں کو دیکھ کر حیران رہ گئی تھیں۔

’’ارے! یہ تم نے اپنا کیا حال بنایا ہوا ہے قیں قیں! کیا تم نہا دھو کر کپڑے نہیں بدلتی؟ ‘‘

’’ خالہ جان!امم۔۔۔  میں رنگ کر رہی تھی تو اسی لیے کپڑے خراب ہو گئے۔آئیے آپ اندر بیٹھیں!‘‘

قیں قیں نے خالہ جان کو کمرے میں بٹھایااور خود کچن میں آگئی۔ ہمیشہ کی طرح وہ کپڑے تبدیل کرنا بھول گئی اور کھانا بنانے میں مصروف ہو گئی۔ سب کچھ تیار کر کے اس نے ٹوکری میں سے دہی کا پیکٹ نکالا۔ اسے  کھولتے ہوئے کچھ دہی اس کے ہاتھ پر لگ گیا۔ اس نے ٹشو کے لیے ادھر ادھر نظر دوڑائی پھراس نے سوچا۔

’’اب کون سٹور سے ٹشو کا رول نکال کر لائے۔ ‘‘

یہ سوچ کر اس نے  دونوں ہاتھ اپنے کپڑوں سے صاف کر لیے۔

’’ٹھک ٹھک ٹھک! قیں قیں! کیا میری امی یہاں  ہیں؟‘‘ یہ قیں قیں کی کزن تھی۔

’’ہاں ! وہ میرے گھر ہیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر قیں قیں نے دروازہ کھولا۔ وہ اپنی کزن بطخو کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔

بطخو آگے آئی اور اس سے گلے ملنے لگی۔پھر اچانک وہ رک گئی اور تھوڑا دور ہٹ کر بولی۔

’’معاف کرنا قیں قیں! تمھارے کپڑے بہت گندے ہیں۔ ان سے بہت بدبو آرہی ہے۔ تم بس میری امی کو بلا دو۔‘‘

قیں قیں جو دونوں بازو پھیلائےبطخوسے گلے ملنے لگی تھی، یونہی کھڑی رہ گئی ۔ اسے بے حد اداسی ہوئی۔ وہ خاموشی سے اندر گئی اور خالہ جان کو بطخو کے آنے کا بتایا۔

خالہ جان نے قیں قیں کا شکریہ ادا کیا اور کہا۔

’’پیاری بیٹی! تم بہت اچھی بچی ہو۔ اگر تم اپنے کپڑے بھی صاف رکھنا سیکھ لو تو اس سے اچھی بات اور کوئی نہیں ہو گی۔ پھر سب کہیں گے ۔ واہ!  قیں قیں کتنی صاف ستھری اور اجلی بطخ ہے! اچھا ہاں! الماری کھول کر تیسرا خانہ دیکھنا۔ میں نے تمھارے لیے وہاں ایک تحفہ رکھ دیاہے۔‘‘

یہ کہہ کر خالہ جان بطخو کے ساتھ اپنے گھر چلی گئیں۔ قیں قیں اس رات دیر تک کچھ سوچتی رہی۔ پھر وہ اٹھی اور اس نے نہا کر صاف کپڑے پہنے۔ پھر اس نے الماری کھولی تو تیسرے خانے میں ایک بہت پیارا، اون سے بُنا ہوا سرخ  رومال رکھا تھا۔ رومال پر خالہ جان نے قیں قیں کی تصویر بھی دھاگوں سے بنا دی تھی ۔۔۔ اس وقت جب قیں قیں کھانا تیار کر رہی تھی۔

پیارے بچو! قیں قیں اب کبھی بھی اپنے کپڑوں سے ہاتھ صاف نہیں کرتی۔ بلکہ وہ اپنے فراک کی جیب میں سرخ رومال رکھتی ہے۔ جب بھی اس کے ہاتھ گندے ہو ں تو وہ رومال سے اپنے ہاتھ صاف کرتی ہے۔ اس طرح اس کے کپڑے گندے نہیں ہوتے۔

میرے بچو! صاف ستھرا رہنے کو اللہ پاک بہت پسند کرتے ہیں۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ کبھی بھی اپنے کپڑوں کوگندا نہ ہونے دیں۔ ہاتھ ہمیشہ رومال سےصاف کریں۔ جی ہاں! اسی رومال سے جو آپ کی امی جان آپ کے لیے لائی ہیں اور جو ابھی تک آپ کی الماری کے تیسرے خانے میں پڑا ہوا ہے!