سانحہ رحیم یار خان : ہر سانحہ اتفاق سے نہیں ہوتا

 جس کا بچہ فوت ہو جائے اسے ایسی پوسٹس اور دعاوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا 

جس میں بہت ہی درد اور جذبے کے ساتھ مغفرت و صبر جمیل کی دعائیں اور 

نظر بد سے بچنے کی ہدایات شئیر کی گئی ہوں۔  



سوال تو یہ ہے کہ شارٹ سرکٹ ہوا تو کیوں؟ 

اتنی دیر تک اتنی تیز آگ لگی رہی کہ کمرے کی ہر چیز جل جل کر کوئلہ ہو گئی۔ 

باقی کے گھر والے محلے والے اردگرد کے لوگ کہاں تھے کیا کر رہے تھے۔ 


میں یہاں کسی پر الزام نہیں لگا رہی لیکن کمرے کی جو حالت ہے، 

اس سے پہلی بات ہی جو ذہن میں آتی ہے کہ آگ بہت دیر تک لگی رہی یا پھر اتنی تیز رفتار آگ تھی 

جس نے پلک جھپکنے میں بشمول ننھے بچے سب کچھ راکھ کر ڈالا۔  

جہاں بات یہ آتی ہے کہ جی یہ تو نظر لگی ہے یا جو ہونا ہوتا ہے ہو کر رہتا ہے،

اس سے کہیں پہلے بات یہ آتی ہے کہ اس سانحے کے ذمہ دار کون تھے۔

فرض کریں اللہ نہ کرے کسی کے ساتھ ایسا ہو، 

لیکن اگر ہو جائے تو ہم تو اس بندے کو نہیں چھوڑیں گے جس کی وجہ سے یہ سانحہ ہوا۔

شارٹ سرکٹ کیوں ہوا؟ تاروں کی کوٹنگ پرانی تھی یا وولٹیج یکدم زیادہ آنے لگا۔ 

اوراگر وولٹیج زیادہ آیا تو کیوں اور کیسے آیا؟ 

کیا تاریں بچوں کی یا کسی لاپروا انسان کی رینج میں تو نہیں تھیں کہ 

اس نے یونہی چھیڑچھاڑ کر دی اور بار بار اسپائک ہوتا رہا اور آگ لگ گئی۔ 

 کیا یہ سستی تھی، شرارت تھی،  غیر ذمہ داری تھی یا کچھ اور تھا؟ 

ہر ایک سانحے کے بعد دعائیں اور دم درود اور نظر سے بچنے کی ہدایات اور پوسٹس سامنے آنے لگتی ہیں۔ 

ہر ایک سانحے کے بعد سستی، negligence, لاپرواہی یا قتل بالعمد او بالخطاء کے اسباب 

اور ان کی وجوہات اور نتائج پر کوئی غور ہی نہیں کرتا۔ 

جانچ پڑتال، باز پرس، تفتیش و سزا ملنا یا دیت و قصاص تو  خواب کی بات ہوئی۔ 

نہیں چاہیے ہمدردی یا درد بھری دعائیں ایک ایسی ماں کو

 جس کی ساری دنیا کسی کی غیر ذمہ داری نے اجاڑ کر رکھ دی۔ بھائیو! وہ عید منانے آئی تھی، 

بچے شہید کروانے اور صبر جمیل کرنے نہیں آئی تھی۔

شارٹ سرکٹ اگر اتنی عام سی چیز ہے جیسے کی اس سارے واقعہ میں 

اس کا بس عام سا ذکر کیا جارہا ہے اور 

زیادہ زور ماں کو صبر جمیل کرنے اور نظر بد والا حصار قائم کرنے پر دیا جارہا ہے، 

تو پھر تو یہ شارٹ سرکٹ ہمارے گھر میں بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کے گھر میں بھی ہو سکتا ہے۔ 

تو کیسا لگے گا پھر اپنے جلے ہوئے بچوں کی لاشیں وصول کرنا ساتھ ہی موبائل پر صبر جمیل کے پیغامات پڑھنا۔ 

آپ تو میرا دعوی ہے پہاڑ کھدوا دیں گے اور کہیں گے میرے بچوں کو جلانا والا سامنے آئے۔ 

مطلب ہر چیز ویسے تو کسی نہ کسی وجہ سے ہو رہی تھی جیسے کہ ہمارا آتا ہوا رزق، ہمارا کھانا پینا، 

ہماری بیماری و صحت، ہر چیز پر ہمارا ایمان ہے کہ اس کے پیچھے کوئی سبب ضرور ہے، 

لیکن جیسے ہی کسی ایسے واقعے کی خبر آتی ہے سب کچھ "اتفاق" کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ 

بھائیو اور بہنو! "اتفاق" اتنے بہت سارے سانحوں کی ذمہ داری لے لے کر تھک گیا ہے۔ 

اب اس کا کہنا ہے صرف ان لوگوں کے سانحے کی ذمہ داری لوں گا جو شارٹ سرکٹ کو بھی اتفاق کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


امریکہ کے کینسر سپیشلسٹ ڈاکٹر عمیر مشتاق عید کی چّھٹیاں  رحیم یار خان پاکستان میں منانے آئے تھے۔ اُن کو کیا معلوم تھا کہ یہ خوشیوں کے دن اُن پر قیامت کی طرح گزرے گے۔

جس روز ڈاکٹر عمیر اور انکی بیوی اپنے دو خوبصورت بچوں کو دادا کے گھر چھوڑ کر باہر کّھانے پر گئے اسی رات بچوں کمرے کی بجلی کا شارٹ سرکٹ ہونے کی وجہ سے ایسی آگ لگی کہ انکے دونوں بیٹے اُسکی گرفت میں آ کر اللّٰہ کو پیارے ہوگئے۔