قوم لوط کا عمل دہرانے والوں کا انجام دکھاتی ہوئی کہانی : عین الیقین

 


میں بہت ڈر گیا ہوں۔ کئی راتوں سے سو نہیں سکا۔ جب سے میں اپنی آنکھوں سے اپنے ان دو کلاس فیلوز کی لاشیں دیکھی ہیں، میرا دل اندر ہی اندر کانپ رہا ہے۔دماغ ابھی تک یہ سوچنے کو تیار نہیں ہے کہ سنی اور احمد اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔ وہ ویسے ہی طبعی موت مرتے تب بھی مجھے بہت دکھ ہوتا۔ لیکن آج جس طرح ان کی موت میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے، میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں۔ 

سوری۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں آپ کو اپنے دل کی بات as it is سنا پاوں گا کیونکہ میں بہت ڈسٹرب ہو گیا ہوں لیکن میں کوشس کرتا ہوں۔ 

 اصل بات کچھ یوں ہے کہ جب سے میں نے Costa Rica کی اس مشہور یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا، میں سخت الجھن اور کوفت کا شکار تھا۔ کوسٹا، وسطی امریکہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ کوئہ پانچ ملین آبادی ہو گی یہاں۔ مسلمان تو کم ہی ہیں۔ یہاں Gays اور Lesbians کے تعلقات یا شادی، قانونی طور پر جائز ہے۔


سو، یونی میں اکثر gays اور lesbians کے کپلز نظر آجاتے تھے۔ بہت کوفت ہوتی تھی ان مناظر سے۔ لیکن پڑھائی تو کرنا تھی۔ 

میں یہاں MBA کرنے آیا تھا۔ میرے ایک رشتے کے چچا زاد بھائی جو مجھ سے عمر میں کافی بڑے ہیں، سالوں سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔ سو، جب میں نے ایم بی اے کرنے کی بات چھیڑی تو ابا کو سب سے پہلے کوسٹا اور اپنے بھتیجے خاور کی یاد ستائی۔ ٹھکا ٹھک فون ہوئے، ای میلز آئیں، پاسپورٹ اور ٹکٹ پہنچے اور میں کوسٹا آگیا۔

پہلے ہی دن جب میں یونیورسٹی گیا تو سامنے کے لان میں میرا سامنا دو عجیب و غریب لڑکوں سے ہوا۔ 

ان میں سے ایک نے تقریبا لڑکیوں والا لباس پہن رکھا تھا۔ دوسرا لڑکا سر پر شیطان کے سینگوں والا ہیٹ اور گلے میں سانپ نما ٹائی پہنے ہوئے تھا۔ 

مجھے دیکھ کر انہوں نے ہائے اور ویلکم کہا اور پھر اپنی باتوں میں لگ گئے۔

بعد میں معلوم ہوا۔ دونوں اچھے بھلے مسلمان گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں۔ سنی اور احمد نام تھے ان کے۔ دونوں کے گھر والے ان کی حرکتوں کو لے کر کافی پریشان رہتے تھے۔ 

پھر کمیونٹی کی طرف سے دی گئی ایک پارٹی میں بھی ان سے ملاقات ہوئی۔

"ہیلو۔ میرا نام سعد ہے۔" 

میں نے تعارف کروایا اور روانی ہی میں ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ بعد میں بہت پچھتایا۔ سنی نے مسکراتے ہوئے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ 

"میرا نام سنی ہے اور یہ احمد ہے۔ مائی بیسٹ فرینڈ۔" 

احمد نے بیسٹ فرینڈ سن کو تھوڑا سا منہ بنایا۔ پھر اس نے میرا دوسرا ہاتھ پکڑ لیا۔ 

"آپ کو ہم اکثر دیکھتے ہیں۔ بڑی بڑی بکس۔ لائبریری۔ یہ وہ۔ کوئی انٹرٹینمنٹ نہیں کرتے آپ۔کبھی ہمارے ساتھ وقت گزاریں۔" 

دونوں میرے ہاتھ سہلاتے جا رہے تھے۔ ایک شدید قسم کا کرنٹ میرے اندر دوڑنے لگا۔ میں نے گردن موڑ کر خاور بھائی کو دیکھا۔ وہ مجھے ہی گھور رہے تھے۔ 

"آ۔۔۔ امم۔ جی۔۔ بس۔ پڑھائی تو۔۔۔ کرنی ہوتی ہے۔" میں نے بمشکل تمام جملہ پورا کیا اور بمشکل تمام ہی اپنے دونوں ہاتھ چھڑائے۔ 

"ایکسکیوز می!" 

اس سے پہلے وہ قریب آ کر میری کمر پر ہاتھ رکھتے، میں وہاں سے دور ہٹا اور خاور بھائی کے پاس آ کھڑا ہوا۔ میرا سانس یوں پھول گیا تھا جیسے میں بہت دور سے بھاگتا چلا آیا ہوں۔ 

"یہ تم کیا کر رہے تھے؟" 

"میں تو بس باتیں کرنا گیا تھا۔ وہی دونوں ہم عمر ہیں یہاں۔ باقی سب آپ جیسے بزر۔۔۔۔" میں بزرگ کہتے کہتے رک گیا کیونکہ خاور بھائی نے میرے کندھے پر رکھا ہاتھ زور سے دبایا تھا۔ 

"کیوں میاں۔ ہم بزرگ ہو گئے۔ جاو جاو پھر۔ یہاں کیا کر رہے ہو۔ ہم ہیش ٹیگ بزرگوں میں تمھارا کیا کام۔" نک چڑھے سے لطیف انکل نے ناک چڑھا کر کہا تو مجھے ہنسی آ گئی لیکن مزید کوئی آواز نکالنا مزید ہیش ٹیگز سننے کے برابر تھا سو میں خاموش رہا۔ 

سنی اور احمد اب کولڈ ڈرنکس پی رہے تھے۔ میں نے سوچا ۔ 

"بچو! میں نے تمھاری یہ انٹرٹینمنٹ ختم نہ کرا دی تو میرا نام بدل دینا۔ میرے ابا کی تربیت کس کام آئے گی۔"   

اس دن کے بعد سے میری ان سے گہری دوستی ہو گئی۔ میں ان کے غلط کاموں کا تو حصہ نہ بنتا تھا ہاں کیفے جانا ہو یا بس پوائنٹ تک۔ ہم اکثر اکٹھے آنے جانے لگے۔

"یار اپنا کانٹیکٹ تو دے دو۔" 

اس دن میں نے کہتے ہوئے موبائل جیب سے نکالا۔ 

"ہاں۔ لکھو۔" 

دونوں نے اپنے نمبرز لکھوا دیے۔ میں نے مس بیل دی انہیں۔ 

"دیکھو کال آئی تمھیں۔" میں نے پوچھا۔ 

"ہم موبائل ساتھ نہیں لیتے جب ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں۔" سنی نے لاڈ سے کہا۔ 

احمد نے بھی اس کی گردن کے گرد بازو رکھے اور کہنے لگا۔

"جب سنی میرے ساتھ ہو تو موبائل کی کیا ضرورت۔" 

میں ہکابکا سا رہ گیا۔ خیر! یہ سب کچھ تو برداشت کرنا ہی تھا۔

آخر ایک دن باتوں ہی باتوں میں، میں نے انہیں سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ سلم از سید سلیمان ندوی اور قرآن مجید کے spanish ترجمے والے دو نسخے دیے۔ دونوں کی پیدائش کوسٹا ہی کی تھی سو انگریزی سے زیادہ spanish ان کی مدر لیگوئج تھی۔ 

"واٹ از دس۔" 

وہ حیران ہوئے۔ 

"یہ بکس مجھے انٹرسٹنگ لگیں تو میں نے سوچا آپ کو بھی ایز ا گفٹ دیتا ہوں۔ امید ہے آپ اس کو دلچسپ پائیں گے۔" 

میں نے بجائے انگیزی کے، ٹوٹی پھوٹی سپینش میں کہا تو وہ بڑے سٹائل سے کھلکھلا کر ہنسے۔ پھر مجھے کہنی مار کر کہنے لگے۔ 

"انٹرسٹنگ مطلب؟" 

میں نے دل میں نعوذ باللہ پڑھا اور ان کی کم علمی پر اللہ سے معافی مانگی۔ پھر کہنے لگا۔ 

"مطلب اس میں کچھ واقعات ہیں Prophets کے، لائک یوسف، نوح، ابراہیم۔ اور یہ ۔۔ اس میں Prophet Muhammad کی لائف۔۔  ساری بتائی گئی ہے۔۔۔ تم پڑھو گے تو آئی بیٹ۔ رک نہیں پاو گے۔" 

میں نے انہیں جوش دلانے کے لیے کہا۔ 

سنی نے ہاں میں سر ہلایا اور احمد نے میرے ہاتھ سے کتابیں پکڑ لیں۔ 

پھر سپینش میں نہ جانے کیا گفتگو کرتے ہوئے وہ مسکراتے ہوئے بس میں جا کر بیٹھ گئے۔ 

میں نے اگرچہ یہاں آنے سے پہلے سپینش زبان کا پورا کورس کیا تھا۔ جی۔ ایسے ہی نہیں آگیا تھا۔ لیکن خیر۔ یہاں کی مقامی زبان اس سپینش سے کافی مختلف سی ہے۔ اس لیے مجھے سنی اور احمد کی گفتگو کی ککھ سمجھ نہ آئی۔

گھر آ کر میں نے ان کے الفاظ پر غور کیا، کچھ گوگل translate کا سہارا لیا تو پتہ لگا۔ وہ اس abandoned building، شانا ہوٹل میں جانے کا پروگرام بنا رہے تھے جس کو حکومت نے اگلے ہفتے میں مسمار کرنے کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ 

میں وہاں تنہائی میں ان کے جانے کا مقصد سمجھ گیا تھا۔ لیکن میں ان کو کیا کہہ کر روکتا۔ ان تین ماہ میں، اپنی پوری کوشش کر چکا تھا۔ ہلکی پھلکی باتوں میں gaysism سے نفرت دلانا، کچھ اللہ پاک اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے بارے میں بتانا۔ وہ میری ساری باتیں خاموشی سن لیتے تھے لیکن نہ جانے کیوں ان کے دل پر اثر نہیں ہوتا تھا۔ اگرچہ دونوں مسلمان تھے لیکن یہاں کے ماحول اور گھروالوں کی ناکافی تربیت نے انہیں اس نہج پر لا کھڑاکیا تھا کہ وہ قرآن پاک اور سیرت کی کتب کو بھی کوئی random سی بک سمجھتے تھے۔ 

پتہ نہیں کیوں، میرا اندر سے دل چاہنے لگا۔ میں بھی اس متروکہ بلڈنگ Shana Hotele جاوں اور ان کو اس برے کام سے منع کرکے آوں۔ 

میں نے گوگل میپ Shana Olinca Hotele  کی لوکیشن سیٹ کی۔ 3.5 کلو میٹر کی مسافت تھی۔ اور اپنی چھوٹی سی سکوٹی لے کر چل پڑا۔ 

میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا۔ حکومت کوسٹا کی جانب سے وہاں جگہ جگہ رکاوٹیں لگ چکی تھیں۔ سپیکر پر اعلان ہو رہا تھا۔ 

"کوئی نزدیک نہ آئے۔ عمارت بلڈوز ہونے لگی ہے۔ سیفٹی سب سے اہم ہے۔ اپنا خیال رکھیں۔ ربن کے دوسری طرف رہیں۔ رکاوٹ کراس نہ کریں۔" 

میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

میں نے ایک لیبر سے پوچھا۔ 

"آپ کو یہاں آئے کتنی دیر ہوئی ہے۔" 

"یہی کوئی تین منٹ۔" 

ان "یہی کوئی تین منٹ" میں وہاں پچاس مزدور، تین کرینیں اور دیگر عملہ آچکا تھا۔ یہ سست سے لوگ تو تھے نہیں۔ گھڑیوں کی سوئیوں کے ساتھ کام کرتے تھے۔ سو، ان تین منٹوں میں ان کے مستعد کارکن عمارت کے پانچوں فلورز پر Nitroglycerin اور Dynamite کے بلاکس بھی فٹ کر آئے تھے۔

"یہ پروگرام تو ایک ہفتے بعد کا تھا۔ اچانک کیسے؟" 

"اتوار کے دن سے بارشیں ہیں۔ ہمیں یہ کام اس سے پہلے پہلے کرنا پڑا۔" اس نے بے زاری سے جواب دیا۔

"تو آپ نے موبائل پر نوٹیفیکیشن کیوں نہ بھجوائے؟" مجھے غصہ آ گیا۔

"لو۔ بھجوائے تو ہیں۔ ایک گھنٹے سے بار بار نوٹیفیکیشن اور ای میلز جا رہی ہیں۔" اس نے بھی تیز لہجے میں کہا۔

"اوہ! تو۔۔۔۔ " 

مجھے یاد آگیا۔ 

" جب سنی میرے پاس ہے تو موبائل کی کیا ضرورت۔" 

ان دونوں نے موبائل گھر چھوڑ دیے تھے اس بار بھی۔ 

 اتنے سوال جواب یہاں کوئی اجنبی کسی سے نہیں کرتا۔  

لیکن میں نے کہا۔

"مجھے آپ کے مینجر سے ملنا ہے۔ میں چاہتا ہوں۔۔۔ تھوڑی دیر کے لیے۔۔۔  demolishing process کو روکا جائے۔" 

اب میرے منہ سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے۔ میرا دل کہہ رہا تھا۔ سنی اور احمد اسی بوسیدہ عمارت کے اندر ہیں اور عین ممکن ہے وہ کسی ساؤنڈ پروف روم میں ہوں۔ یہ عمارت کسی زمانے میں سیون سٹار ہوٹل رہی تھی اور اس کے بہت سارے رومز ساؤنڈ پروف ہی تھے۔ اگر وہ کسی ایسے کمرے میں ہوئے تو وہ یہ اعلان کیسے سن سکتے تھے۔ 

ویسے بھی یہ سپیکر جو ایک کرین پر نصب تھا، عمارت سے کوئی ایک کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ سیفٹی کی نیت سے کرینز، ڈرائیور، لیبر سب عمارت سے بہت دور ہٹ کر کھڑے تھے۔

ان سبھی نے میری بات سنی ان سنی کر دی۔

"پلیز پلیز۔۔ کچھ دیر رک جائیں۔" میں چلایا۔ لیکن میری آواز دھماکوں میں دب کر رہ گئی۔ 

ایک۔ دو ۔ تین۔ چار۔ ۔۔۔ نیچے کے فلور گرنا شروع ہوئے تو ہم نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ آدھے لباس میں ملبوس، دو نوجوان لڑکے چھٹے فلور کی ایک کھڑکی سے چھلانگ لگاتے نظر آئے۔ نیچے گرتے ہی ان میں ایک ساکت ہو گیا۔ دوسرا اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اوپر سے گرتے پچپن 55 فلورز کی اینٹوں، سریوں اور سیمنٹ کے بلاکس نے گرد اور دھوئیں سمیت ان دونوں کو چھپا لیا۔ 

یہ سب صرف چند سیکنڈز میں ہوا۔ مجھ سمیت سب مزدور، ڈرائیورز اور دوسرا عملہ ساکت کھڑا رہ گیا۔ ایک تو عمارت کے گرنے کا ہولناک منظر پھر اسے زیادہ ہولناک ان دونوں نوجوانوں کی موت کا منظر۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں بہت دنوں تک بخار میں مبتلا رہا۔ سوتا تھا تو خواب میں وہی منظر بار بار آتا تھا۔۔  سنی اور احمد چھٹے فلور سے چھلانگ رہے ہیں۔ مدد کے لیے پکارتے ہوئے۔ نیچے گرتے ہی سنی مر جاتا ہے۔ احمد اٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ پچاسوں فلوز ان دونوں کے اوپر گر جاتے ہیں۔ میری آنکھ کھلتی تو میں پسینے میں ڈوبا ہوا ہوتا تھا۔ 

آہستہ آہستہ میری طبیعت سنبھل گئی ہے لیکن ۔۔ میں بہت ڈر گیا ہوں۔ قرآن پاک میں ہے کہ اللہ غفور رحیم بھی ہیں اور شدید العقاب بھی۔ معاف کرنے والے، مہربان بھی ہیں اور بہت سخت سزا دینے والے بھی۔ پہلے میں بے دھیانی کے ساتھ یہ آیت پڑھتا تھا، اب عین الیقین کے ساتھ پڑھتا ہوں۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَاَمْطَرْنَا عَلَيْـهِـمْ مَّطَرًا ۖ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِـبَةُ الْمُجْرِمِيْنَ (84)

 اور پھر ہم نے ان پر (پتھروں کی) ایک بارش برسائی۔ پھر دیکھو کہ ان مجرموں کا کیا انجام ہوا۔" 

"فارجموا الاعلی و الاسفل۔" (پس اوپر والا اور نیچے والا، دونوں سنگسار کیے جائیں۔" (فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)

"دونوں کو کسی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑا کر کے وہ عمارت ان پر ڈھا دی جائے۔" 

(قول عمر و عثمان رضی اللہ عنہما)

(بحوالہ تفہیم القرآن از مولانا ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ)