زرافے میاں کی دعوت



میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے عید کے دن کی جب زرافے میاں نے جنگل سبھی جانوروں کی دعوت کی۔ جی ہاں! کیا ننھے پرندے اور کیا بڑے بڑے جانور۔۔۔ سب بہت خوش تھے۔ 


بچو! جب زرافے میاں اپنی لمبی سی گردن میں خطوں کا تھیلا لٹکائے چڑیوں والے درخت کے پاس پہنچے تو وہ خوشی سی چلائیں۔


"چوں چوں چوں! خوش آمدید انکل! لگتا ہے آپ ہمیں عید کی دعوت والا خط دینے آئے ہیں۔" 


"شکریہ! ننھی چڑیو! بالکل! یہ رہا تم سب کے لیے دعوت نامہ!"


اتنا کہہ کر زرافے میاں نے جھک کر ایک ہاتھ سے چھوٹا سا خط نکالا اور پتوں پر رکھ دیا۔ 


"آہا! کیا اس بار سفید والے نرم چاول بھی ہوں گے؟"


زرافے میاں کے جانے کے بعد ایک چڑیا نے پوچھا۔


"ہاں خط میں تو لکھا ہوا ہے کہ سفید چاول، مکئی کے دانے اور گندم والے بسکٹ بھی ہوں گے۔ واہ! کتنا مزہ آئے گا!" 


خط پڑھتے ہوئے ایک چڑیا نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا۔


زرافے میاں نے بہت سارے جانوروں اور پرندوں میں دعوت نامے بانٹے اور جب تک وہ گھر پہنچے وہ بہت تھک چکے تھے سو جلدی سے سو گئے۔ 


عید میں دو دن باقی تھے۔ زرافے میاں کے گھر روز گھوڑا گاڑی آتی اور بہت سارا سامان رکھ کر واپس چلی جاتی۔ شیر اور چیتے کے لیے تازہ گوشت، ہاتھی کے لیے سبزیوں اور گندم سے بنی ہوئی موٹی سی روٹی، کووں کے لیے پنیر کے ٹکڑے، بکری کے لیے گھاس اور سبزیوں کے چھلکوں کا سوپ۔۔ بچو! کیا کیا بتاوں! زرافے میاں بہت ہی خوشی خوشی دعوت کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ان کی سوچ تھی کہ کوئی جانور ان کے گھر سے خالی پیٹ نہ چلا جائے۔ حتی کہ ننھی چیونٹیوں کے لیے بھی زرافے میاں نے چینی اور گڑ کے ذرے منگوا کر رکھ لیے تھے۔ 


آخر عید کا دن آ ہی گیا۔ صبح صبح ہی دروازے پر دستک شروع ہو گئی۔


"ٹھک ٹھک ٹھک!" 


زرافے میاں نے اندر سے پوچھا۔


"کون؟" 


"چوں چوں چوں! میں چڑیا!"


"آں ہاں! اندر آ جاو۔" زرافے میاں جلدی سے اٹھے اور دروازہ کھول دیا۔ 


ابھی وہ چڑیوں کو ان کی کرسیوں پر بٹھا کر فارغ ہوئے ہی تھے پھر سے دروازے پر دستک ہوئی۔ 


"ٹھک ٹھک ٹھک!"


"کون؟" زرافے میاں نے پوچھا۔ 


"کائیں! کائیں! کائیں! میں کوا!" 


کووں کے سردار نے ایک پر اٹھا کر جواب دیا۔ وہ بہت خوش لگتا تھا۔ 


"آجاو آجاو" 


زرافے میاں نے کہا اور دروازہ کھول دیا۔


اسی طرح مہمان آتے رہے۔


"ٹھک! ٹھک! ٹھک!"


"کون؟" 


"ام م م م م! ہم م م م! میں شیر بادشاہ!" ایک زوردار دھاڑ کی آواز آئی۔ 


"ٹھک! ٹھک! ٹھک!"


"کون؟"


"ایں ہیں ہیں ہیں! میں گھوڑا!" 


یہ گھوڑا گاڑی والے گھوڑے کی ہنہنانے کی آواز تھی۔ 


جلد ہی وہ اپنی دم ہلاتا اندر چلا آرہا تھا۔ 


"ٹھک! ٹھک! ٹھک!"


"کون؟"


"میں! میں میں! میں! میں بکری!" 


"میں! میں! میں 


"آہا! آجاو! پیاری بکری!" 


زرافے میاں اسی طرح ہر مہمان کو خوشی خوشی اندر لاتے رہے۔ 


پھر کھانا شروع ہوا۔ 


چڑیوں نے بہت ساری پلیٹوں میں چاول بھر لیے۔ شیر اور چیتے نے جلدی جلدی سارا کا سارا گوشت چیر پھاڑ دیا لیکن اس میں سے وہ بہت کم کھا سکے۔ باقی کا گوشت اور ہڈیاں ٹرے میں پھیلے رہے۔ میناوں نے مکئی کے دانوں میں اس طرح چونچیں ماریں کہ وہ ادھر ادھر بکھر گئے۔ بکری نے جلدی جلدی سبزیوں کا سوپ ڈالنے کے چکر میں بہت سارا دسترخوان پر گرا دیا۔ ہاتھی نے روٹی والی پلیٹ میں زور سے سونڈ ماری تو روٹی کے ٹکڑے اڑ کر دور جا گرے۔ وہ چیونٹیوں کو بتانا چاہ رہا تھا کہ اس کی سونڈ میں کتنی طاقت ہے۔ لیکن چیونٹیاں اس دعوت سے خوش نہیں تھیں۔ وہ ایک طرف کھڑی رہیں اور دوسرے جانوروں کو کھانا کھاتے اور کھانا ضائع کرتے دیکھتی رہیں۔ زرافے میاں بھی ایک کرسی رکھ کر ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ وہ بہت اداس لگتے تھے۔ انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کی اتنی محنت سے پکائے ہوئے سب کھانوں کا یہ حشر ہو گا۔


"آئندہ میں کبھی کوئی دعوت نہیں کروں گا۔" زرافے میاں نے اپنے آپ سے کہا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔


ان کی یہ بات چیونٹیوں نے سن لی تھی اور اب وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں جیسے سوچ رہی ہوں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ 


پھر تھوڑی دیر بعد ہی چیونٹیوں کی ایک قطار چڑیوں والے میز کی طرف بڑھی۔ کچھ چیونٹیوں نے فرش پر پڑے چاول اٹھا اٹھا کر واپس پلیٹوں میں جمع کرنے شروع کیے۔ کچھ چیونٹیاں میز پر چڑھ گئیں اورانہوں نے مل جل کر مکئی کے دانے اٹھا کر ٹرے میں اکھٹے کر دیے۔ 


 ایک میز پر چیتا اور شیر پنجوں میں سے بڑے بڑے ناخن نکالے باتیں کر رہے تھے۔ وہ اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ ہرن کا گوشت زیادہ مزے کا ہوتا ہے یا خرگوش کا۔ انہیں ایکدم خاموش ہونا پڑا۔ کیونکہ چیونٹیوں کی ایک قطار ان کی میز پر چڑھ رہی تھی۔ انہوں نے گوشت کے بکھرے ہوئے ذرے اٹھا کر واپس رکھے۔ ہڈیاں بہت بڑی تھیں لیکن چیونٹیوں نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ انہیں کھینچ کھینچ کر واپس ان کی جگہ پر رکھنے کی کوشش کرتی رہیں۔ 


بکری اور ہاتھی میاں کی پھیلائی ہوئی سبزیوں اور پتوں کو بھی کچھ چیونٹیوں نے سمیٹ کر ایک طرف رکھا۔ 


اب سارے گھر میں خاموشی تھی۔ سب جانور چپ چاپ چیونٹیوں کو دیکھ رہے تھے۔ پھر انہیں شرمندگی ہونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے خود بھی بکھرا ہوا کھانا سمیٹنا شروع کیا۔ کووں نے اپنی چونچوں سے پنیر کے ٹکڑے اٹھا کر ایک دیوار پر رکھ دیے۔ بھالو میاں نے بھی شہد کی بوتل کے اردگرد گرا ہوا شہد رومال سے صاف کر دیا۔ بلی نے دودھ کا پیالہ ایک طرف رکھا اور فرش پر گرا ہوا دودھ مونچھوں سے صاف کر دیا۔ 


پھر سب جانور زرافے میاں کے کمرے میں آئے۔ زرافے میاں بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ وہ تھکے ہوئے لگتے تھے۔ 


"انکل! دعوت کا بہت شکریہ! کھانا بہت مزے کا تھا لیکن۔۔۔۔ " 


اتنا کہہ کر چڑیوں نے دوسرے جانوروں کی طرف دیکھا۔ 


"لیکن!" ایک شیر نے اپنے ناخن سے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے کہا۔ "کھانا ضائع نہ کرنے کا جو سبق ہمیں اس دعوت سے ملا وہ سب سے اچھا اور پیارا تھا۔" 


زرافے میاں مسکرائے۔ 


"کوئی بات نہیں۔ میں اب ہر سال دعوت کروں گا۔ سب کو اکھٹے ہوتے اور گپ شپ لگاتے ہوئے دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگا۔"


"آپ کا شکریہ زرافے میاں!" پھر سب جانوروں نے ذرا سا جھک کر زرافے میاں کو شکریہ کہا اور دروازے سے باہر نکل گئے۔ 


زرافے میاں نے دیکھا۔ چیونٹیاں بھی قطار بنائے دروازے کی ایک جھری سے باہر نکل رہی تھیں۔ انہوں نے جلدی سے چینی کی ایک بوری اٹھائی اور چیونٹیوں کے گھر رکھ آئے۔ ساتھ ہی ایک خط بھی! جس پر لکھا تھا۔ 


"آپ سب کے آنے کا شکریہ! میں جانتا ہوں آپ نے پھیلا ہوا کھانا سمیٹنے میں کافی وقت لگادیا جس کی وجہ سے خود آپ کو کھانے کا وقت نہیں مل سکا۔ یہ بوری میری طرف سے تحفے کے طور پر رکھ لیں۔"


جب چیونٹیاں اپنے گھر کے سامنے پہنچیں تو وہ مسکرانے لگیں اور بالکل حیران نہ ہوئیں کیونکہ انہیں راستے میں چینی کی خوشبو اور زرافے میاں کے پاوں کے نشان پہلے ہی نظر آ چکے تھے!


۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پیارے بچو! یہ کہانی پڑھ کر کیا آپ کو کچھ یاد آیا؟ وہ پچھلے ہفتے والی شادی جب آپ نے اپنی پلیٹ میں بہت سارا چکن،  چاول اور سلاد بھر لیا تھا۔۔ اور پھر اس میں سے بہت تھوڑا سا کھا کر یونہی بھری ہوئی پلیٹیں میز پر چھوڑ کر آگئے تھے۔ جب آپ واپس جا رہے تھے تو قہوے کے آدھے بھرے ہوئے کپ، میز پوش پر گرے ہوئے چاول، قورمے کی لبالب پلیٹ اور آدھ کھائے ہوئے نان۔۔ سبھی نے آپ کو اداسی سے دیکھا تھا!! 


میرے بچو! میں آپ کو دل سے نصیحت کرتی ہوں کہ کھانا ضائع نہ کریں چاہے آپ کسی دعوت میں موجود ہوں یا گھر کے دسترخوان پر۔ کھانا اللہ پاک کی بہت بڑی اور قیمتی نعمت ہے۔ اس کو ضائع کرنے کا مطلب ہے کہ اللہ پاک کے دیے ہوئے رزق کو اہم نہیں سمجھتے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم تین وقت اچھا اور تازہ کھانا کھاتے ہیں۔ اللہ پاک بہت اچھے ہیں اور وہ انتظار میں رہتے ہیں کہ کب ہم کھانا ضائع کرنے کی بری عادت چھوڑیں اور زائد کھانا ان لوگوں سے شئیر کر لیں جو یہ مزے مزے کی چیزیں نہیں خرید سکتے۔


اور ہاں! زرافے میاں نے اس عید پر بھی سب جانوروں کی دعوت کرنے کا پلان بنایا ہے۔ میں نے جب ان کے کمرے میں جھانک کر دیکھا تھا تو وہ میز پر بیٹھے دعوت نامے لکھ رہے تھے۔ کیا معلوم اس بار آپ کو بھی زرافے میاں کے جانب سے دعوت کا پیغام مل جائے!