میرے سوہنے موہنے بچو! بھالو میاں آج کل کچھ پریشان سے تھے۔
ابھی صبح کی بات ہے جب انہوں نے اپنی دکان کھولی تو انہیں معلوم ہوا۔ شوکیس اور
الماریوں کی چابیاں تو وہ اپنے گھر ہی بھول آئے ہیں۔ گاہکوں کی ایک لمبی قطار شہد
اور شہد سے بنی ہوئی مٹھائیاں لینے قطار میں کھڑی تھی۔ اس قطار میں تین چڑیاں چار
بندر ایک زیبرا اور دو گلہریاں تھیں۔
"پیارے
ساتھیو! آپ کچھ دیر اور انتظار کریں۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ میں الماریوں کی
چابیاں گھر بھول آیا ہوں۔ بس دس منٹ کی بات ہے میں ابھی گیا اور ابھی آیا۔"
بھالو میاں نے کہا اور اپنے گھر چلے گئے۔ جلد ہی وہ دوبارہ دکان
پر موجود تھے۔
جب آخری گلہری کی باری آئی جس کا نام گل گل تھا، تو بھالو میاں
نے پوچھا۔
"جی
بہن! آپ کو کیا چاہیئے؟"
گل گل گلہری بولی۔"بھالو انکل! مجھے شہد کی ایک چھوٹی بوتل
دے دیں۔ ویسے میں پوچھنا چاہ رہی تھی کہ آپ اتنے اداس اور پریشان کیوں ہیں؟"
بھالو میاں نے کچھ سوچا اور پھر شہد کی بوتل گلہری کو پکڑاتے
ہوئے بولے۔
"بس
ایسے ہی۔ رمضان آرہا ہے ناں تو میں سوچ رہا تھا کہ میرے ٹیڈی کا کیا بنے گا؟"
"کیا
مطلب؟ بھالو انکل! میں سمجھی نہیں!"
لیکن اس سے پہلے کہ بھالو میاں کوئی جواب دیتے، باہر سے آواز
آئی۔
"ٹھک
ٹھک ٹھک!"
یہ زوزو زرافہ تھا جو اپنی لمبی گردن اور اونچے قد کی وجہ سے
دکان کے اندر نہیں آ سکتا تھا۔ اس لیے وہ باہر کھڑا رہ کر دکان کے بورڈ پر اپنی
ناک سے دستک دیتا۔
"لو
جی! آپ کا گہرا دوست آ گیا ہے۔ میں چلی!"
گل گل گلہری نے کہا۔ پھر اس نے بوتل کو اپنے ساتھ لائے تھیلے
میں ڈالا اور کندھے پر رکھ کر چل دی۔ وہ جانتی تھی اب بھالو انکل اس سے زیادہ بات
نہیں کر سکیں گے کیونکہ زوزو زرافہ ان کا گہرا دوست تھا۔ وہ اس کے ساتھ گپ شپ میں
مصروف ہو جائیں گے۔
"باتونی
زرافہ! اس کو بھی ابھی آنا تھا۔ پتہ نہیں بھالو انکل کس بات کی وجہ سے پریشان
ہیں۔۔"
گل گل گلہری یہی سوچتی ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں
لگاتی اپنے گھر کی طرف چلی جا رہی تھی۔
راستے میں اس نے دیکھا۔ بھالو انکل کا بیٹا ٹیڈی بئیر اپنے گھر
کے باہر ایک چھوٹی سی کرسی پر بیٹھا تھا۔
سبھی جانتے تھے کہ ٹیڈی بئیر سکول نہیں جاتا تھا۔ اس لیے نہیں
کہ وہ پڑھنا نہیں چاہتا تھا، بلکہ اس لیے کہ وہ سکول جانے اور آنے میں اور وہاں
بچوں کے ساتھ کھیل کود کر کے بہت کمزوری محسوس کرتا تھا۔ وہ زیادہ بھاگ نہیں پاتا
تھا نہ ہی دوسرے بھالووں کی طرح ایک ٹانگ پر چل کر سب کو ہنسا سکتا تھا۔ پکڑن
پکڑائی کھیلنے سے اس کا سانس بری طرح پھول جاتا اور بستے کا بوجھ اٹھا کر اس کی
کمر بہت زیادہ درد کرتی۔
بس ٹیڈی بئیر کے ماما بابا نے سوچا کہ وہ اسے گھر پر پڑھا دیا
کریں گے۔
لیکن ٹیڈی بئیر عام بھالو نہیں تھا۔ اسے ہر بیس دن بعد تازہ خون
لگایا جاتا تھا۔ مہینے کے آخر میں وہ بابا بھالو کی انگلی پکڑے ڈاکٹر زیبرے کے
ہسپتال میں آتا اور ایک بستر پر لیٹ جاتا۔ ڈاکٹر اس کے ہاتھ پر موٹی سی سوئی لگاتے
جس کے ذریعے اس کے جسم میں تازہ خون لگایا جاتا تھا۔
یہ سب کچھ ٹیڈی بئیر کے لیے کوئی آسان نہیں تھا لیکن جیسا کہ
میں نے آپ کو بتایا میرے بچو! کہ ہمارا ٹیڈی کوئی عام بھالو نہیں تھا بلکہ وہ ایک
بہادر اور نڈر بھالو تھا۔ وہ اس بیماری کا ایک فائٹر کی طرح سے مقابلہ کر رہا تھا
اور جنگل کے سبھی جانور حیران ہوتے تھے کہ ٹیڈی بئیر اتنا اچھا اور بہادر کیونکر
ہے!
"لیکن
بھالو انکل کی پریشانی کا رمضان کے مہینے سے کیا تعلق؟"
گل گل گلہری نے گھر پہنچ اپنی سہیلی سے بات کی تو اس نے حیرانی
سے پوچھا۔
"حالانکہ
رمضان میں تو بھالو میاں کی دکان پر خوب رش ہوتی ہے اور ان کی بنائی ہوئی مٹھائیاں
خوب بکتی ہیں۔"
گل گل نے بھی سوچتے ہوئے کہا۔
"چلو
بھالو انکل سے لازمی پوچھ لوں گی کل!"
یہ کہہ کر گل گل گلہری نے اپنی سہیلی کو خداحافظ کہا اور دروازہ
بند کر کے کچن میں آ گئی۔
"تم
پریشان نہ ہو بھالو! میں جنگل کے سبھی جانوروں کو یہ خط دے کر آتا ہوں۔ انشاءاللہ
کوئی نہ کوئی انتظام ہو جائے گا۔"
زرافے میاں نے کہا تو بھالو میاں مسکرانے لگے۔ زوزو زرافے
نے بہت سارے خطوں والا تھیلا اپنی گردن میں لٹکایا اور بھالو میاں کو کان ہلا ہلا
کر خدا حافظ کہا۔
بچو! خطوں کے تھیلے میں اگرچہ خط تو بہت سارے تھے لیکن وہ سب کے
سب ایک ہی مضمون کے تھے۔ یعنی ان سب میں ایک جیسی بات لکھی ہوئی تھی۔ وہ یہ
تھی:
"پیارے
ساتھیو! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میرے ٹیڈی بئیر کو ہر ماہ کے آخر میں نیا خون
لگتا ہے اور آپ جیسے بہت سارے دوست میری مدد کرتے ہیں لیکن اب رمضان آ گیا ہے۔
میرے کئی دوست تو یہ مہینہ گزارنے دوسرے شہر چلے گئے ہیں اور بہت سارے ساتھی روزے
کی وجہ سے خون نہیں دیتے۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس مہینے میں بھی خون کا
عطیہ کرنے ضرور ڈاکٹر زیبرے کے ہسپتال میں تشریف لائیے۔ کیونکہ میں اور میرے
جیسے دوسرے بہت سے بھالو اپنے بچوں کے لیے پریشان ہیں۔ آپ کا شکریہ!
شہد والے بھالو میاں
آم کا درخت ۔ دکان نمبر دو
"
گل گل گلہری گھر کی تفصیلی صفائی کر کے فارغ ہوئی ہی تھی کہ ٹھک
کی آواز کے ساتھ ایک خط اس کے صحن میں آگرا۔ اس نے جلدی سے کھول کر پڑھا تو اس کو
ساری بات سمجھ آ گئی۔ اب وہ جان گئی تھی کہ بھالو میاں کیوں پریشان تھے۔
میرے بچو! رمضان کا مہینہ آچکا ہے لیکن اب اگر آپ بھالو میاں کی
دکان کا دروازہ کھولیں تو وہ آپ کو خوش خوش اور مسکراتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ان کے
پیارے ٹیڈی بئیر کے لیے بہت سارے جانوروں نے خون کا عطیہ جمع کروا دیا ہے۔ بھالو
میاں نے اسی خوشی میں عید پر مفت مٹھائی تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگر آپ جنگل
کے پاس سے گزریں تو آپ کو تازہ شہد سے بنی ہوئی مٹھائیوں کی خوشبو ضرور آئے گی جو
بھالو میاں ہر آنے والے گاہک کو اپنے ہاتھ سے پیک کر کے دے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پیارے بچو! اگر آپ کے اردگرد کوئی ایسا بچہ ہے جو ٹیڈی
بئیر کی طرح بہادر اور نڈر تھیلیسیمیا فائٹر ہے تو اس کو میری طرف سے بہت سارا
پیار اور دعائیں پہنچائیں۔ یہ ننھا فائٹر آپ کی طرف سے خون کے تحفے کا انتظار کرتا
رہتا ہے۔ امید ہے رمضان کے مہینے میں بھی ہر ماہ کی طرح آپ اسے زیادہ انتظار نہیں
کروائیں گے اور جب بھی وہ کمزوری محسوس کرنے لگے آپ کی طرف سے ملا ہوا تازہ خون اس
کی رگوں میں دوڑ کر اسے توانائی پہنچائے گا۔ روزے کی وجہ سے کمزوری ہو جاتی ہے اور
خون کے عطیات میں بہت کمی آجاتی ہے۔ خون نہ لگنے کی وجہ سے بہت سارے ننھے
تھیلیسیمیا فائٹر اداس اور کمزور ہو جاتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ اس مبارک مہینے
میں ہم کسی بھی بچے کو اداس اور بیمار نہ ہونے دیں!
اور ہاں! خوشی کی خبر یہ ہے کہ ٹیڈی بئیر نے سکول جانا شروع کر
دیا ہے۔ بھئی جب اتنے سارے پیارے ساتھی مدد اور حوصلہ دینے کے لیے موجود ہوں تو
سکول جانے میں اور کیا چیز رکاوٹ بن سکتی ہے؟