جب لومڑی بنی کسان


 

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک لومڑی کی جو ایک گاؤں کے کنارے جنگل میں رہا کرتی تھی۔ وہ ہرروز جب بھی اپنا کھانا ڈھونڈنے نکلتی، اس کی نظر دور کھیتوں پر جا پڑتی ۔ کھیتوں میں ایک کسان دو بیلوں کو لیے ہل جوتتا تھا۔ جیسے  ہی بیل آہستہ چلتے، کسان زور سے ہنٹر ہوا میں چلاتا۔ ہنٹر کی آواز سن کر بیل تیز دوڑنے لگتے۔کسان بیلوں کو چلاتا ہوا ایک کھیت سے دوسرے کھیت کی طرف چلا جاتا۔ سنہری سنہری پودے ہوا سے ہلتے   اور گندم کے بیجوں کی خوشبو ہر طرف پھیل جاتی۔

  لومڑی کو یہ سب دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ اس کا بھی بہت دل کرتا کہ وہ دونوں بیلوں کو بھگائے اور جب تھک جائے تو دسترخوان سے دو روٹیاں اور سالن نکال کر مزے سے کھائے۔

 ایک دن لومڑی جب جنگل کے کنارے پہنچی تو اس نے دیکھا۔ بیل تو کھیتوں کے درمیان کھڑے ہوئے تھے لیکن کسان غائب تھا۔ لومڑی نے ادھر ادھر دیکھا۔کسان کہیں بھی نہیں تھا۔

’’آج تو اچھا موقع ہے۔ میں بھی کسان بن جاتی ہوں۔ آہا!‘‘

یہ سوچ کر لومڑی جلدی سے کھیتوں کے درمیان پہنچ گئی۔ اس نے لکڑی کا ہل اٹھایا اور اسے دھکا لگانے کی کوشش کی۔ بیلوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ حیران رہ گئے۔

’’ہائیں! یہ تو کسان لومڑی ہے!ہں ہوں ہوں ہوں!‘‘


ایک بیل نے زور سے آواز نکاتے ہوئے کہا۔

دوسرے بیل نے کہا۔ ’’ہوں ہوں! ہمیں کیا! ہم تو ایک قدم بھی آگے نہیں چلیں گے۔ بھلا لومڑی بھی ہل چلا سکتی ہے؟ جی نہیں! ہوں ہوں ہوں!‘‘

 لومڑی نے پھر سے ہل کو ہلانے جلانے کی کوشش کی لیکن وہ بہت بھاری تھا۔ بیل بھی آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے واقعی وہ ایک قدم بھی نہیں اٹھائیں گے۔  

اچانک لومڑی کی نظر ایک طرف رکھے ہنٹر پر پڑی۔ اس نے ہنٹر اٹھایا اور زور سے ہوا میں لہرایا۔

’’شوں!!‘‘ ایک آواز آئی اوراچانک بیلوں نے ایک دم دوڑنا شروع کر دیا۔ دراصل وہ ہنٹر سے بہت ڈرتے تھے۔

 لومڑی جو لکڑی کے ہل پاس کھڑی تھی، اس کی دم ہل کے بیچ پھنس کر رہی گئی ۔اسے بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ ہنٹر چلاتے ہی بیل اچانک دوڑ پڑیں گے۔ یوں وہ بیلون کے پیچھے پیچھے گھسٹتی چلی گئی۔

 بیلوں کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ ان کے پیچھے ہل میں لومڑی کی دم پھنسی ہوئی تھی ۔ وہ تو بس تیز تیز دوڑ رہے تھے۔ لومڑی ان کے ساتھ ساتھ کھنچی چلی آرہی تھی۔ زمین پر گھسٹنے کی وجہ سے اسے کئی جگہ چوٹ لگ چکی تھی۔

 آخر ایک جگہ پہنچ کر بیل رک گئے۔ یہ کھیت کا آخری کنارہ تھا۔

 جیسے ہی بیل رکے، لومڑی نے بہت مشکل  اور جلدی سے ہل میں پھنسی دم باہر نکالی ۔ اس کو بہت درد ہو رہا تھا۔

’’چھوڑو! میں بھی کن کاموں میں پڑ گئی۔یہ۔۔ یہ۔۔ ہل چلانا تو میرے بس کی ۔۔ب۔۔بب۔۔ بات نہیں!‘‘ اس نے لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے اپنے آپ سے کہا۔

’’ہففف!!چلو! کسی خرگوش کا شکار کرتی ہوں اور گھر واپس چلتی ہوں۔‘‘

یہ سوچ کر وہ واپس جانے کے لیے مڑی تو اس کی نظر کھیتوں پر پڑی۔ اس راستے پر جہاں سے وہ بیلوں کے ساتھ کھنچتی ہوئی آئی تھی، ایک لمبی سی لائن بن گئی تھی۔

’’آہا! تو کیا اب اس میں بیج بونے رہ گئے ہیں!‘‘  لومڑی نے سوچا۔

’’اوروہ بیجوں والا تھیلا کہاں گیا؟ ‘‘

پھر اس نے آگے بڑھ کر ہل کے دونوں طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔ اچانک ا س کے ہاتھ میں ایک تھیلا آگیا جس میں کچھ خشک چنے تھے جو کسان نے اپنے کھانے لیے رکھے ہوئے تھے۔

’’اچھا! یہ رہے بیج! ‘‘ اس نے خشک چنوں کو بیج سمجھتے ہوئے ان کا تھیلا اٹھا لیا۔

پھر اس  نے چنے مٹھی میں دبائے اور بیلوں کووہیں  چھوڑ کر مٹی میں ایک ایک چنا دبانے لگی۔

’’آہا! کتنا مزہ آئے گا جب ان میں پودے نکلیں گے۔ وہ پودے صرف میرے ہوں گے۔ جی ہاں! کیونکہ یہ بیج تو میں نے بوئے ہیں۔‘‘

لومڑی سوچتی سوچتی جا رہی تھی ۔ ساتھ ہی ساتھ وہ انگلی سے نرم مٹی میں ایک گڑھا بناتی اور ایک چنا اس میں رکھ دیتی۔ کھیت کے دوسرے کنارے تک پہنچتے پہنچتے وہ بے حد تھک گئی۔

’’اف! یہ کتنا مشکل کام ہے۔ پتہ نہیں کسان اتنے بڑے کھیت میں کیسے بیج بو لیتا ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے کمر پر ہاتھ رکھا  اور سیدھی ہو کر کھڑی ہو گئی۔

’’بھئی ! میری تو توبہ ہی بھلی۔ کسان جانے اپنا کام۔میں تو واپس جا رہی ہوں۔‘‘

’’پکڑو! پکڑو! لومڑی کو پکڑو!‘‘ اچانک کسان کی آواز آئی۔

جلدی سے لومڑی نے پیچھے مڑکر  دیکھا۔

کسان دور سے کھیتوں میں بھاگتا چلا آرہا تھا۔

 اب تو لومڑی  چنوں کا تھیلا اٹھائے اٹھائے بھاگی اور جنگل میں پہنچ کر ہی دم لیا۔

’’آہ! اوہ! یہ کتنا برا دن تھا۔ کھانا بھی نہ ڈھونڈ سکی اور تھک بھی گئی!‘‘

اس نےتھک کر سوچا اور چنوں کا تھیلا ایک طرف رکھ کر درخت کے نیچے بیٹھ گئی۔ابھی بھی اس میں کافی چنے موجود تھے۔

’’ٹیں ٹیں! ٹیں ٹیں! بی لومڑی! یہ تھوڑے سے چنے مجھے دو۔ مجھے آج بچوں کے لیے کچھ نہیں مل سکا۔ ‘‘ یہ ایک طوطا تھا جو درخت پر بیٹھا لومڑی سے کہہ رہا تھا۔

’’چنے؟ ہائیں! کیا یہ چنے ہیں؟‘‘

’’جی! یہ چنے ہیں ۔یہ چنے ہیں!‘‘ طوطے نے کہا۔

 یہ تو بیج ہیں جو کھیتوں میں بوئے جاتے ہیں۔ یہ تم کیسے کھا سکتے ہو؟‘‘ لومڑی نے حیرت سے پوچھا۔ پھر وہ کچھ چنوں کو ہتھیلی پر رکھ کر غور سے دیکھنے لگی۔

’’کھا سکتا ہوں ! کھا سکتا ہوں! ‘‘ طوطا نیچے اتر آیا۔ اسے ہر بات دو بار کہنے کی عادت تھی۔

’’یہ بیج نہیں۔یہ بیج نہیں۔ یہ تو چنے ہیں ۔ چنے ہیں۔ نرم مزیدار! نرم مزیدار!‘‘ یہ کہہ کر اس نے لومڑی کے ہاتھ پر رکھے چنوں پر چونچ ماری اور مزے سے تین چار دانے کھا گیا۔

’’تمھیں کسان سے سوری کرنا چاہیے۔‘‘ طوطے نے گھاس پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

’’بھلا کیوں؟‘‘ لومڑی نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’کیوں کہ تم اس کا تھیلا اس کے بغیر پوچھے لے آئی ہو اوراس کے کھیت میں تم نے گندم کی جگہ یہ چنے رکھ دیے ہیں۔میں تمھیں کیلے کے اونچے والے پیڑسے دیکھ رہا تھا۔‘‘

’’آں ہاں! تم ٹھیک کہہ رہے ہو!‘‘ لومڑی نے کہا اور تھیلا سنبھال کر رکھ لیا۔

اگلی صبح  لومڑی نے کھیتوں کے پاس جھاڑیوں میں سے دیکھا۔ کسان آچکا تھا۔ وہ دونوں بیلوں کو چارہ کھلا رہا تھا۔

لومڑی نے ایک خط میں کچھ لکھا اور طوطے کو پکڑا دیا۔ طوطے نے  کھیتوں پر سے اڑتے ہوئے یہ خط بیلوں کے پاس پھینک دیا۔

کسان نے ہوا میں سے آتے خط کو حیرت سے دیکھا۔اس نے جلدی سے کھولا۔ اس میں لکھا تھا۔

’’کسان بھائی! مجھے معاف کر دو۔ میں نے تمھارے بیلوں کو تکلیف دی اور تمھارے چنوں کا تھیلا بھی لے لیا۔میری توبہ ! اب میں کسان نہیں بنوں گی۔ فقط بھوری لومڑی! ‘‘

کسان یہ پڑھ کر مسکرایا اور بیلوں کو لیے کھیتوں کی جانب چل دیا۔

بچو! آج بھی اگر آپ جنگل جائیں تو آپ کو ایک لومڑی نظر آئے گی جس کی دم تھوڑی سی ٹیڑھی ہے ۔ یہ وہی لومڑی ہے جو ہل میں پھنس گئی تھی۔ بھوری لومڑی اپنے بچوں کو کسان بننے کی کہانی  ضرور سناتی  ہے۔ اور ہاں! اس دوران وہ گندم کے کھیت کو بڑے غور سے دیکھتی رہتی ہے  کہ کیا معلوم! اس کے بوئے ہوئے چنوں میں سے کوئی نہ کوئی چنے کاپودا نکل ہی آئے!