ایک اہم سبق یاد دلاتی کہانی : آراستہ رہو



 "واہ واہ! آج تو آپ غضب ڈھا رہی ہیں۔" 

سلیم صاحب ثروت بیگم کو آتا دیکھ کر خوشدلی سے کہنے لگے۔ 

بات بھی سچ تھی۔ ثروت بیگم نے پیازی رنگ کا سوٹ اور میچنگ جیولری پہن رکھی تھی۔ ساتھ ہی سیاہ رنگ  کی سینڈل پہنے اور سیاہ ہی رنگ کا پرس تھامے ثروت بیگم بہت پیاری لگ رہی تھیں۔ وہ چالیس کا ہندسہ کراس کر چکی تھیں۔ بڑی بیٹی اور بیٹا ان کے کاندھوں تک آتے تھے لیکن ان کی خوبصورتی اور اوڑھنے پہننے کا سلیقہ یونہی برقرار تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوپہر کی دعوت تھی۔ سو گھر آتے آتے مغرب تو ہو ہی گئی۔ سلیم صاحب نے گاڑی پورچ میں لگائی اور جلدی جلدی وضو کر کے مسجد روانہ ہو گئے  ثروت بیگم نے بھی، اپنا میک اتارا، پیازی رنگ کا سوٹ بمع خوبصورت سا دوپٹہ سنبھال کر رکھا اور عام سے پرانے کپڑے پہن کر جائے نماز پر آ گئیں۔ 

دو تین سال سے کرسی پر نماز ادا کرنے کا معمول تھا۔ آج نہ جانے کرسی کہاں تھی۔ نماز والی بڑی چادر بھی شاید بڑی بیٹی نے چیزیں سنبھالنے کے چکر میں کہیں رکھ دی تھی۔ 

دوبارہ کمرے میں گئیں اور دروازے کے پیچھے لگی کھونٹی پر دیکھا۔ وہ والی چادر تو نہیں تھی لیکن ایک اور بڑی اور گرد گرد ہوتی، رنگ اڑی چادر کو انہوں نے کھینچ کر اتارا۔ 


بیٹے کو آواز دے کر جائے نماز پر کرسی رکھوائی اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دی۔ 

مغرب کی نماز ہوتی ہی کتنی سی ہے۔ ویسے بھی جماعت تو نکل گئی تھی۔ سو سلیم صاحب جلد ہی مسجد سے لوٹ آئے۔ 

جیسے ہی وہ مین دروازے سے لاونج میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں۔ ایک میلی سی مٹی بھری چادر اور دو مختلف رنگوں والی نہایت پرانی سی، شلوار قمیص میں کوئی خاتون نماز پڑھ رہی ہیں۔ 

ایک لمحے کے لیے تو سلیم صاحب گڑبڑا سے گئے۔ کچھ ہی دیر پہلے تک وہ پورے پانچ گھنٹوں کے لیے اپنی بیوی، ثروت بیگم کو نہایت عمدہ نفیس اور خوب صورت کپڑوں میں ملبوس دیکھتے رہے تھے۔ پھر یہ گھسے ہوئے رنگ اڑے کپڑوں اور سیاہ رنگ کی چادر میں ثروت بیگم۔۔ انہیں کچھ اجنبی سی لگیں۔ 

سلیم صاحب نے ایک پلان سوچ لیا تھا۔ مشکل تو تھا لیکن انہوں نے اس پلان پر پورا پورا عمل کرنے کی ٹھان لی تھی۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کو واٹس ایپ گروپ میں آنے والے میسج نے سلیم صاحب کے پلان میں کچھ آسانی کر دی۔ 

"بیگم! کل پھر دعوت ہے۔ پتہ لگا؟" انہوں نے بیڈ پر نیم دراز ہوتے ہوئے ثروت بیگم سے کہا۔

"اوہ۔ میں تو نہیں جا رہی۔ آج بھی بیٹھ بیٹھ کر میرے گھٹنے دکھ گئے۔" 

ثروت بیگم نے بے زاری سے کہا۔ وہ چھوٹی کرسی پر بیٹھی اپنی جیولری سمیٹ رہی تھیں۔ 

"سنا ہے عالیہ باجی کے سب سسرال والے ہوں گے۔ لندن والے رشتہ دار بھی تو ہوں گے۔ وہ پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ واٹس ایپ گروپ میں تفصیل آئی ہے۔ دیکھو تو سہی۔" 

"اچھا! سب ہوں گے؟" کولڈ کریم کا ڈبہ اٹھاتے اٹھاتے ثروت بیگم سوچ میں پڑ گئیں۔ 

"چلو دیکھتی ہوں۔ صبح طبیعت ہوئی تو چلی جاوں گی۔" انہوں نے نیم رضامندی ظاہر کر دی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح ایک طوفان لے کر آئی تھی۔ عالیہ باجی نے گروپ میں سبھی کو ٹائم پر آنے کی دو بار ڈانٹ نما تلقین کی تھی۔ 

اور اب وقت نکلا جا رہا تھا لیکن۔۔۔! ثروت بیگم کی وارڈروب میں سے تقریبا سبھی فینسی سوٹ غائب تھے۔ 

"میں کہتی ہوں یہ اس کام والی بلکہ کام چور نسیمہ کا کام ہے۔ وہی میرے نئے نئے سوٹوں پر لالچی نظریں رکھتی ہے۔ بلائیں اس کو۔ ابھی بلائیں۔" 

بچے حیران پریشان۔ نسیمہ کام والی نے آج تک ان کے موبائل لیپ ٹاپ اور دیگر قیمتی اشیاء کو تو ہاتھ نہیں لگایا، صرف اور صرف ان کی والدہ کے قیمتی سوٹ لے کر صبح ہی صبح غائب ہو گئی۔ بھلا یہ کیونکر ممکن تھا۔ 

"امی! نسیمہ کو میں نے دیکھا تھا۔ وہ بالکل خالی ہاتھ تھی جب وہ گھر سے نکل رہی تھی۔" 

بڑے بیٹے شایان نے آہستہ سے کہا۔ 

نسیمہ آج صبح چھ بجے ہی آ دھمکی تھی، لنٹن پنٹن جھاڑ پونھ یہ کر وہ کر، آٹھ بجے، ثروت بیگم کے اٹھنے سے پہلے ہی وہ جا چکی تھی۔

یہ دو سالوں میں پہلی بار ہوا تھا سو اسی پر شک یقینی تھا۔ 

"ملاو اس کا نمبر۔ میں بھی دیکھتی ہوں میرے شیفون اور بریزہ کے برانڈڈ سوٹ لے کر وہ کدھ جائے گی۔ ابھی بھائی جان (جو پنجاب پولیس میں تھے) کو کال کر کے ڈالا نہ بلوا لیا تو میرا نام ثروت نہیں۔" 

"ثروت نہیں تو پھر کیا نام رکھیں۔ یہ بھی بتا دو۔" 

سلیم صاحب نے موبائل ہاتھ میں پکڑے شایان کو آنکھ ماری اور مسکراتے ہوئے گویا ہوئے۔ 

"بس آپ تو کچھ نہ بولیں۔ خود نیا میچنگ ویسٹ کوٹ پہن کر تیار شیار کھڑے ہیں اور مجھے دیکھو۔ بھلا میں یہ پرانے گھسے ہوئے کپڑے پہن کر کیسے جاوں اب۔" 

ثروت بیگم نے اشارے سے لان کے رنگ برنگے کپڑوں کے اس ڈھیر کی طرف اشارہ کیا جو مبینہ طور نسیمہ کام والی کاص طور پر ان کے لیے چھوڑ گئی تھی۔

"میری تو فیشن سینس اور پہننا اوڑھنا مشہور ہے سلیم۔ اب میں یہ رنگ اڑے کپڑے کیسے پہنوں۔" 

ثروت بیگم روہانسی ہو گئیں۔ 

بس۔ یہی وہ وقت تھا جب سلیم صاحب نے اس سارے پلان کا ڈراپ سین کرنا تھا۔ 

"جب تم اللہ سے ملاقات کرنے جاتی ہو تو یہی کپڑے پہنتی ہو ناں۔" سلیم صاحب نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ 

"اللہ نہ کرے۔ ابھی تو میں نے بچوں کی خوشیاں دیکھنی ہیں اور آپ میری ملاقات اللہ سے کروا رہے ہیں۔ سیدھی طرح کہہ دیں تنگ آ گئے ہیں مجھ سے۔ تو ٹھیک ہے میں بھائی جان کے گھر جا کر رہ لیتی ہوں۔" 

ثروت بیگم منہ بنا کر کہتی چلی گئیں۔

"میں نماز کا کہہ رہا تھا۔" 

سلیم صاحب نے بھنویں اچکا کر مختصرا کہا تو ثروت بیگم گڑبڑا سی گئیں۔

"آں ہاں۔ نماز ۔۔۔ نماز کے لیے تو میں یہی عام سے کپڑے پہن لیتی ہوں۔" 

"جی نہیں۔ یہ عام نہیں، رنگ اڑے بھدے رنگوں والے گھسے پٹے کپڑے ہیں۔ اللہ سے باتیں کرنے جائیں تب بھی تو اجلے نکھرے خوب صورت کپڑے پہننے چاہیئیں ناں۔ تب تو ہم ایسے ہو کر جاتے ہیں جیسے بس دل نہیں کر رہا تھا سو مارے باندھے میلے سے لباس، گندی سی ٹوپی یا چادر اوڑھے چلے آئے۔ لیکن جب کوئی دعوت ہوتی ہے، لوگوں سے ملنا ملانا ہوتا ہے تو ہم خوب نہا دھو کر بن سنور کر پوری زینت اختیار کر کے جاتے ہیں۔" 

سلیم صاحب کہتے چلے گئے۔ 

ثروت بیگم خاموشی سے سنتی رہیں۔ بات تو ٹھیک تھی۔ 

"شایان۔ میری وارڈروب سے امی کے کپڑے نکال کر واپس ان کی وارڈروب میں رکھ دو۔" تیر نشانے پر بٹھا کر، مطمئن ہوتے سلیم صاحب نے جلدی سے کہا اور اخبار چہرے کے آگے کر لی۔

"ہائیں!" ثروت بیگم کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلو شرمندگی اپنی جگہ اور ثروت بیگم دل ہی دل میں سلیم صاحب کی شکرگزار تھیں کہ انہوں نے اتنی اچھی بات سمجھائی تھی جو خود انہیں کبھی بھی نہ معلوم ہو پاتی۔ 

لیکن عالیہ باجی کے گھر سے واپسی تک سلیم صاحب کی شامت آتی رہی۔ 

"مجھ بیمار بندی کو اتنی ٹینشن دی۔ مطلب آپ خود کو جیمز بانڈ سمجھ رہے تھے؟شکر کریں نسیمہ کو کال نہ کر دی۔ اتنی اچھی ایماندار محنتی خادمہ پر شک کیا"  یہ وہ۔ سلیم صاحب مسکراتے ہوئے سنتے رہے اور کچھ نہ بولے۔ ویسے جیمز بانڈ والی بات انہیں پسند آئی تھی! 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن دعوت سے واپس آکر سب نے دیکھا۔ ثروت بیگم نے وہ فینسی جارجٹ کا سوٹ تو اتار کر سنبھال دیا تھا لیکن میلے سے کپڑوں کی بجائے لان کا نیا سوٹ اور نئی کڑھائی والی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ ہلکا سا میک اپ، پرفیوم اور اچھی طرح بال بنائے، بادامی رنگ کی نفیس چادر اوڑھے ثروت بیگم رب سے باتیں کرتی ۔۔۔۔ یقین مانو! بہت اچھی لگ رہی تھیں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِيۡنَتَكُمۡ عِنۡدَ كُلِّ مَسۡجِدٍ وَّكُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ  ۞ (الاعراف ۔ 31)

"اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"