جب کوے نے چوں چوں کی

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے اس دن کی جب کن کن کوے کی آنکھ شور سے کھل گئی۔ اس نے دیکھا۔ اس کے درخت پر چڑیاں ہی چڑیاں ہی بیٹھی ہوئی تھی۔یہ سب دوسرے جنگل سے آئی تھیں۔ وہاں آگ لگ گئی تھی۔ سب ہی پرندے اور جانور اس جنگل میں آرہے تھے۔ان  چڑیوں نے کن کن کوے والے درخت کو اپنا گھر بنا لیا۔

وہ ہر وقت چوں چوں کرتیں۔ چاہے صبح ہو یا شام۔ جب وہ کھانا لینے جاتیں، تو ان کے بچے چوں چوں کرتے رہتے۔ اتنی چوں چوں سن سن کر کن کن کوے کو کائیں کائیں کرنا بھول گیا۔ وہ بھی اب جب بولتا، اس کے منہ سے کچھ عجیب سی چوں چوں کی آواز آتی۔ کن کن کوے کو خود بھی پتہ نہ تھا کہ وہ چوں چوں کہنے لگ گیا ہے۔

ایک دن جب چڑیاں کھانا ڈھونڈنے چلی گئیں تو کن کن کوا بھی ان کے پیچھے پیچھے جانے لگا۔

’’تم ہمارے ساتھ کیوں آرہے ہو؟‘‘ ایک چڑیا نے مڑ کر اسے دیکھا اور کہا۔

’’چوں چوں چوں! کھانا لینے۱‘‘ کن کن کوے نے پر پھڑپھڑائے۔

’’ہاہاہا! تم توکوے ہو۔ تم چوں چوں کیوں کرتے ہو۔ ‘‘ چڑیا ہنس کر بولی اور اڑتے ہوئے دور چلی گئی۔

تب  اچابج کن کن کوے کو احساس ہوا کہ وہ واقعی کائیں کائیں کرنا تو بھول گیا ہے! اس کے منہ سے اب چوں  چوں کی آوازیں آتی تھیں۔

وہ حیران سا ہو  گیا اور ایک تالاب کے پاس  جا کربیٹھ گیا۔

’’یہ کیا! یہاں سے پانی کہاں گیا؟ چوں چوں چوں!‘‘ تالاب کو دیکھتے ہی اس کے منہ سے نکلا۔

’’بھائی جان! دیکھیے اتنی بڑی چڑیا! آہا!‘‘ یہ ایک چھوٹا سا مینڈک تھا جو گھاس میں اچھل رہا تھا۔


’’ارے! یہ تو کوا ہے۔ چڑیا نہیں ہے، چڑیا اس سےچھوٹی ہوتی ہے۔‘‘ بڑے مینڈک نے جو اس کے ساتھ ہی کھڑا تھا، بتایا۔

’’نہیں! نہیں! ابھی اس نے چوں چوں چوں کہا ہے۔ میں نے خود سنا ہے۔‘‘ ننھا مینڈک بولا۔ پھر اچھلتےہوئے کوے کے پاس آنے لگا۔

’’چڑیاآپا! آپ کہاں سے آئی ہیں اور آپ کے پر اتنے کالے  اور چمک دار کیسے ہیں؟ آپ ان پروں کے ساتھ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔‘‘ چھوٹا مینڈک اچھلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

کن کن کوے کو بہت غصہ آیا۔

’’بے وقوف ! تمھیں نظر نہیں آرہا ۔ میں چڑیا نہیں ہوں۔ چوں چوں چوں! میں کوا ہوں۔ ‘‘

’’تو پھر آپ چوں چوں چوں کیوں کر رہے ہیں۔ ہاہاہا! مجھے پتہ لگ گیا ہے۔ آپ اصل میں چڑیا ہیں لیکن بتانا نہیں چاہ رہے۔ ‘‘

’’کیا فضول بات ہے!‘‘ کن کن کوا پہلی بار پریشان ہو گیا۔ دوسرے جانور اسے چڑیا سمجھ رہے تھے۔ یہ کتنی عجیب بات تھی۔

’’بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ چڑیا تو چھوٹی سی ہوتی ہے۔ اس کے پر سرمئی ہوتے ہیں۔ میری تو اتنی بڑی چونچ ہے اور اتنے پیارے سیاہ پر ہیں۔ بھلا میں چڑیا کیسے ہو سکتا ہوں۔‘‘

اس دن کوے نے کھانا نہیں کھایا اور اپنے گھر واپس چلا گیا۔ وہ اداس اور پریشان تھا۔

اگلا دن پہلے سے بھی زیادہ برا تھا۔ ہوا یہ کہ کن کن کوے کا ایک کزن، کانو اس سے ملنے چلا آیا۔

کانو تھوڑی دیر بعد ایک شاخ پر بیٹھ پر چڑیوں کو دیکھتا رہا۔ وہ ایک شاخ سے دوسری پر جا رہی تھیں۔ باتیں کر رہی تھیں اور ہر طرف چوں چوں چوں کی آوازیں تھیں۔

پھر کانو کوے نے کن کن کوے کے دروازے پر دستک دی۔

’’ٹھک ٹھک ٹھک!‘‘

’’کون!چچ۔۔ چوں!‘‘  کن کن کوے نے بہت مشکل سے اپنے آپ کو چوں چوں کہنے سے روکا۔

’’میں کانو ہوں۔ تمھارا کزن۔ ‘‘

’’ارے! کانو آیا ہے۔آجاؤ!‘‘

کانو گھونسلے کے اندر آگیا۔

’’امی نے تمھارے لیے مکھن والےبسکٹ بھیجے ہیں۔ ‘‘ کانونے ایک بیگ میں سے بسکٹ نکالے تو انڈے اور مکھن خوشبو ہر طرف پھیلنے لگی۔

’’آہا! چوں چوں چوں! یہ کتنے مزیدار ہیں!‘‘ کن کن کوے نے کہا پھر وہ جلدی سے چپ ہو گیا۔

کانو حیران سا رہ گیا۔

’’تم چوں چوں چوں کیوں کہہ رہے ہو۔ تم تو کوے ہو۔ تمھیں کائیں کائیں کہنا چاہیے ۔‘‘

’’آں ہاں! بس منہ سے نکل گیا۔‘‘

’’نہیں! تم مجھے کائیں کائیں کہہ کر دکھاؤ۔ ایسا لگتا ہے تم اپنی زبان بھول گئے ہو۔‘‘ کانو نے زور دے کر کہا تو کن کن کوے نے اس کاد ھیان درخت کی طرف موڑ دیا۔

’’چھوڑو! تمھیں پتہ ہے یہ سب چڑیاں کہاں سے آئی ہیں؟‘‘

ایسی ہی دوسری باتوں کے بعد کانو اپنے گھر چلا گیا۔ کن کن کوے نے اس ساری دیر میں بہت مشکل سے چوں چوں چوں پرقابو پائے رکھا۔

شام ہو گئی تھی اور چڑیاں بھی درخت پر واپس آ چکی تھیں۔ وہ ایک دوسرے کو صبح کی باتیں بتا رہی تھیں۔ ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو کھانا بھی کھلا رہی تھیں۔

’’چوں چوں چوں! چوں چوں چوں!‘‘

کن کن کوا اپنے گھونسلے سے اڑا اور ساتھ والے درخت پر جا بیٹھا۔ اچانک اسے ایک آواز سنائی دی۔

’’کائیں! کائیں! خوش آمدید! کائیں کائیں!!‘‘ یہ ایک چھوٹا سا کوا تھا جو کن کن کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔

’’آ۔۔امم۔۔۔ ‘‘ کن کن نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ ’’ کک۔۔ چوں چوں چوں! چوں چوں!‘‘

’’آہاہا!! تم تو کوے ہو۔ تم چوں چوں کیوں کر رہے ہو؟‘‘ چھوٹا کوا زور سے ہنسا اور اڑ کر ایک اور شاخ پر جا بیٹھا۔

’’میں چڑیوں کے ساتھ رہتا ہوں، شاید  اس لیے ۔‘‘ کن کن نے اداسی سے بتایا۔

’’تو کیا ہوا۔ تم کوے  ہو۔ تم اپنی زبان بولو۔ چاہے تم چڑیوں کے ساتھ رہو یا میناؤں کے ساتھ۔‘‘

’’آں ہاں! لیکن ۔۔ میں بھول گیا ہوں کہ کوے کیا کہتے ہیں۔ مجھے بس چڑیوں کی زبان آتی ہے۔ چوں چوں چوں!‘‘

کن کن ابھی بھی مایوس تھا۔

چھوٹا کوا اڑ کر کن کن کے پاس آیا اور کہنے لگا۔

’’ کوے کائیں کائیں کرتے ہیں۔  کائیں! کائیں! کائیں! آؤ! میں تمھیں دوسرے کوّوں سے ملواؤں۔‘‘

کن کن کوابہت دنوں تک چھوٹے کوے کے ساتھ سیر کرنے جاتا رہا۔ وہ اپنے جیسے کووں سے بھی ملتا اور ان جیسی آواز نکالنے کی کوشش کرتا۔ آہستہ آہستہ وہ دوبارہ سے   کائیں کائیں کرنا سیکھ گیا۔ یہ اس کی اپنی زبان تھی لیکن چڑیوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے وہ اپنی زبان بھول گیا تھا۔

میرے بچو! کن کن کوا ابھی بھی اسی درخت پر رہتا ہے لیکن وہ اب چوں چوں چوں نہیں کرتا۔ وہ کائیں کائیں کائیں کہتاہے اور بہت خوشی سے کہتا ہے۔ اگر آپ نے یہ کہانی پڑھ لی ہے تو آپ کن کن کوے سے ملنے جائیں اور اس سے ایک بار چوں چوں چوں کہنے کی فرمائش کریں۔ کن کن کوا بہت اچھا ہے ۔ وہ آپ کی بات ضرور مانے گا۔ اور مجھے یقین ہے جب وہ اپنی لمبی سی چونچ سے چوں چوں چوں کہے گا تو آپ مسکرادیں گے! بس اور کیا چاہیے کہ مسکرانا زندگی ہے۔

اور ہاں! پیارے بچو! جہاں بھی رہیں  ہمیشہ اپنی زبان یاد رکھیں  ۔دوسری زبانیں جاننا بھی ضروری ہے لیکن اس جاننے میں  اپنی زبان  کو بھول جانا کوئی اچھی بات نہیں۔ چاہے آپ اپنے ملک میں رہتے ہو یادوسرے کسی ملک میں! ہمیشہ اپنی زبان بولیں اور خوشی سے بولیں۔