چینو اور مینو


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے کٹ کٹ مرغی اور دو چوزوں کی جو ایک پیارے سےگھر میں رہا کرتے تھے۔ چینو جو بڑا چوزہ تھا ، اس کے پر سفید رنگ کے اور چونچ سرخ تھی۔ مینو اس کا چھوٹا بھائی تھا۔ مینو کی چونچ نارنجی رنگ کی اور پر زرد رنگ کے تھے۔ دونوں بھائی اکثر لڑائی کرتے رہتے۔

اس دن بھی جب کٹ کٹ مرغی انہیں دانہ کھلانے باہر گھاس پر لائی تو مینو نے ایک موٹے سے دانے پر اپنا پنجہ رکھ  لیا۔ یہ دیکھ کر چینو چلایا۔

’’چوں! چوں! چوں!بھائی جان!  آپ نے میرے پسندیدہ دانے پر اپنا پاؤں رکھ لیا ہے۔ جلدی سے پاؤں ہٹائیں۔ میں نے وہی دانہ کھانا ہے۔‘‘

’’کیوں کیوں!! میں نے اسے پہلے دیکھا ہے۔ اس لیے یہ میرا ہے۔ میں تمھیں ذرا سا بھی نہیں دوں گا۔‘‘

مینو نے زور سے کہا اور جلدی سے دانہ پنجے کے نیچے سے نکال کر منہ میں رکھ لیا۔

’’امی! امی ی ی!!بھائی جان مجھے کھانا نہیں کھانے دے رہے۔‘‘ ہمیشہ کی طرح مینو نے امی کو شکایت لگا دی۔ کٹ کٹ مرغی جو قریب ہی ایک درخت کے نیچے دھوپ سینکنے میں مصروف تھی، اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’مینو! تم بڑے بھائی ہو۔ میں نے تمھیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ چھوٹے بھائی کے ساتھ بانٹ کر کھانا چاہیے۔ ‘‘ کٹ کٹ مرغی نے سمجھایا تو مینو منہ بنا کر کہنے لگا۔

’’امی جان! یہ چینو ہمیشہ اسی چیز پر نظر رکھتا ہے جو میری ہوتی ہے۔ یہ میرے سب کھلونے توڑ دیتا ہے۔ میری چاکلیٹ والی ٹافی جو بندر انکل نے مجھے چھلانگ لگانے پر دی تھی، وہ بھی چینو کھاگیا۔ امی ! میں اس سے بہت تنگ ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر مینو نے زور سے پنجوں کو زمین پر مارا اور بھاگتا ہوا گھر کے اندر چلاگیا۔

چینو وہیں کھڑا اداسی سے کچھ سوچتا رہا۔

اگلے دن چینو اور مینو دونوں ہی کی آنکھ اس وقت کھلی جب سورج کی تیز دھوپ کھلی کھڑکیوں سے اندر تک چلی آئی تھی۔

’’ارے! اتنی صبح ہو گئی اور امی نے ہمیں جگایا بھی نہیں؟‘‘ مینو نے حیرت سے سوچا۔ پھر کمبل ہٹا کر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے جلدی سےامی کے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ امی وہاں نہیں تھیں۔ مینو بھاگ کر کچن میں گیا۔پھر پچھلے والے باغ میں اور پھر اس نے درخت کے نیچے بھی اچھی طرح دیکھ لیا۔ 


کٹ کٹ مرغی کہیں بھی نہیں تھی۔ ’’چینو! اٹھو! امی کہاں چلی گئی ہیں۔مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔‘‘ مینو نے اندر آکر چینو کو اٹھایا اور پریشانی سے کہنے لگا۔

چینو آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔ پھر اس کی نظر کھڑکیوں پر پڑی۔

’’اوہ! میں نے تو آج بکرے میاں کے گھر کھیلنے کے لیے جانا تھا۔ امی نے مجھے کیوں نہیں اٹھایا۔‘‘ چینو نے رونے والی آواز میں کہا۔

’’چینو! امی کہیں چلی گئی ہیں۔امم! شاید وہ ہمارے لیے کھانا لینے گئی ہیں۔چلو تم منہ ہاتھ دھو لو۔‘‘ مینو نے پیار سے چینو کو سمجھایا تو چینو  نے حیرت سے بھائی جان کو دیکھا۔

’’آج بھائی جان مجھے ڈانٹ نہیں رہے۔ یہ کیسے ہو گیا؟‘‘ یہی سوچتے سوچتے وہ بستر سے نکل کر منہ ہاتھ دھونے چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو کہنے لگا۔

’’بھائی جان! امی کب آئیں گی۔ مجھے بہت بھوک لگی ہے۔‘‘

ہمیشہ کی طرح مینو چھوٹے بھائی کو ڈانٹے لگا پھر اسے خیال آیا ۔ امی بھی نہیں ہیں۔ مجھے چینو کا خیال رکھنا چاہیے۔

’’چینو! تم فکر نہ کرو۔ میں کچن کی الماریوں میں کچھ دیکھتا ہوں۔ کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر مینو نے چھوٹی سی کرسی الماریوں کے آگے رکھی پھر اس پر چڑھ کر سارے خانے دیکھ لیے۔ لیکن کہیں بھی کچھ نہیں پڑا تھا۔

’’اب کیا کروں؟‘‘ مینو چینو کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا۔

’’چلو آؤ! باہر چلتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ہمیں گھاس پر کچھ دانے مل جائیں۔‘‘ یہ کہہ کر مینو نے چینو کا ہاتھ پکڑا اور اسے باہر لے آیا۔

گھاس پر کچھ واقعی کچھ دانے موجود تھے لیکن وہ باسی اور سخت ہو گئے تھے۔ اب تو چینو رونے لگا۔اسے امی کی یاد اور زیادہ آنے لگی۔

’’بھائی جان! امی کہاں گئی ہیں۔ امی کب آئیں گی؟‘‘

مینو کو بھی رونا آنےلگا لیکن اس کو امی کی باتیں یاد آرہی تھیں۔

’’مینو بیٹا! تم بڑے بھائی ہو۔ تم نے چینو کا خیال رکھنا ہے۔ جب میں نہ ہوں تو تمھی نے چینو کو دیکھنا ہے اور اس کے کھانے پینے کا بھی دھیان رکھنا ہے۔‘‘

یہ سوچ کر اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اورچینو کو پیار کرتے ہوئے کہنے لگا۔

’’وہ ابھی آجائیں گی۔ میرے خیال سے انہیں راستہ یاد نہیں رہا ہو گا۔ ہم اس جنگل میں نئے نئے آئے ہیں ناں! شاید اس لیے۔ اچھا دیکھو! ‘‘ کہتے کہتے مینو کو ایک خیال آیا۔

’’تم یہیں رکو! میں آتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر مینو ساتھ والے درخت کی پچھلی جانب گیا اور زور زور سے چوں چوں کرنے لگا۔ اس کی چوں چوں کی آواز سن کر درخت کے اندر رہنے والی گلہری باہر آگئی ۔

’’کیا بات ہے مینو! تم پریشان لگتے ہو۔‘‘

’’جی آنٹی! میرے بھائی کو بھوک لگی ہے۔ اگر آپ کے پاس کچھ کھانے کو ہو تو دے دیں۔‘‘  مینو نے آہستہ سی آواز میں کہا۔

’’کیوں نہیں! ٹھہرو۔ ‘‘ یہ کہہ کر گلہری اندر گئی اور پھر اس نے اخروٹ کی ایک پلیٹ لا کر مینو کے آگے رکھ دی۔

’’بہت شکریہ آپ کا! جب امی  آئیں گی تو میں آپ کی پلیٹ واپس کرنے آؤں گا۔‘‘

مینو نے کہا اور پلیٹ کو پنجوں سے گھسیٹ کر چینو کے پاس لے آیا۔

’’یہ دیکھو! گلہری آنٹی نے تمھارے لیے تازہ چھلے ہوئے اخروٹ بھیجے ہیں۔ ‘‘ مینو نے جوش سے بتایا تو چینو بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے پلیٹ کے اندر جھانکا پھر کہنے لگا۔

’’بھائی جان! یہ میں کیسے کھاؤں؟ یہ تو بہت بڑے بڑے  دانے ہیں۔‘‘

’’اوہ! ایک منٹ! ‘‘ مینو نے کہا پھر اپنی چونچ سے اخروٹوں کی گری کو چھوٹا چھوٹا کیا۔ پھر مینو کے آگے رکھ دیا۔

ابھی وہ دونوں اخروٹ کھا کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ ایک طرف سے آواز آئی۔

’’میاؤں! میاؤں! واہ واہ! دو موٹے تازے چوزے! وہ بھی اکیلے! آج تو میں میرا لنچ تمھی دونوں سے ہو گا پیارے چوزو!‘‘ یہ ایک موٹی سی کالے رنگ کی بلی تھی جو درخت کے اوپر بیٹھی کہہ رہی تھی۔

مینو ڈر کے مارے کھڑا کا کھڑ ا رہ گیا۔ چینو تو مینو کے ساتھ چپک گیا اوررو نے لگا۔

’’بھائی جان! یہ بلی مجھے کھا جائے گی۔ مجھے اس سے بچائیں۔‘‘

اتنے میں مینو نے جلدی سے چینو کا ہاتھ پکڑا اور تیزی سے بھاگنے لگا۔ بھاگتے بھاگتے اس نے مڑ کر دیکھا۔ بلی درخت سے نیچے اتر کر ان کے پیچھے پیچھے آرہی تھی۔ یہ دیکھ کر مینواور چینو اور تیزی سے بھاگنے لگے۔ اب ان کا گھر قریب آگیا تھا۔ انہوں نے جلدی سے گھر کے اندر گھس کر دروازہ اچھی طرح بند کر لیا۔ چینونے ابھی تک مینو کا ہاتھ پکڑا ہواتھا۔

’’ڈرو نہیں چینو! بلی اب چلی جائے گی۔ دیکھو! ہم گھر کے اندر آگئے ہیں۔اب بلی ہمیں کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘

چینو نے بھائی جان کا ہاتھ چھوڑ کر جلدی سے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ بلی دم ہلاتی واپس جارہی تھی۔

اتنے میں دروازہ پر دستک ہوئی اور آواز آئی۔

’’کٹ کٹ کٹاک! چینو مینو! دروازہ کھولو۔‘‘

امی واپس آ گئی تھیں۔مینو نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ دونوں امی سے لپٹ گئے۔

’’امی آپ کہاں چلی گئی تھیں؟‘‘ چینو نے کٹ کٹ مرغی کے پروں سے لپٹ کر پوچھا۔

’’بیٹا! میں کھانے لینے کے لیے نکلی تھی۔ پھر راستہ بھول کر ساتھ والے جنگل میں  چلی گئی۔ وہاں اپنا گھر ڈھونڈتی رہی۔ یہ تو بھلا ہو ہاتھی میاں کا ، وہی اپنی سونڈ پر بٹھا کر مجھے گھر تک چھوڑ نے آئے ہیں۔‘‘ کٹ کٹ مرغی نے بتایا۔ پھر کہنے لگی۔

’’اچھا! دیکھو ! میں تمھارے لیے کیا کیا لائی ہوں۔‘‘

جب چینو مینو کھانے سے فارغ ہو گئے تو کٹ کٹ مرغی نے پوچھا۔

’’بچو! تم لوگوں نے لڑائی تو نہیں کی ؟ ‘‘ اس کا خیال تھا دونوں بھائی ہمیشہ کی طرح  آج بھی لڑتے رہے ہوں گے۔

’’نہیں ! نہیں ! امی جان! بھائی جان بہت اچھے ہیں۔ انہوں نے میرا اتنا ا ا ا ا خیال رکھا۔ ‘‘ چینو نے دونوں چھوٹے چھوٹے پر پھیلا کر بتایا تو امی جان ہنسنے لگیں۔

پھر دونوں ہی بولنے لگے۔ ہر ایک کی کوشش تھی پہلے وہ بتائے کہ کس طرح انہوں نے اخروٹ کھائے اور خوفناک بلی کا کیسے مقابلہ کیا۔

بچو! کٹ کٹ مرغی نہیں جانتی تھی، اس کا دیر سے گھر آنا مینو کے لیے کتنا اچھا ثابت ہو ا تھا۔ کیونکہ مینو جان گیا  تھا کہ بڑا بھائی ہونا کسے کہتے ہیں ۔ وہ اب چینو کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہیں کرتا، بلکہ کھانے اور کھیلنے کی ہر چیز چینو کے ساتھ بانٹ لیتا ہے۔ وہ جانتا ہے اسے چینو کا خیال رکھنا ہے جب جب بھی امی گھر پر نہ ہوں۔

میرے پیارے بچو! اگر آپ بھی چھوٹے بہن بھائیوں کے بھائی جان ہیں تو ان کا خیال رکھیے اوراس کا م میں  امی کی مدد کیجیے ۔ بڑا بھائی کا دل بھی بڑا ہوناچاہیے۔ اسے بہت جلدی غصہ نہیں آنا چاہیے اور اسے چھوٹے بہن بھائیوں کی حفاظت بھی کرنی چاہیے۔ویسے بھی! آپ بہت پیارے بھائی جان ہیں اور میں جانتی ہوں آپ کو میری یہ کہانی اچھی طرح سمجھ آگئی ہے!