ایک دن کا مدیر



"کیا ہوا؟" 
میں نے ظہیر کو سر پکڑے دیکھا تو پوچھ بیٹھا۔ وہ بے چارہ اپنے ہاتھوں لائی شامت کے زیراثر "ایک دن کا مدیر" بن چکا تھا۔ اس وقت ہم تین سے آٹھ سال تک کے بچوں کے ایک مشہور ماہنامے کے دفتر میں موجود تھے۔  مدیر اعلی کا عہدہ دراصل تنویر صاحب کے پاس تھا۔
"آج تنویر ماموں نہیں آئیں گے۔ انہیں لاہور سے باہر جانا پڑ گیا ہے۔" ظہیر نے اندر آتے ہی اعلان کیا۔ 
"پھر؟" میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

"چنانچہ! ان کی جگہ۔۔۔۔ میں ان کی کرسی پر بیٹھوں گا اور۔۔ آج کے دن کا مدیر بھی۔۔۔۔۔۔ میں ہی ہوں گا۔" ظہیر نے سیاست دانوں کی طرح کمرے میں چاروں طرف دیکھتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر اعلان کیا حالانکہ وہاں صرف میرے اور خود اس کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔ پھر وہ دھپ سے تنویر صاحب کی گھومنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ 
میں ابھی تک اسے مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ میرے تاثرات دیکھ کر اس نے وضاحت کی۔
"میں نے ماموں سے فون پر اجازت لے لی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ساجد سے مشورہ کر کے ہی تحریر کو فائنل کیا جائے۔" 
"آں ہاں! ٹھیک ٹھیک!"اپنا نام سن کر مجھے تھوڑا فخر محسوس ہوا اور میں پوری طرح مفت کے مشورے دینے کے لیے تیار ہو گیا۔ یہ اور بات ہے تنویر صاحب نے آج تک میرے مشوروں کو گھاس نہ ڈالی تھی۔ لیکن یہ تو ظہیر تھا میرا لنگوٹیا یار، گاڑیوں کے ایک چھوٹے سے شوروم کا مالک اور ادب کی دنیا سے بالکل ناآشنا۔ مجال ہے جو کبھی اس نے کبھی کسی ادبی رسالے کو اٹھا کر دیکھا بھی ہو، پڑھنا تو دور کی بات۔ اب ایسے بندے کو مشورہ دینا تو فرص بنتا تھا۔ 
میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ میری نظر ظہیر پر پڑی۔
وہ ایک تحریر سامنے رکھ کر سر پکڑے بیٹھا تھا۔  
"کیا ہوا؟" 
"ہونا کیا ہے؟ یہ تحریر پڑھو۔ بھلا اتنے مشکل الفاظ والی کہانی میرا چار سالہ حاشر کیسے سمجھ سکتا ہے؟ میں نے سوچا تھا کہ یہ کہانی اس کو سناوں گا لیکن۔۔ " 
میں نے کاغذات اس کے ہاتھ سے لے کر ایک  نظر دوڑائی۔ 
"امی جان نے اکبر کو نہایت مخلصانہ سے نوازا۔ اکبر نے اس مشورہ کو حکم کا درجہ دیا اور فورا ہی ابو جان کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔
پیارے ابو جان! مجھے معاف کر دیں۔ آئیندہ میں آپ کی تکریم و تعظیم میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔" 
یوں ہی وہ پوری تحریر "معینہ مدت"، "پرزور احتجاج"، "شکستہ دلی" اور "دل نشین گفتگو" جیسے بھاری بھاری الفاظ سے بھری پڑی تھی۔
"پھر یہ سیما کی سمجھ نہیں آئی۔ کہانی کے شروع میں محترمہ ننھی منی پانچ سال کی بتائی گئی ہیں، کہانی کے آخر میں سچ بولنے پر اپنے تین سال کے بھائی کو لیکچر دے رہی ہیں جس میں احادیث بمع حوالہ جات کے بیان کر رہی ہیں۔"
"ظہیر نے الجھتے ہوئے کہا تو میں ہنس پڑا۔ 
"چھوڑو! تمھاری سمجھ سے باہر ہے یہ کام۔ چلو کچھ اور۔۔۔"
"جی نہیں! مجھے تنویر ماموں نے خصوصی طور پر آج کے دن کا مدیر بنایا ہے۔ میں تو اچھی اچھی تحریریں چھانٹ کر رہوں گا۔" ظہیر نے پرعزم لہجےمیں کہا اور پھر برکت سے مخاطب ہوا۔
"دیکھو لڑکے! اب ذرا دھیان سے ہاتھ مارو اور بسم اللہ پڑھ کر نکالنا۔" 
برکت نے پہلے تو پیلے پیلے دانت نکال کر ظہیر کی حالت کا مزہ لیا جیسے کہہ رہا ہو۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا۔ جس کا کام اسی کو ساجھے اور کرے تو ٹھینگا باجے!
پھر اس نے اپنا پورا بازو بوری میں ڈال کر ایک عدد نظم برآمد کی۔ کاغذ کھلنے کی دیر تھی لکھائی دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ ظہیر کے چہرے پر بھی رونق آگئی جو تھوڑی ہی دیر بعد مردنی میں بدل گئی۔ 
پہلے اس نے کاغذ آنکھوں کے قریب لا کر شاعر کے نام کو غور سے دیکھا پھر آہستگی سے پوچھنے لگا۔
" یہ اسماعیل میرٹھی کا دوسرا نام شہیر سینائی تھا؟" 
"نن۔۔ نہیں تو!" میں جو آج چھٹی کر کے ساحل سمندر جانے کا پروگرام سوچ رہا تھا، گڑبڑا سا گیا۔ 
"تو پھر یہ صاحب ان کا دوسرا جنم ہیں شاید۔" ظہیر نے اتنے پریقین لہجے میں کہا کہ مجھے ہنسی آگئی۔
"دیکھو میرے دوست! اول تو ہم دوسرے تیسرے جنموں کے قائل نہیں۔ بالفرض اگر کسی نے ان کی نظم اپنے نام سے بھیجی بھی ہے تو۔۔  " 
"تو کیا؟"
"تو ۔۔۔۔ ایک نام کے دو بندے بھی تو ہو سکتے ہیں۔۔ یا پھر ایک ہی بات دو انسان سوچ سکتے ہیں۔۔ یا ایک جیسا خیال۔۔"
"تم یہ نقل خوروں کی مشہور زمانہ تاویلات اپنے پاس رکھو۔ خدایا! یہ زبان زد عام نظم کس کو یاد نہیں! کس دھڑلے سے پوری نظم کاپی کر لی بس نام کاپی پیسٹ کرنا بھول گئے یہ شہیر سینائی صاحب۔"
ظہیر نے خوبصورت لکھائی والی نظم گولا بنا کر ٹوکری میں ڈالتے ہوئے کہا۔
"ویسے ایک بات پوچھوں!" میں نے کہا۔
"کیا؟" ظہیر نے مجھے گھورتے ہوئے پوچھا۔ 
"اگر تم ایسے ہی ہر تحریر کو ردی کی ٹوکری کی زینت بناتے رہے تو میں کیا کمپوز کروں گا؟" میں نے برکت کا بازو بوری کے اندر جاتے دیکھ کر ظہیر سے پوچھا۔ 
میرے سامنے جانے کب سے ان پیج کی سکرین کھلی پڑی تھی۔ کہانیاں نظمیں مضامین کمپوز کرنا میرا کام تھا لیکن میں سوچ رہا تھا کہ کیوں نہ میں بھی چھٹی کر لوں۔ 
"ہاہ! یہ ہوئی ناں بات۔ یہ دیکھو! آخر میں نے کہانی بر آمد کر ہی لی۔" 
میں نے آگے بڑھ کر جلدی جلدی نظر دوڑائی۔ وہی گھسی پٹی سی کہانی تھی کہ ایک بچہ اپنے معذور پڑوسی کی نقل اتارتا تھا لیکن پھر اس کے بڑے بھائی نے اسے سمجھایا۔ سمجھایا کیا کہ اقوال زریں کا ایک پورا مجموعہ فرفر زبانی سنایا۔ اس ڈیڑھ صفحے کے پرمغز لیکچر کو سنتے ہی بچہ اپنی اس بری عادت سے زندگی بھر کے لیے توبہ تائب ہو گیا۔ 
"مدیر صاحب! بلا شبہ لکھاری نے بڑی محنت کی ہے۔۔ سنہری نصائح کو گوگل کر کے پوری احتیاط سے صفحے پر اتارا ہے لیکن۔۔"
میں کہتے کہتے رک گیا۔
"لیکن کیا۔ ایک تو تم ہر بات کے بیچ یوں رک کیوں جاتے ہو؟"
"لیکن۔۔ وہ اس ساری تحریر میں کہانی ڈالنا بھول گئے ہیں۔ میرے بھائی! کہانی حادثات و واقعات کا نام ہے۔"
"آں ہاں۔۔۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔"ظہیر نے یہ کہہ کر تحریر کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا۔
"میں بھی کہوں وہ بچے کہاں سے ملتے ہیں جو صرف ایک لیکچر سن کر شرارتوں سے باز آجاتے ہیں۔" 
"وہ بچے۔۔ کہانیوں میں ملتے ہیں۔" 
میں نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ 
"آہا! دیکھو! اب کی بار تم رخنہ مت ڈالنا۔ یہ کہانی میری پسندیدہ ہے اور میں اسے شائع کر کے رہوں گا۔" ظہیر نے یہ کہہ کر ایک مڑا تڑا سا صفحہ میری آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ میں نے غور سے دیکھا۔ کہانی بمشکل آدھ صفحے کی تھی۔ 
"پسندیدہ مطلب؟ تم نے یہ پہلے سے پڑھ رکھی ہے؟" 
"ہاں تو اور کیا! کیا کوئی ہو گا جس نے پیاسے کوے کی کہانی نہ پڑھ رکھی ہو۔" 
میں اسے بے طرح گھور کر رہ گیا۔ میرے گھورنے کی تاب نہ لا کر اس نے جھک کر وہ تحریر بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دی۔ 
"ہاں تو اب!" ظہیر نے کہا اور دونوں بازو میز پر ٹکا کر کہنے لگا۔ "اب میں اپنے ہاتھ سے بوری میں سے تحریر نکالوں گا۔ مجھے شک ہے یہ لڑکا برکت صرف نام کا برکت ہے  اسی لیے اس کے ہاتھوں سے ایسی پھسپھسی تحریریں بر آمد ہو رہی ہیں۔"
یہ اعلان کرنے کے بعد ظہیر نے بذات خود ڈاک کی بوری میں ایک تحریر برآمد کی۔ 
"واہ! واہ! کیا کہانی ہے! بھئی واہ! زبردست! ایکشن اور سسپنس سے بھرپور!" 
"ارے! کیا اشتیاق احمد صاحب کا ناول نکل آیا؟" 
یہ سوچ کر میں نے جلدی سے آگے جھک کر تحریر پر نظر دوڑائی اور میرا منہ بن گیا۔ "دیکھو جی! اب تم روڑے مت اٹکانا۔ یہ کہانی مجھے بہت پسند آئی ہے اور۔۔ " ظہیر نے کہنے کی کوشش کی لیکن میں نے اس کی بات کاٹ دی۔
"اور یہ کہ اگر اس کو پڑھنے کے بعد بچوں نے خوابوں ڈرنا شروع کر دیا، نیند کے دوران یہ "جونا جن"  اور "کالی چڑیل" نامی کردار سے ڈر کر چیخنا چلانا شروع کر دیا تو ہماری ذمہ داری نہیں ہو گی۔ اور جیم جادوگر کے بچوں پر ٹارچر والے پیراگراف کی تو کیا ہی بات ہے۔ مطلب تمھارا دل کیا کہتا ہے کہ یہ انتہائی تکلیف دہ منظر کشی والے الفاظ ننھے بچوں پر کیا اثر کریں گے یا انہیں کیا سکھائیں گے؟" 
میں کہتا چلا گیا۔ 
"میرے بھائی! معصوم بچوں کو ہم تفریح کے طور پر پڑھنے کے لیے کیا دے رہے ہیں؟ اور ہمارا پیش کردہ ادب ان کے کچے اذہان پر کیا نقوش چھوڑ رہا ہے؟  یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری اور پورے دل و دماغ سے سوچنے کی بات ہے۔"
ظہیر خاموشی سے میری بات سنتا رہا۔ پھر اس نے آہستگی سے وہ تحریر بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دی۔ 
دروازے پر دستک ہوئی تو ہم دونوں جو اپنی اپنی سوچوں میں گم بیٹھے ہوئے تھے، چونک پڑے۔
"سر! یہ اشتہار چھپنے کے لیے آیا ہے۔ پلیز  ذرا جلدی سے ٹیکسٹ کمپوز کر کے بھیجیں۔ انہیں سیمپل بھیجنا ہے۔" یہ راشد تھا جو شعبہ اشتہارات سے آیا تھا۔ 
"آں ہاں! ٹھیک ہے تم جاو۔۔۔ پر۔۔۔ہیں؟ کیا؟ یہ۔۔ یہ اشتہار۔۔۔ بچوں کے رسالے میں لگے گا؟" 
"جی سر۔ پلیز ذرا جلدی بنا دیں۔" راشد بہت جلدی میں لگتا تھا سو چلا گیا۔ 
"ہر قسم کی مردانہ، زنانہ کمزوری، خصوصا پرانی بادی خونی بواسیر کا شرطیہ علاج۔ حکیم ملک سنہاڑا بٹ مدظلہ علیہ۔ رابطہ کے لیے کال یا واٹس ایپ کریں۔۔ "
ظہیر کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر مجھے اس پر ترس سا آنے لگا۔
" چھوڑو۔ تم ایسا کرو اداریہ لکھ دو۔ آخر کار تم مدیر جو ہو۔۔ ایک دن کے ہی سہی!" یہ بات میں نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہہ تھی۔ 
واقعی وہ خوش ہو گیا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
"صحیح کہا تم نے۔ ایہمم! وہ والا سنہری قلم نکالنا ذرا!"اس نے میز کے کنارے پر رکھے قلمدان کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے سنہری قلم نکال کر اسے پکڑا دیا۔ 
اس نے خالی صفحہ لیا اور بار بار اپنے دستخط کرنے لگا۔
"یہ کیا کر رہے ہو؟" میں نے حیرانی سے کہا۔
"وہ۔۔ میں دستخط ذرا پکے کر رہا ہوں۔ اشتیاق احمد بھی اپنی دو باتوں کے نیچے خوبصورت سا دستخط کرتے تھے۔"
"ہاں ہاں ٹھیک ہے۔" 
یہ کہہ کر میں نے موبائل نکالا اور واٹس ایپ میں گم ہو گیا۔
"ہاہ! دیکھو! کیسا لکھا ہے میں نے؟"
میں نے صفحہ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ لکھا تھا۔
"پیارے بچو! کیسے ہیں آپ۔ امید ہے خیریت سے ہوں گے۔ رسالہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جلدی جلدی پڑھیں۔ کیا کہا؟ نہین پڑھ سکتے کیونکہ آپ شمالی علاقہ جات کی سیر کے لیے نکل رہے ہیں؟ یہ تو اچھی بات ہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہے۔ یعنی سفر کرنے سے کامیابی ملتی ہے۔ اچھا سفر کرنے کے لیے اچھی سواری کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ گھوڑے اونٹوں اور خچروں پر سفر کیا کرتے تھے۔ یہ سفر تکلیف دہ اور تھکادینے والا ہوتا تھا۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ سواریاں بھی پہلے سے آرام دہ اور پرسکون ہو گئی ہیں۔ آرام دہ سے یاد آیا۔ وہ جو نئی گاڑی آئی ہے ٹیوٹا یارث۔ واہ واہ! کیا خوب گاڑی بنائی ہے  چاپانیوں نے۔ یہ تیرتی ہوئی جاتی ہے سڑک پر۔ ویسے نہایت آسان قسطوں پر یہ گاڑی آپ میرے شوروم سے حاصل کر سکتے ہیں۔ 
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ پرانے زمانے میں سفر کرنے میں کئی کئی دن اور ہفتے لگ جاتے تھے۔ اب سفر بہت تیز اور آسان ہو گیا ہے۔۔تیز سے یاد آیا نسان جی ٹی آر بھی میرے شوروم میں کھڑی ہے۔ بھئی واہ! آپ موٹر وے کے سرے پر لے کر نکلیں اور پتہ ہی نہ لگے کب دوسرے سرے پر جا پہنچیں۔ ایسی تیز رفتار گاڑی ہی کی تو سب بچے خواہش کرتے ہیں۔
دیکھیں ذرا! باتوں باتوں میں بھول ہی گیا۔ اگر کبھی آپ رسالہ خریدنے اردو بازار کی جانب تشریف لائیں تو نیلی عمارت بائیں جانب ظہیر اینڈ کو شوروم ضرور وزٹ کریں۔ یہ گاڑیوں کا بہت زبردست شوروم ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک گاڑی یہاں دستیاب ہے بمع سپئیر پارٹس کے۔ ہاں ہونڈا کے کچھ سپئیر پارٹس ہم باہر سے منگواتے ہیں۔ 
تو ایڈریس ہے۔ 
ظہیر اینڈ کو شوروم ۔ 123۔ مین ٹی ٹی روڈ۔  لاہور۔" 
نیچے آنجناب نے نہایت عاجزی کے ساتھ "ظہیر  گاڑیوں والا" کے نام سے دستخط کر رکھے تھے۔ 
 "یہ کیا ہے؟" میں نے غصے سے پوچھا۔
"یہ۔۔ اداریہ ہے۔" میرا انداز دیکھ کر وہ ذرا سا ہکلایا۔
"یہ اداریہ ہے یا ظہیر شوروم کا اشتہار؟"
"میں تو بس باتوں میں ذکر کر گیا۔ ویسے تو مین اداریہ ہی لکھ رہا تھا۔"
"ہاں بالکل۔ باتوں میں ذکر کرتے کرتے ٹویوٹا یارث سے شروع ہوا اور ہونڈا کے سپئیر پارٹس پر آکر رکا۔" میں نے طنزیہ انداز میں کہا۔ پھر وہ صفحہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
"اداریہ آپ کے پاس رسالے کی امانت ہے۔ آپ نے اسے پوری ایمان داری سے لکھنا ہوتا ہے۔ یعنی صرف رسالے سے متعلق باتیں۔ اس میں ذاتی کاروبار کا ذکر و تشہیر حد درجے کی بے ایمانی اور خیانت نہیں تو اور کیا ہے۔" میں سنجیدگی سے کہتا چلا گیا۔ 
اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔
"ہیلو! کیا! جی۔۔ٹھیک ہے۔" ظہیر نے تھکے تھکے انداز میں فون سن کر واپس رکھا۔
"کس کا فون تھا؟"
"ماموں آرہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کام ختم ہو گیا ہے۔ ساجد سے کہو تمام کام کی تحریرں نکال کر میز پر رکھے اور کمپوزنگ شروع کرے۔" 
"اوہ! چلو تمھاری تو چھٹی ہوئی۔" میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ہاں!" اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔ 
"بھئی یہ کام میرے بس سے باہر ہے۔ برکت! چائے ۔۔ دو کپ!" 
یہ کہہ کر ظہیر کرسی سے اٹھ گیا۔
میں نے ردی کی ٹوکری سے کاغذ باہر نکال نکال کر رکھنے شروع کیے۔ 
ظہیر جو اب صوفے پر نیم دراز تھا، حیرانی سے کہنے گا۔
"یہ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو؟" 
"کام کی تحریریں نکال رہا ہوں۔ یاد نہیں تنویر صاحب نے کیا کہا ہے۔" 
وہ بھونچکا ہی رہ گیا۔ ء
"لیکن۔۔ یہ تو۔۔ سب بے کار تھیں۔" 
"بھئی! یہ مشکل الفاظ والی تحریر پتہ بھی ہے کہ کس کی ہے؟ معروف ترین لکھاری ا۔ع کی۔ کبھی کبھار ہی کہانی بھیجتی ہیں ہمارے رسالے کو۔ ان کے نام۔۔ سوری ان کی کہانی سے ہمارے رسالے کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اب انہیں ناراض تو نہیں کر سکتے۔"
"لیکن یہ کہانی بچوں کی سمجھ میں نہیں آنے کی۔" ظہیر نے منہ بنا کر کہا۔
"بھئی یہ بچوں کا مسئلہ ہے ہمارا نہیں۔" میں نے ناک پر سے مکھی اڑائی اور کاغذ کی سلوٹیں درست کرنے کے بعد اسے فائل میں لگا دیا۔
پھر میں نے شہیر سینائی کی نقل شدہ نظم والا صفحہ نکالا۔ جلدی جلدی اس کے تین چار مصرعے بے وزن کر دیے۔ کچھ لفظ تبدیل کیے اور کچھ پورے جملے۔ 
میری اس ساری کاروائی کو ظہیر نہایت ہی طنزیہ نگاہوں سے دیکھتا رہا۔ پھر میں نے وہ نظم جو ایک بے وزن سا ملغوبہ بن چکی تھی، فائل میں لگاتے ہوئے اعلان کیا۔
"یہ شہیر سینائی صاحب دراصل تنویر صاحب کے گہرے دوست کے لاڈلے سپوت ہیں اور۔۔ " میں مسکرایا۔ "ظاہری بات ہے دوست ہی آخر دوست کے کام آتا ہے۔" 
"ہمم! کچھ اور بھی ارشاد فرمائیے صاحب! لطف آرہا ہے آپ کی باتوں سے۔" ظہیر نے سنبھل کر بیٹھتے ہوئے ٹھیٹھ لکھنوی انداز میں کہا۔
"بس جناب! عرض یہ کہ وہ پھسپھسی سی معذور بچے والی کہانی کے مصنف ہیں س۔ع۔ ز۔ اور آنجناب کی دو کتابیں ہمارا ہی ذیلی ادارہ چھاپ چکا ہے اور۔۔۔" 
"اور اگر آپ ان کی کہانی رد کریں گے تو ان کی کتاب کیسے چھپے گی اور کتاب چھاپنے کے نام پر آپ ان سے لاکھوں روپے کیونکر وصول کر پائیں گے؟ یہی بات ہے ناں!"
"جی جی بالکل! آپ ٹھیک سمجھے!" میں پوری ڈھٹائی سے ہنسا۔ 
"اچھا دیکھ بھائی! وہ پیاسا کوا والی کو تو بخش دے۔" ظہیر اب اٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔ 
"ارے بھئی! یہ مشہور زمانہ کہانی بھیجنے کا اعزاز حاصل کیا ہے محترم ر۔ف۔ج نے۔ جو ہمارے رسالے کو اشتہار دلانے میں سب سے بڑے معاون ہیں۔ رہا مسئلہ کہانی کا تو آپ کی یہ کہانی ہم اصلاح کے نام یکسر بدل دیں گے۔ وہ ایسے کہ پیاسا کوا سٹرا لے کر آئے گا، پانی میں ٹینگ کا ساشا اور دو چٹکی نمک ڈالے گا پھر غٹا غٹ پی کر "ٹینگ ہے تو ٹیسٹ ہے" کا نعرہ لگاتا ہوا اڑجائے گا۔" 
"واہ بھئی! کیا تخلیقی ذہن پایا ہے!" ظہیر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ 
"اور وہ جیم جادوگر اور جونی جن والی کہانی تو رہ ہی گئی۔" اچانک اسے یاد آیا۔
"بالکل! وہ یہ رہی۔" میں نے مڑے تڑے کاغذ سیدھے کر کے میز پر رکھے۔ 
"یہ کہانی ہے ہمارے ہر دلعزیز مصنف ج۔ک۔ن کی جن کی ایسی ہی اوٹ پٹانگ کہانیوں کی سیریز کئی سال سے ہمارے رسالے میں چل رہی ہے۔ اور تم کیا جانو بے ادب لوگو! رسالے کے لیے قسط وار ناول کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔"
"لیکن یہ جن۔۔ چڑیل۔۔ وہ بچے ان کا ذہن ۔۔اثر۔۔"
 ظہیر نے میرے ہی الفاظ دہرانے کی ناکام کوشش کی۔
"یہ بچوں کا پرابلم ہے۔ ہمارا تو نہیں۔ ویسے بھی۔۔۔" میں نے تمام کی تمام "کام کی تحریریں" اکھٹی کر کے فائل میں جوڑیں اور کرسی پر سے اٹھتے ہوئے کہا۔ "ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے رسالے کے زریعے ہمارے پیٹ میں کیا جائے گا۔ بچوں کے ذہنوں میں ہمارے رسالے کے ذریعے کیا جائے گا، یہ ہمارا مسئلہ کبھی رہا ہی نہیں۔" 
"اور وہ اداریہ!" ظہیر نے تمسخر اڑاتی نظروں سے مجھے دیکھا۔ میں نے ذرا بھی اثر لیے بغیر اطلاعا عرض کی۔
"ہاں وہ اداریہ بے کار ہے کیونکہ تنویر صاحب پہلے ہی ایک اداریہ لکھ چکے ہیں اپنی نئی آنے والی کتاب"چاند، سمندر اور جوار بھاٹا" اور وہ ظہیر اینڈ کو شوروم کی جگہ اس کتاب کی پبلسٹی کو زیادہ مناسب خیال کریں گے۔" 
"اچھا! میں چلتا ہوں۔ آج کا دن تو۔میرا بےکار ہی گیا۔"
"وہ اشتہار کا تو تم نے پوچھا ہی نہیں!" میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ہاں ہاں وہ بھی لگانا ہی ہو گا تم لوگوں نے!" ظہیر نے جلدی سے کہا۔
"بالکل! اب اپنے پرانے بزنس پارٹنر کو ناراض تو نہی  کر سکتے۔"
"تم کسی کو ناراض نہیں کر سکتے۔ ہاں ایک بات میں شرطیہ کہتا ہوں۔" ظہیر نے دروازے کے پاس رک کر سارے آفس پر ایک نظر ڈالی۔
"تم بے شک سب کو راضی اور خوش رکھو لیکن بچے تم سے ناراض ہیں اور معاشرہ تمھیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔" 
ظہیر نے یہ کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا آفس سے نکل گیا۔ میں نہ جانے کب تک تحریروں والی فائل تھامے ساکت کھڑا رہتا اگر تنویر صاحب کی رعب دار آواز مجھے چونکا نہ دیتی۔
"ہاں بھئی! سب کام کی تحریریں چھانٹ لی ہیں کیا؟"
"جی سر! یہ رہیں!" میں نے جھک کر فائل ان کے سامنے رکھی۔ جھک کر اس لیے کہ میری روزی روٹی کا بندوبست بھی تو اسی میز سے وابستہ تھا۔ 
اور سچ ہی کہا تھا ظہیر نے کہ معاشرہ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ جو آج ہم  بچوں کے اذہان میں انڈیل رہے ہیں کل کو وہ خود ہمارے لیے مصیبت اور آزمائش بن کر سامنے آجائے گا۔ پھر ہم کیا کریں گے کہاں جائیں گے اور کہاں منہ چھپائیں گے، یہ وقت ہی بتائے گا۔