رات دس بجے دکان کا مالک اپنے دونوں ملازموں کے ساتھ گھر چلا گیا۔ دکان کے اندر ہلکی ہلکی سی نیلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ باربی ڈول نے اپنے ہاؤس کے سب بلب روشن کر رکھے تھے۔ سو کھلونوں کو اس کے گھر پہنچنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔
آخرکار جب سب کھلونے پہنچ گئے تو باربی ڈول اپنے کمرے سے نکلی۔ اس کا بڑا سا گلابی فراک پیچھے تک چلتا آرہا تھا۔ سنہری تاج سنہری بالوں پر بڑے آرام سے ٹکا ہوا تھا۔
"جی تو میں کیسی لگ رہی ہوں؟"
اس نے آتے ہی اپنے فراک کو ہلایا اور پوچھا۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے اس کے بال ساتھ کھڑے یونیکورن کے سینگ میں اٹک گئے ۔
یونیکورن کو اس کے بالوں سے گدگدی ہوئی تو اس نے زور سے سر جھٹکا۔ باربی ڈول کو بھی جھٹکا لگا اور اس کا سنہری تاج نیچے گر گیا۔
"کراچچچچ" آواز آئی۔
"مائی گاڈ۔ تم نے میرا تاج توڑ دیا۔ تم میرے گھر سے نکل جاو۔"
باربی ڈول غصے سے چلائی۔
ننھا سا یونیکورن ایسے ہی کھڑا رہا۔ اصل میں وہ ابھی بولنا نہیں جانتا تھا نہ ہی وہ کھلونوں کی زبان سمجھ سکتا تھا۔
"اس میں یونیکورن کی غلطی نہیں ہے۔"
گڈا یہ کہہ کر جلدی سے آگے بڑھا۔ اس نے یونیکورن کو اپنے پیچھے چھپا لیا۔
"آنٹی! کیا ہم آپ کا گھر دیکھ لیں؟"
یہ ننھے بلاکس تھے جو بہت شوق سے کھڑکیوں کے گلابی پردے ہاتھ لگا لگا کر دیکھ رہے تھے۔
باربی ڈول اپنا غصہ بھول گئی اور بلاکس کو اپنا گھر دکھانے لگی۔ سفید گڑیا، سبز ڈائنوسار، چھلانگیں لگانے والا بندر، ٹیڈی بئیر سب باربی ہاؤس کی اوپر والی منزل دیکھنے چلے گئے۔
ٹرین والا انجن سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا تھا۔ سو وہ نیچے ہی کھڑا رہا۔
جب کھلونے کچن میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا۔ کچن صاف ستھرا اور بہت پیارا تھا۔ سفید اور گلابی برتن الماریوں میں سیٹ ہوئے پڑے تھے۔ سنک چمک رہا تھا اور کھڑکی سے پھولوں کی خوشبو ارہی تھی۔
"ہاں تو! کھانے میں کیا ہے؟"
ٹیڈی بئیر کو سفید ٹرے اور چمچہ دیکھتے ہی کھانا یاد آگیا۔
"وہ تو میں ۔۔ ابھی منگواتی ہوں۔" یہ کہہ کر باربی ڈول نے اپنے پرس سے چھوٹا سا گلابی رنگ کا موبائل نکالا۔
"آہا! کیا آپ فاسٹ فوڈ منگوائیں گی؟"
بلاکس خوشی سے اچھل کر بولے۔ ٹرین کے ڈبے بھی ادھر ادھر ہلنے لگے۔
"یاہو! مجھے بھی فاسٹ فوڈ بہت پسند ہے۔" انجن نے زوں زوں کی آواز نکالی۔
اس سے پہلے کہ باربی ڈول کچھ جواب دیتی، گڈا بول اٹھا۔
"ام م م م ! ایک منٹ! بیگم! ذرا میری بات سننا۔"
پھر وہ باربی کو گیلری میں لے گیا جہاں کوئی نہیں تھا۔
"میں تمھیں بتانے ہی والا تھا کہ شیف گڈا چھٹی پر گیا ہوا ہے۔ وہ بیمار ہو گیا تھا۔ آج ریسٹورنٹ سیٹ میں کوئی بھی نہیں ہے سوائے تین سیکیورٹی گارڈز کے۔"
اوہ خدایا!"
باربی ڈول نے پریشانی سے اپنا ننھا ہاتھ ماتھے پر رکھا۔
"اب کیا کریں؟"
"اچھ۔۔ ااا! ٹھہرو ۔میں کچھ کرتا ہوں۔"
یہ کہہ کر گڈا باربی ہاؤس سے نکل گیا اور سیدھا ریسٹورنٹ کے سیٹ میں پہنچا۔
"ہیلو سیکورٹی بھائی۔ کیا آج کچھ کھانے کو ملے گا؟"
"اوں ں ہوں ں ں! بالکل نہیں۔"
تینوں گارڈ ایک ساتھ سر ہلا کر بولے۔
"پلیز دیکھو کچھ تو ہو گا تمھاری فریج میں۔"
گڈے نے کہا۔
"اوکے اوکے۔ دیکھتے ہیں۔" تینوں گارڈ پھر ایک ساتھ بولے اور اکھٹے ہی ریسٹورنٹ کے کچن کی طرف چلے گئے۔ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ رکھے تھے۔ اس لیے انہیں ایک ساتھ چلنا پڑتا تھا۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں تین ٹرے تھیں۔
ایک میں اسپیگٹی تھی۔ دوسری میں چھوٹے چھوٹے برگر اور تیسری میں آلو کے چپس۔
"اوہ شکر ہے۔ میں بہت پریشان تھا۔ اچھا! تم لوگ بھی آؤ ناں ہمارے گھر۔"
گڈے نے جلدی جلدی تینوں ٹرے ایک ٹرالی میں رکھیں۔
"کیوں؟"
تینوں سیکورٹی گارڈ بولے۔
"دعوت ہے آج۔ ہم نے سب کھلونوں کو بلایا ہے۔"
"سوری۔ ہم نہیں آسکتے۔ ہمیں ڈر ہے کوئی چور نہ آجائے۔ پچھ ہماری کچھ کرسیاں کسی نے چوری کر لی تھیں۔"
"نہیں نہیں! یہاں تو کوئی چور نہیں ہے۔" گڈے نے اسپیگیٹی چکھی اور اونی رومال سے ہاتھ صاف کیے۔
"اچھا پھر میں چلتا ہوں۔"
پھر گڈا تیز تیز ٹرالی گھسیٹتا ہوا چل پڑا۔ سیکورٹی گارڈز نے کچھ بتانا چاہا لیکن تب تک گڈا باربی ہاؤس کے گیٹ میں داخل ہو چکا تھا۔
پھر جلدی جلدی باربی اور گڈے نے مل کر کھانا لکڑی کے بڑے سے میز پر لگا دیا۔
سبھی کھلونے نے بہت شوق سے کھا رہے تھے۔ ریسنگ کار نے تو تین برگر کھا لیے تھے۔ بندر نے اسپیگٹی کی پوری پلیٹ بھری ہوئی تھی۔ سب سے پہلے فرنچ فرائز کی ٹرے خالی ہوئی۔ ٹیڈی بئیر کو فرائز بہت پسند آئے تھے۔ اے بی سی والے بلاکس نے بھی فرائز بہت شوق سے کھائے۔ 123 والے بلاکس نے تو برگر میں سے سلاد پتے اور پیاز نکال کر ایک طرف رکھ دیے تھے۔
"آنٹی! یہ اسپیگٹی کی ریسپی کیا ہے؟ میں بھی بناوں گی۔"
ایک چھوٹی سی گڑیا نے پوچھا۔ باربی ڈول پریشان سی ہو گئی۔
"آں مجھے تو نہیں پتہ۔ میں شیف گڈے سے پوچھ کر بتاوں گی۔"
"بھئی کیا آپ لوگ کھانے میں سلاد نہیں رکھتے؟" ٹینک والے فوجی نے کانٹے سے فرنچ فرائز کھاتے ہوئے پوچھا۔
"وہ۔۔ " گڈا ابھی جواب دینے ہی والا تھا کہ ایک طرف سے آواز آئی۔
"آ۔۔۔ آآ۔۔۔۔ٹوں نوں۔۔ ٹوں نوں۔۔۔ ٹوں۔۔۔۔ واش۔۔ واش روم کس طرف ہے؟"
یہ پیانو تھا جس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔