میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے سے خرگوش گوشو کی جو ایک درخت کے نیچے رہا کرتا تھا۔ گوشو نے درخت کے نیچے اگی ہوئی گھاس کو کھود کر اپنا گھر بنایا ہوا تھا۔ یہ گھر سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا ہوتا تھا۔ گوشو کے
گھر میں کئی کمرے تھے۔ ایک اس کے امی ابو کا، ایک خود گوشو کا اور ایک کھانے کا کمرہ۔ صحن کے ایک طرف چھوٹا سا کچن تھا جس میں گوشو کی امی اس کے لیے مزیدار گاجروں کا سوپ بناتی تھیں۔ یہ سوپ گوشو کا پسندیدہ تھا۔ ایک دن گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک!!‘‘
’’کون؟‘‘ گوشو نے کھڑکی سے پوچھا۔ وہ پاؤں اچک کر باہر دیکھنے کی کوشش بھی کر رہا تھا لیکن کھڑکی اونچی تھی۔ لیکن اسے زرافے انکل، زوزو کے کان نظر آہی گئے۔
’’ڈاکیا زوزو! گوشو کی امی کے لیے خط آیا ہے۔‘‘
’’آہا! خالہ کا خط ہو گا! خالہ کا خط ہو گا!‘‘
امی نے یہ آوازیں سنیں تو جلدی سے باہر آئیں ۔ زوزو زرافے سے زیادہ جھکا نہیں جاتا تھا ۔ وہ بس خطوں والا تھیلا اپنی گردن سے نیچے لٹکا دیتا۔ گوشو کی امی نے اچک کر خط تھیلے میں نکال لیا اور زوزو کا شکریہ ادا کیا۔
اندر آکر امی نے خط کھولا تو لکھا تھا۔
’’پیاری بہن! میری طبیعت کچھ دنوں سے بہت خرا ب ہے۔ دل کرتا ہے تم سے ملوں لیکن ڈاکٹر بھالو نے زیادہ چلنے سے منع کر دیا ہے۔ تم ایسا کرو کہ میرے گھر آجاؤ۔بھوری گائے نے دیسی گھی اور مکھن کا تحفہ بھجوایا ہے۔ وہ بھی لے جانا۔تمھیں دیکھنے کا بہت دل کر رہا ہے،۔ میں تمھارا انتظار کر رہی ہوں۔ ‘‘
یہ خط پڑھ کر گوشو کی امی پریشان سی ہو گئیں۔ پھر انہوں نے کہا۔
’’میرے اچھے بیٹے گوشو! خالہ کا خط تم نے سنا ۔ وہ بیمار ہیں۔ اس لیے میرا جانا ضروری ہے۔ میں اور تمھارے ابو آج شام کو چل پڑیں گے۔ ‘‘
’’امی! میں کیوں نہیں! میں نے بھی جانا ہے۔‘‘ گوشو نے اچھلتے ہوئے کہا۔
’’نہیں! بیٹا! سفر بہت دور کا ہے ورنہ میں تمھیں ضرور ساتھ لے جاتی۔ویسے بھی جنگل میں جو نئے بھیڑیے آئے ہیں میں ان کی وجہ سے پریشان بھی ہوں۔ میں تمھیں نصیحت کرتی ہوں کہ میری غیر موجودگی میں اگر کوئی بھیڑیا آئے تو دروازہ نہیں کھولنا نہ ہی اس کے ساتھ کہیں چل پڑنا۔ بھیڑیے خرگوشوں کے لیے اچھے نہیں ہوتے۔ وہ انہیں نقصان پہنچاتے ہیں ۔‘‘
’’جی امی! ٹھیک ہے۔‘‘ گوشو نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔ اسے وہ پاؤں کے نشان یاد آرہے تھے جو اس نے کل ہی اپنی کھڑکی کے پاس دیکھے تھے۔ بڑے بڑے ناخنوں والے نشان۔
’’تو کیا وہ بھیڑیے تھے؟ پتہ نہیں کیسا ہوتا ہے بھیڑیا۔ میں نے تو کبھی نہیں دیکھا۔ لیکن بہت خوفناک ہوتا ہے امی کہتی ہیں۔‘‘
گوشو شام ہونے تک یہی کچھ سوچتا رہا۔
اس رات جب امی ابو چلے گئے تو بہت دیر تک گوشو کو نیند نہیں آئی۔ کبھی وہ کان لگا کر جھینگر وں کی باتیں سنتا کبھی کھڑکی سےتالاب کنارے رہنے والے بڑے سے مینڈک کو دیکھنے لگتا جو رات بھرایک چکنے پتھر پر بیٹھا اونگھتا رہتا تھا۔
خیر! صبح ہوئی تو گوشو کے دروازے پر دستک ہوئی۔ گوشو نے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا۔
’’کون؟‘‘
’’میں ۔۔ تمھاری آپا گلہری ہوں۔ تمھارے لیے ناشتہ لائی ہوں۔‘‘
’’آہا! گلہری آپا! ٹھہریں! میں ابھی آیا۔‘‘
یہ کہہ کر گوشو نے جلدی سے دروازہ کھول دیا۔ گلہری آپا بہت مزیدار ناشتہ لائی تھیں۔ جب گوشو نے ناشتہ کر لیا تو انہوں نے برتن دھوئے ، گوشو کو دودھ کا گلا س دیا اور یہ کہہ کر چلی گئیں۔
’’اچھا!بیٹا! میں چلتی ہوں۔ تمھاری امی مجھے تمھارا خیال رکھنے کو کہہ گئی تھیں۔ دیکھو! گاجروں کے کھیت میں زیادہ اندر تک نہیں جانا۔ اور شام ہوتے ہی واپس آجاناورنہ مجھے پریشانی رہے گی۔‘‘
’’جی ٹھیک ہے آپا!‘‘
جب گلہری آپا چلی گئیں تو گوشو کھیتوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے جانے لگا۔ ابھی اس نے جیکٹ ہی پہنی تھی کہ دروازہ پھر بج اٹھا۔
’’ٹھک! ٹھک!۔۔ ٹھک!‘‘
یہ عجیب سی دستک تھی جیسے کوئی ناخنوں سے دستک دے رہا ہو۔
’’امم! بھلا یہ کون ہو سکتا ہے۔ او ہ! ہاں! یہ تو بنٹو ہو گا جسے میں نے بلایا تھا کھیلنے کے لیے۔‘‘
یہ سوچ کر گوشو نے پوچھے بغیر ہی دروازے کا ایک پٹ کھول دیا۔
’’آہاہا!! ننھا خرگوش! وہ بھی اکیلا!! بھئی میں تو بڑے دنوں سے انتظار میں تھا!‘‘ یہ ایک کھردری سی آواز تھی جو دروازے میں سے اندر آرہی تھی۔ گوشو ڈر کے مارے کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ اس نے چاہا کہ آگے بڑھ کر دروازہ بند کر دے لیکن ڈراؤنا سا بھیڑیا اپنا ایک پاؤں دروازے کے بیچ میں رکھ چکا تھا۔
’’تم دیکھنے میں موٹے تازے لگتے ہو۔ میرے خیال سے تم روز دو کلو گاجریں تو کھاتے ہی ہو گے۔ہاہاہا!‘‘ بھیڑیااپنی بات کہہ کر خود ہی ہنسنے لگا۔ گوشو نے سر اٹھا کر دیکھا۔ اس کے بڑے بڑے دانت بہت خوفناک تھے۔ گوشو ایک لمحے کے لیے خوف زدہ تو ہوا لیکن پھر وہ سوچنے لگا کہ اس خوفناک بھیڑیے سے کیسے جان چھڑائی جائے۔
’’اچھا!کیا تمھارے گھر میں کھانے پینے کی کوئی مزیدار چیز ہے۔ ویسے تو میں خرگوش کھانا بھی بہت پسند کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر بھیڑیے نے گوشو کے گھر کے اندر جھانکنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں اس کی مونچھیں گوشو کے کانوں کو چھونے لگیں۔
اچانک گوشو کے ذہن میں ایک ترکیب آہی گئی۔
’’انکل! ایک منٹ! میں ہی باہر آجاتا ہوں۔ آپ کے لیے تو میرا گھر بہت چھوٹا ہے۔‘‘ گوشو نے کہا تو بھیڑیے تو سوچا۔
’’ہمم! کہہ تو ٹھیک رہا ہے۔ اس کا تو دروازہ ہی اتنا چھوٹا ہے کہ صرف میری ایک ٹانگ ہی اندر جا سکے گی۔نہ جانے کچن میں کچھ رکھا بھی ہے یا نہیں۔چلو اچھاہے!یہ خود ہی باہر آجائے تاکہ میں اسے مزے سے کھا سکوں۔‘‘
یہ سوچ کر اس نے اپنی ٹانگ پیچھے ہٹا لی اور کہنے لگا۔
’’ہاں! ہاں! باہر آجاؤ۔‘‘
گوشو نے راستہ صاف دیکھا تو اس نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور دروازے سے کافی دور جا گرا۔ پھر وہ اٹھا اور تیزی سے دوڑنے لگا۔ اس کا رخ گاجروں کے کھیت کی طرف تھا۔
بھیڑیے نے اس کی لمبی چھلانک کو حیرانی سے دیکھا اور اس کے منہ سے نکلا۔
’’ارے! تم اتنے پھرتیلے کب سے ہو گئے۔ میرا تو خیال تھا موٹے خرگوش لمبی چھلانگ نہیں سکتے۔ارے ارے ٹھہرو ذرا! میرا ناشتہ کہاں بھاگا جا رہا ہے۔‘‘
یہ کہتے ساتھ ہی بھیڑیے نے بھی اس کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ جب اس نے دیکھا توگوشو کھیتوں کی طرف بھاگ رہا ہے تو اس نے اپنی رفتار آہستہ کر لی۔کیونکہگاجروں کے اس بہت بڑے کھیت میں ایک ننھے خرگوش کو ڈھونڈنا بھیڑیے کے لیے مشکل تھا۔ وہ بھی اس وقت جب کسانوں کے آنے کا وقت تھا جو بھیڑیوں کو دیکھتے ہی مارو مارو کا شور مچا دیتے تھے۔ گوشو کب کا کھیتوں میں جا کر چھپ چکا تھا۔
سو بھیڑیا اپنے آپ پر افسوس کرتا ہوا واپس چلا گیا۔ وہ سوچ رہا تھا ایسے ہی اس خرگوش کو موقع دیا ورنہ اگر میں اسے وہیں کھاجاتا تو کیا تھا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا!
گوشو اندھیرا ہونے تک کھیتوں کے بیچ چھپا رہا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ اس راستے پر آکر بیٹھ گیا جہاں سے اس کے امی ابو نے واپس آنا تھا۔ ابھی وہ جھاڑیوں میں آکر بیٹھا ہی تھا جب اسے امی کی آواز سنائی دی۔
’’ہائیں! پیارے گوشو! تم یہاں کیوں بیٹھے ہو۔میں نے کہا بھی تھا شام ہونے سے پہلے گھر پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔‘‘
گوشو نے سوچا ۔
’’امی کو ساری بات بتا دیتا ہوں۔ امم! لیکن ابھی نہیں! ابھی امی تھکی ہوئی ہیں۔ صبح بتاؤں گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب صبح ہوئی تو گوشو نے امی کو بھیڑیے والی بات بتائی۔
’’اوہ! میرا گوشو کتنا بہادر ہے۔ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا۔ ‘‘ امی پہلے تو حیران پریشان ہوئیں پھر انہوں نے گوشو کو گلے سے لگا لیا۔
’’لیکن تمھیں بغیر پوچھے یوں دروازہ نہیں کھولنا چاہیے تھا۔‘‘
’’جی امی! اب میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ گوشو نے کہا اور امی کا لایا ہوا مکھن گاجر پر لگا کر کھانے لگا۔
’’مجھے بھوری گائے کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ! اس کا تحفہ بہت ہی مزیدار ہے۔‘‘
گوشو نےایک ہاتھ سے مونچھوں پرسے مکھن صاف کیا اور کہا۔
امی مسکرائیں اور کہنے لگیں۔’’کیوں نہیں!ضرور ایسا کرنا بلکہ گاجروں کے پتے بھی اس کے لیے لے جانا۔ وہ تازہ سبز پتے کھانا بہت پسند کرتی ہے۔‘‘
بچو! اکیا گوشو بھوری گائے سے ملنے گیا کہ نہیں! یہ تو آپ کو میری کسی اور کہانی میں معلوم ہو ہی جائے گا لیکن ہاں! اب گوشو کبھی بھی بغیر پوچھے دروازہ نہیں کھولتا۔ جب بھی گوشو اکیلا ہوتا ہے اور دروازے پر دستک ہوتی ہے تو وہ جانتا ہے اسے کیا کرنا ہے۔ اسے پہلے کھڑکی سے دیکھنا ہے ، پھر پوچھنا ہے کون! اور اگر وہ اس آواز کو اچھی طرح پہنچانتا ہوتو اسے دروازہ کھولنا ہے ورنہ نہیں!
میرے پیارے بچو! اگر آپ کو گھر میں اکیلے رہنا پڑ جائے تو کبھی بھی اجنبی بندے کے لیے دروازہ نہ کھولیں۔ جب تک دروازہ بند ہے آپ محفوظ ہیں۔امی ابو گھر پرہوں تب بھی بغیرکسی بڑے سے پوچھے دروازہ فوراً نہ کھول دیں۔ مجھے معلو م ہے آپ بہت عقلمند اور سمجھدار بچے ہیں تبھی تو میں آپ کو اپنی ہر کہانی میں شاباش دیتی ہوں!