پنگو پینگوئین اور سنو مین


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک پینگوئن کی ، پنگو کی جو برف کے ساحل پر رہا کرتا تھا۔ گرمیوں کے موسم میں بھی وہاں  ہلکی پھلکی ٹھنڈ ہوتی تھی لیکن جب سردی کا موسم اصل میں آتا،  تو مانو، ہر چیز جمنے لگتی۔ کیا پتہ کیا پودا اور کیا پنگو کے گھر کی چمنی، سبھی برف سے ڈھک جاتے۔ ایسے میں پنگو کی امی کو صرف ایک بات پریشان کرتی تھی۔ وہ تھی، پنگو کا جرابیں نہ پہننا!

ہمارے ننھے منے پنگو کو جرابیں پہننا سخت برا لگتا تھا۔ جب بھی امی اسے زبردستی پکڑ کر جرابیں پہناتیں، پنگو کو ایسا لگتا اس کے نارنجی رنگ کے پاؤں کسی جیل میں قید ہو گئے ہوں۔

’’اف! یہ جرابیں! امی جان! گرمیاں کب آئیں گے جب میں جرابیں اٹھا کر الماری کے سب سے نچلے خانے میں پھینک سکوں گا؟‘‘


اس دن بھی پنگو نے جھک کر اپنے پاؤں کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو نیلے رنگ کی اونی جرابوں سے نکلنے کے لیے بے چین تھے۔

’’جب گرمیاں آئیں گے تو دیکھا جائے گا۔سردیوں میں چھوٹے بچوں کو ہمیشہ گرم کپڑوں میں رہنا چاہیے۔مفلر، جرسی ٹوپی نہیں اتارنی چاہیے۔  اب تم نے یہ جرابیں سارا دن پہنے رکھنی ہیں۔دیکھو تو ! نانی جان نے کتنے پیار سے تمھارے لیے اپنے ہاتھوں سے اونی جرابیں بنا کر بھیجی ہیں۔‘‘

امی جان نے یہ کہہ کر پیار سے پنگو کے پاؤں کو چھوا، اس کی ٹوپی کا پھندنا ٹھیک کیا اورکمرے سے باہر نکل گئیں۔

پنگو اداسی سے کھڑکی سے باہر پڑے ہوئے اپنے سکیٹنگ بورڈ کو دیکھتا رہا۔ وہ جانتا تھا ان جرابوں کے ساتھ وہ برف پر پھسل نہیں سکے گا۔ سکیٹنگ بورڈ پر تو پاؤں مضبوطی سے جمانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھلا اونی جرابیں پہن کر وہ کیسے بورڈ پر کھیل سکتا ہے۔

’’ویسے بھی شدید برف باری ہورہی ہے۔ امی کہتی ہیں اتنی سردی میں باہر نکلنا اچھی بات نہیں۔‘‘ پنگو نے یہ سوچ کر دل کو تسلی دی اور کچن میں آگیا۔

’’امی جان! آپ  کیا بنا رہی ہیں؟‘‘

’’میں چکن کارن سوپ تیار کر رہی ہوں۔ اگر برف باری رک جائے تو ہم دونوں سوپ لے کر نانی جان کے گھر کے چلیں گے ۔‘‘ امی جان نےچولہے کی آنچ دھیمی کرتے ہوئے بتایا۔

’’آہا!نانو کے گھر جائیں گے ! میں وہاں خوب کھیلوں گا اور وہ والا حلوہ بھی کھاؤں گا جو نانو اپنی الماری میں رکھتی ہیں۔ کاش برفباری رک جائے! کاش برفباری رک جائے!‘‘ پنگو نے کہتے کہتے نعرہ لگایا اور اچھلتے ہوئے باہر چلا گیا۔

دوپہر کو کچھ دیر سونے کے بعد وہ اٹھا اوراس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ برف کے بڑے بڑے گولوں کی جگہ اب نرم نرم پھوار پڑ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا اگلے کچھ ہی منٹوں میں برفباری بالکل رک جائے گی۔

’’آہا! امی جان! برفباری رک گئی ! کیا اب چلیں نانو کے گھر؟‘‘ پنگو نے امی کے کمرے میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔ امی نے اسے اشارے سے خاموش رہنے کو کہا۔ وہ پنگو کی چھوٹی بہن کو سلا رہی تھیں۔ اگر وہ جاگ جاتی تو بہت روتی۔ اس لیے پنگو دبے پاؤں وہاں سے واپس آیا اور گھر سے باہر بنے ہوئے برآمدے میں آکر کھڑا ہو گیا۔

کچھ دیر تک وہ برف کو دیکھتا رہا پھر اس نے سوچا۔

’’جب تک امی باہر آتی ہیں ، میں ایک اچھا سا سنو مین بناتا ہوں۔ ‘‘ یہ سوچ کر وہ گھر کی سیڑھیاں اترنے لگا تو اس کی نظر اپنے پاؤں پر پڑی۔ اس نے جرابیں نہیں پہنی ہوئی تھیں۔

’’آں۔۔ ہاں! تو۔۔ کوئی بات نہیں! پنگو تو بہادر پینگوئین ہے ۔ اور بہادر پینگونز کو بہت کم سردی لگتی ہے۔‘‘ پنگو نے یہ سوچ کر خود کو شاباش دی اورسنو مین بنانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد سنو مین کی ناک بن گئی تو پنگو کو خیال آیا۔

’’اگر یہاں موٹی سی گاجر لگا دوں تو سنو مین کتنا پیارا لگے۔‘‘

وہ گاجروں کی ٹوکری لینے اندر آیا تو اس نے دیکھا۔ ٹوکری انگیٹھی کے ساتھ والے شیلف پر پڑی تھی۔ گاجر لے کر جب پنگو انگیٹھی کے پاس سے گزرا تو اس نے محسوس کیا۔ اسے ہلکی ہلکی سی سردی لگ رہی تھی۔

’’کوئی حرج نہیں اگر میں یہاں  رک کر تھوڑی سی گرمی لے لوں۔‘‘ پنگو نے اپنے آپ سے کہا اور انگیٹھی کے پاس کچھ دیر کے لیے بیٹھ گیا۔ پھر وہ باہر گیا اور جلدی سے بڑی سی گاجر سنو مین کی ناک کی جگہ پر لگا دی۔

’’امم! اگر یہ میرا مفلر بھی پہن لے تو زیادہ پیارا لگے۔‘‘

یہ سوچ کر پنگونے  اپنا سرخ مفلر اتار کر سنو مین کو پہنا دیا۔

’’نہیں! اس کو جرسی بھی پہنی چاہییے۔ یہ نہ ہو کہ یہ جرسی کے بغیر اداس ہو جائے۔‘‘  

پھر پنگو نے اپنی جرسی بھی اتار دی اور بہت احتیاط کے ساتھ سنو مین کے بازوؤں پر لٹکا دی۔

’’سامنے والے گھر کے پاس جاکر دیکھتا ہوں کہ میرا سنو مین کیا لگ رہا ہے۔‘‘ پنگو یہ سوچتے ہی اچھلا اور اچھلتے اچھلتے دوسرے گھر کے پاس پہنچ گیا۔ ابھی وہ سنو مین کو غور سے دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک آواز آئی۔

’’پنگو! پنگو! کہاں ہو تم! کیا تم نے تیاری کرلی نانو کے گھر جانے کے لیے؟‘‘ یہ امی جان تھیں جو اسے سارے گھر میں ڈھونڈ رہی تھیں۔ جیسے ہی وہ پنگو کو ڈھونڈتے ہوئے گھر سے باہر آئیں تو انہوں نے دیکھا۔ پنگو دور سے اپنے گھر کی طرف ہی آرہا تھا ۔ وہ اپنے ہاتھ زور زور سےمسل رہا تھا اور اس کی ناک سرخ ہو گئی تھی۔ امی جان نے پھر ایک نظر سنو مین پر ڈالی جس نے پنگو کا مفلر، جرسی بلکہ اونی ٹوپی بھی پہن رکھی تھی۔  اورظاہری سی بات ہے! پنگو ان سب کے بغیر تھا!

جب پنگو نزدیک آیا تو امی جان نے افسوس سے سر ہلایا۔

’’پنگو! تمھاری جرابیں کہاں ہیں۔ تم نے میری بات نہیں مانی۔میرا خیال ہے اب تم نانو کے گھر نہیں جا سکو گے۔ ‘‘

پنگو نے امی کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ اب واقعی سردی سے کانپ رہا تھا۔

بچو!اگر آپ برفانی ساحل پر بنے ہوئے سرخ رنگ کے گھر میں جھانک کر دیکھیں تو آپ ہمارے پنگو کو دیکھ سکیں گے جو انگیٹھی کے پاس بیٹھا چکن کارن سوپ کا آخری گھونٹ لے رہا ہے۔ اس نے جرسی اور جرابیں پہن رکھی ہیں۔پنگو کو بخار ہو گیا ہے اور وہ بے حد اداس  بھی ہے کیونکہ وہ نانو کے گھر نہیں جا سکا۔اس کے دل میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ گئی ہے کہ سردی پینگوئن سے زیادہ بہادر ہے۔ سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ  کو جرسی ، ٹوپی  جرابیں اور مفلر پہننا بہت ضروری ہے۔ ورنہ سردی آپ کو ہرا دے گی اور ہو سکتا ہے آپ بھی نانو کے گھر نہ جاسکیں اور اداس ہو جائیں، جو کہ میں بالکل نہیں چاہتی!

میرے پیارے بچو! نومبر دسمبر جنوری اور فروری موسم سرما کے مہینے ہیں۔ پھر کرونا جیسی خطرناک بیماری بھی پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے میں آپ کو بہت احتیاط کرنی چاہیے اور ہمیشہ اپنے آپ کو گرم رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ صاف ستھرے گرم کپڑے پہنیں، گرم گرم سوپ اور قہوہ پئیں اور اللہ کا شکر اداکریں جس نے آپ کو پیدا کیا اور آپ کو یہ سب نعمتیں دیں۔ ہاں! پنگو کب نانو کے  گھرجائے گا! اس کا پتہ تو آپ کو آنے والی کسی کہانی میں معلوم ہو ہی جائے گا!