اکیس مارچ 2023



 جب امی جی کا انتقال ہوا، میں پتہ نہیں کیسے اتنی بہادر ہو گئی تھی۔ جب حضرو سے سفوراں آنٹی آئیں تو انہوں نے کہا۔ میت کو میرے سامنے دوبارہ سے غسل دینا ہے۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔

میں نے، رضیہ مامی اور آما نے امی کو غسل دینا شروع کیا۔ میں بس بے حس سی ہوتی گئی۔ امی کو کروٹ دلانی ہے۔ امی کے پاوں باندھنے ہیں۔ امی کے بال سمیٹنا ہے۔ ہاں یاد آیا۔ سفوراں آنٹی کرسی رکھ کر سامنے بیٹھی تھیں اور جس پیار و شفقت سے انہوں نے ہمیں ہدایات دیں، ان کا لہجہ وہ خلوص ابھی تک میری سماعتوں میں ٹھہرا ہوا ہے۔ میں ان کی ہدایات پر عمل کرتی گئی۔ مجھے نہیں پتہ آما اپنی آپی کو غسل دیتی ہوئی کیا سوچ رہی تھیں۔ رضیہ ممانی کیا سوچ رہی تھیں۔ میں بس امی کے پاوں کو غور سے دیکھتی تھی بار بار میری نظر پڑ جاتی۔ انگوٹھا انگلیوں سے قدرے الگ سا ہو گیا تھا۔

امی نے کبھی ذاتی خدمت نہیں کروائی۔ کبھی نہیں کہا پاوں دبا دو۔ لیکن جس دن میں انہیں غسل دے رہی تھی اس سے ٹھیک تین دن پہلے میں ان کے گھر میں تھی جب انہوں نے کہا۔ مونو میری کمر کے پٹھے اکڑ سے گئے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ میری طرف کمر کر کے بیٹھ گئی تھیں۔ میں نے بڑے شوق اور پیار سے ان کو دبانا شروع کیا۔ پھر کہنے لگیں۔ بال سمیٹ دو کیچر لگا دو۔ میں نے لگایا تو کہنے لگیں۔ "سی۔۔۔۔ " پھر خود ہی دوبارہ لگایا تھوڑا ڈھیلا کر کے۔ اس وقت کیا ذہن میں آ سکتا تھا تین دن بعد جب یہی بال جب گیلے ہوں گے اور سمیٹ کر دونوں طرف رکھ دوں گی تو کچھ بھی نہیں کہیں گی۔
خیر۔ میں بتا رہی تھی کہ میں اس دن غسل دیتے ہوئے پتہ نہیں کیسے اتنی بہادر ہو گئی تھی۔ اب جبکہ پانچ سال ہو چکے ہیں اور مجھے زندگی کی تھوڑی بہت سمجھ آ گئی ہے تو وہ منگل کا دن، امی کو غسل دینا، ان کو باقی سب کے ساتھ اٹھا کر میت والے لکڑی کے تابوت میں رکھنا۔۔ یہ سب لمحات جیسے امر سے ہو گئے ہیں۔ اور مجھے ہر سال مزید توڑ دیتے ہیں۔ اس دن بہت صبر سے بہادری سے سب کچھ کر تو لیا تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرا، اپنے ہاتھوں کو غور سے دیکھتی تھی کہ کیا واقعی یہ سب میں نے کیا ہے۔میں اتنی بہادر کیسے ہو گئی تھی۔ وہ دن وہ وقت میرے اندر امر ہوتا جاتا ہے میرے دل کو مزید توڑتا جاتا ہے اور جب بھی نو اپریل آنے لگتا ہے مجھے ڈر لگتا ہے میرے پورے ایک سال کے رہے ہوئے آنسو جب ایک ساتھ نکلیں گے تو میرے بچے کیا سوچیں گے اور میں کیا بہانہ بناوں گی۔
جو باتیں پی گیا تھا میں وہ باتیں کھا گئیں مجھ کو