جب بھی کہانی لکھنے بیٹھیں تو سب سے پہلے Audience مقرر کریں۔
1۔ تین سے پانچ سال تک بچوں کی کہانی
2 ۔ چھ سے نو سال کے بچے کی کہانی
3 ۔ دس سے تیرہ سال کے بچوں کی کہانی
* نابینا بچوں کے لیے کہانی
(مثلا ایک ایسی کہانی جس میں ایک نابینا بچہ اپنی ہمت و کوشش سے دنیا میں بڑا نام بناتا ہے)
* تھیلیسیمیا میں مبتلا ننھے فائٹرز کے لیے کہانی
(مثلا ایک ایسی کہانی جس میں یہ ننھا فائٹر اپنی بیماری کا بھرپور مقابلہ کرتا ہے اور امی ابو کی مدد سے اپنی پڑھائی یا کھیلوں کا حرج نہیں ہونے دیتا)
*سماعت سے محروم بچوں کی کہانی
(مثلا ایک ایسی کہانی جس میں دلچسپ انداز میں بچے کو پرندوں جانوروں اور مختلف چیزوں کی آوازیں پڑھنے کو ملیں تاکہ وہ انہیں تصور کے کانوں سے سن سکے)
* وہیل چئیر والے بھالو کی کہانی
* اسٹک سے چلنے والے زرافے میاں
* بائیں ہاتھ سے لکھنے والے بچے کی کہانی
* کینسر اور کیموتھراپی سے جنگ لڑنے والے بچے کے لیے کہانی
*اس بچے کے لیے کہانی جن کی ماما یا پاپا ایک دم ان کو چھوڑ کر چلے گئے
وغیرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ صرف ننھے بچوں اور درمیانی عمر کے بچوں کی کہانیوں کی ذیلی categories ہیں جو اور بھی میرے ذہن میں آرہی ہیں لیکن پوسٹ طویل ہو جائے گی۔
نوجوانوں کی کہانیوں میں ایک اہم بات یہ ہونی چاہیے کہ عملی زندگی کیسے گزاری جائے۔ صرف نصیحت سے کام نہ لیا جائے بلکہ عملی طور ان کے مسائل کا حل کہانی کی صورت میں پیش کریں۔
اسلام کو نئے زمانے کے ساتھ کیسے apply کرنا ہے نوجونوں کی کہانی کا ایک موضوع یہ بھی ہے۔
حلال رزق۔ گناہ سے بچنا۔ معاشرتی مسائل۔ معاشی مسائل۔ نوجوانوں کی کہانیاں ان سب اور انہی جیسے دوسرے ٹاپکس کو ایڈریس کریں گی۔
۔۔۔۔۔۔
پھر ادھیڑ عمر کے لوگوں کے لیے بھی کہانیاں لکھنی چاہیئں۔ ایسی کہانیاں جن کو پڑھ کر یہ تجربہ کار اور زندگی کی دھوپ میں دوڑتے ہوئے لوگ کچھ دیر کے لیے سکون محسوس کر سکیں۔
ایسی کہانیاں جو نئی نسل اور ان لوگوں کے درمیان generation gap کو ختم کرنے مئں مددگار ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ان لوگوں کے لیے کہانیاں ہونی چاہیئں جن کے بالوں سے لے کر پلکوں تک برف سی اتر آئی ہے جو گورمنٹ اور بہو بیٹوں کے نزدیک ریٹائر اور بے کار اشاء کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ایسی کہانیاں جو ان کو بیماری اور بڑھاپے سے لڑنے
کا حوصلہ دیں۔ ایسے کرداروں والی کہانیاں جنہوں نے اپنی بیماری اور بڑھاپے سے لڑائی جاری رکھی اور وہ آج تک زندگی کی جنگ میں فعال ہیں، تھکے نہیں۔