ایاز اب ملک کا صدر بن چکا
تھا۔ اس نے یہاں تک پہنچنے کے لیے کیا کیا نہ کیا تھا!
’’آہ! ایک لمبا سفر! کہاں
ایک محلے کی یونین کونسل کا صدر ! کہاں ایک پورے ملک کا صدر!‘‘
حلف اٹھاتے ہی اس نے جو پہلا
کام کیا تھا، اس نے نہ صرف دشمن ممالک بلکہ این جی اوز میں بھی تھرتھلی مچادی تھی۔
لیکن ایاز اپنی دھن کا پکا تھا۔ وہ کسی دباؤ میں نہ پہلے آیا تھا نہ ہی آئندہ
بھی آنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
وہ جب یونین کونسل کا صدر
تھا، تب بھی اسی چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا۔ جیسے جیسے وہ ترقی کے زینے چڑھتا گیا،
اس کے اردگرد کے خوشامدی وزیر اس کو بڑے بڑے بنگلوں اور پلاٹ کی آفر کرتے رہے۔
ایک وزیر صاحب تو اس کے حلف اٹھانے کے اگلے ہی دن لدے پھندے چلے آئے۔ ملازم عدی ان کے لائے ہوئے
تحائف دیکھ کر حیران رہ گیا۔ فریج اور مائکرویو اوون تو تھا، سو کنال کی کوٹھی کی
بڑ ی سی سنہری چابی بمع کاغذات بھی ان کے
ہاتھ میں تھے۔
’’سر! بس آپ ایک نظر یہ فائل
دیکھ لیجیے ۔ یہاں دستخط کرنے ہیں۔ بس ایک بار!‘‘ وزیر صاحب نے نہایت عاجزی سے منت
بھرے لہجے میں کہا۔
ایاز نے تو تحفوں پر بھی ایک
نظر ڈالنا گوارا نہ کی، وہ فائل دیکھنی
تھی۔ لیکن اسے معلوم تھا یہ وزیر صاحب اس وقت سپیشل ٹاسک پر تھے۔ اس نے ایک بھر پور نظر ان وزیر پر ڈالی۔ وہ وزیر
معدنیا ت تھے لیکن زیادہ مہارت انہیں خوشامد کرنے میں تھی۔ اس فیلڈ میں لگتا تھا
انہوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی تھی۔ نت نئے طریقوں سے اپنے ممدوح کو حیران کر دیا
کرتے اور خوب داد سمیٹا کرتے۔بیرون ملک دشمن عناصر کو جب بھی اپنا کوئی مطالبہ
منوانا ہوتا، عموماً انہی صاحب کویہ ٹاسک دیا جاتا ۔ جیسے کہ اس وقت ان کا مقصد یہ
ساری سعی لاحاصل کرنے کا ، یہ تھا کہ کسی طرح ایاز اسلامی سزاؤں کے قانون کو
منسوخ کر دے جوحال ہی میں اس نے ملک بھر میں نافذ کی تھیں۔ اس حکم کی منسوخی کے لیے باقاعدہ وہ پوری فائل تیار کروا کر لائے تھے ۔
’’جناب! یہ سزائیں انسانی
حقوق کے سراسر خلاف ہیں۔ میڈیا اور این جی اوز نے آسمان سر اٹھا رکھا ہے۔ آپ
کبھی اس چھوٹی سی کٹیا سے باہر نکل کر دیکھیں تو سہی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وزیر معدنیات
نے ادھر ادھر دیکھا اور لہجے میں نہ چاہتے ہوئے ناگوراری سی جھلک آئی۔
’’پہلی بات تو یہ ہے دنیا سے
میں ہمیشہ باخبر رہتا ہوں۔ شاید آپ سے زیادہ۔ جیسے کہ اس وقت آپ نہ صرف سزاؤں
کی منسوخی بات کرنے آئے ہیں بلکہ ان پہاڑی علاقوں کا لائسنس بھی حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں جہاں سے
تین سونے کی کانیں دریافت ہوئی ہیں۔‘‘
ایاز نے بے نیازی سے کہا۔ ا س کی معلومات چاہے ملکی ہوں یا غیر ملکی، ہمیشہ
اپ ٹو ڈیٹ ہی رہتی تھیں۔ پھر خوشامدی وزیروں کے بارے میں تو وہ زیادہ محتاط رہا
کرتا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ
صرف عہدے کی وجہ سے اس کے خوشامدی بنے ہوئے ہیں۔ ابھی اگر وہ جیل چلاجاتا ہے تو اس
کے خلاف پہلا بیان یہی وزیر معدنیات دیں گے۔
’’جی سر! ماشاءاللہ! آپ تو
بہت ہی معلومات رکھتے ہیں۔ تو۔۔ پھر کیا سوچا آپ نے اس لائسنس کے بارے میں؟‘‘
وزیر معدنیات کھسانی سی ہنس کر تھوڑا سا آگےجھکے اور بڑی امید سے پوچھنے لگے۔
’’میں وہ لائسنس وزیر بجلی و
پانی کو دے چکا ہوں طاہر صاحب!‘‘ ایاز نے بے نیازی سے کہا۔
’’لیکن سر! وزیر معدنیات میں
ہوں۔ میرا کام ہے زمین کے چھپے خزانے ڈھونڈنا۔ اور یہ تینوں کانیں بھی ہماری ہی ایک کمپنی نے دریافت کی ہیں ۔‘‘ طاہر صاحب کی بے
بسی دیدنی تھی۔
’’ہاں! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔
لیکن کوئلے کی اس وقت زیادہ ضرورت بجلی بنانے والوں کو ہے۔ وہ اس کوئلے کے ذریعے
پانی کو ہائی پریشر سٹریم میں بدلیں گے جس سے وہ ٹربائن چلے گی جو بجلی بناتی ہے۔ دوسری
بات! یہ تحائف ابھی اور اسی وقت واپس لے جائیں۔ آپ کو معلوم ہے نہ مجھے بڑے گھر
میں کوئی دلچسپی ہے نہ آپ کی اس دوسری فائل میں۔حکم صرف اللہ ہے۔ میں اسی کا تابع
ہوں۔ مجھے نہ آپ کے مال و متاع کی آٖفرز متاثر کر سکتی ہیں نہ کوئی بیرونی
دھمکیاں کو میں خاطر میں لاؤں گا۔ ایکسکیوز می!‘‘
یہ کہہ کر ایاز اٹھا اور تب
تک اپنی لائبریری میں بند رہا جب تک وزیر صاحب اٹھ کر کمرے سے نکل نہیں گئے۔
جب سے اس نے ملک میں وہ سزائیں
نافذ کی تھیں جو دینِ اسلام میں بڑی صراحت کے ساتھ بتلائی گئی تھیں، کئی ممالک نے
اس کو دھمکیاں دے رکھی تھیں ۔ کوئی معاشی تعلقات بند کرنے کا کہہ رہا تھا کوئی
اقوام متحدہ کی سیٹ کینسل کرنے کا ڈراوا دے رہا تھا ۔ خود ملک کے اندر دو تین این
جی اوز تھیں جو اس قانون کی تبدیلی پر کب سے واویلا مچا رہی تھیں۔
’’دیکھیں جی ! اس اکیسویں صدی
کے دور میں بھی کیا سنگ ساری ہوا کرے گی؟ وہ بھی دو پیار کرنے والوں کو۔ نہ بھئی
نہ! یہ قابل قبول نہیں۔ اور پھانسی کی سزا! یعنی قتل کی سزا قتل! اف توبہ ! صدر
ایاز صاحب! کچھ تو رحم کریں۔‘‘ یہ اینکر مس زویا تھیں۔ ایک بہت بڑی این جی او کی
مالک جس کو ہر ماہ کئی قسم کے بیرونی فنڈ ز ملتے تھے۔ ایاز نے تنگ آکر ٹی وی بند کر
دیا۔
ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھاکہ
اس کا موبائل بج اٹھا۔
’’ہیلو!‘‘
’’ہیلو! پاپا!۔۔ میں۔۔
ماریہ۔۔ پاپا ! آپ مجھے یہاں سے آکر لے جائیں۔ یہ سٹوپڈ پولیس والے پتہ نہیں خود
کو کیا سمجھ رہے ہیں۔ میں ان سے کہہ بھی رہی ہوں
کہ میں صدر ایاز کی بیٹی ہوں پھر بھی میرے ہاتھ پیچھے باندھ رکھے ہیں۔نان
سینس! ‘‘
اچانک اس کے ہاتھ سے کسی نے فون کا ریسیور لے
لیا اور ایک کھردری سی آواز آئی۔
’’سر! آپ کی بیٹی نے مرڈر
کیا ہے۔ پلیز کم ٹو تھانہ نور پور۔‘‘
یہ انسپکٹر لاشاری کی آواز
تھی ۔انسپکٹر لاشاری کے بارے میں مشہور تھا۔ جب تک جرم ثابت نہ ہو جاتا، وہ ملزم
کے ساتھ ایسے نرمی کے ساتھ پیش آتے جیسے اس نے کچھ کیا ہی نہ ہو اور ہر طرح سے اس
کا خیال رکھتے۔ جیسے ہی جرم ثابت ہو جاتا، پھر وہ سزا دینے میں کسی کی نہ سنتے
تھے۔ انتہائی ایماندر اور سچے انسان۔ یہی انسپکٹر لاشاری کی پہچان تھی۔
ایاز کو اپنا دل ڈوبتا ہوا
محسوس ہوا۔ اس کے بے جان ہوتے ہاتھوں نےموبائل صوفے پر گرا دیا۔ پھر وہ خود
بھی قالین پر ڈھے سا گیا۔ ماریہ اس کی
اکلوتی بیٹی تھی۔ وہ مرڈر کیسے کر سکتی ہے۔ ضرور انسپکٹر کو غلط فہمی ہورہی ہے۔ ہاں!
ہاں! بھلا ایک چھوٹی سی اٹھارہ سال کی لڑکی کیسے کسی کو قتل کر سکتی ہے۔
میری بیٹی ایسی نہیں ہو سکتی۔
کبھی نہیں!
جب وہ تھانے میں داخل ہوا تو
اس کی نظریں مس زویا پرپڑیں۔
’’یہ ۔۔یہاں! کیا کر رہی ہیں۔
اف خدایا! کیا اب یہاں بھی میرا انٹرویو لینے بیٹھ جائیں گی؟‘‘ ایاز نے انتہائی
کوفت اور پریشانی سے سے سوچا ۔
’’صدر صاحب! آپ کی بیٹی نے
میرے بیٹے کو قتل کر دیا ہے۔ صرف ایک چھوٹے سے جھگڑے کی وجہ سے۔ کیا ہوتا جو بات
ختم کر دیتی لیکن ۔۔۔لیکن اس منحوس ماری!!اس نے ۔۔ اس نے۔۔ خنجر کے پورے چار وار کیے اور ۔۔‘‘ اتنا کہہ کر
مس زویا پھر سےرونے لگ گئیں۔
انسپکٹر تنویرنے اشارہ کیا تو
ایک سپاہی نے ٹشو کا ڈبہ اور پانی کی بھری
بوتل مس زویا کے سامنے لا رکھی۔
’’بیٹھیے صدر محترم!
‘‘انسپکٹر تنویر نے ایک کرسی کی جانب اشارہ کیا۔ وہ اٹھ کر کھڑا تک نہیں ہوا تھا۔
یہی صدر ایاز کی ہدایات تھیں ۔ کوئی تھانہ کوئی ڈی آئی جی کوئی ایس ایچ او کسی
دباؤ میں نہ آتا تھا چاہے مجرم کسی وزیر کا بیٹا ہو یا بہن۔ چاہے مجرم کوئی وزیر
ہی کیوں نہ ہو، صدر ایاز کی سختی سے ہدایات تھیں کہ کسی قسم کے پروٹوکول اور پریشر
کے بغیر قانونی کاروائی فوراً شروع کر دی جائے۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا تھا۔ فرق
صرف اتنا تھا کہ اس بار مجرمہ خود صدر ایاز کی بیٹی تھی!
ایک بوسیدہ سی کرسی کی طرف
بڑھتے ہوئے ایاز کی آنکھوں کے سامنے وہ وقت گھوم گیا جب وہ دو دن پہلے پارلیمنٹ میں کرسی پر بیٹھے، ان دستاویز پر
دستخط کر رہا تھا جو نہ صرف محکمہ پولیس بلکہ اور تمام عدالتوں کو کسی بھی قسم کے
دباؤ کے بغیر فوری قانونی کاروائی کرنے
اور فوری انصاف فراہم کرنے کی ہدایات سے بھری ہوئی تھیں۔اس وقت پین کو تھامے ہوئے
اس نے خواب میں بھی نہیں سوچاتھا کہ ایک دن خود اس کی بیٹی کسی کو قتل کر دے گی
اور پھر۔۔۔۔!
’’صدر صاحب! یہ رہی وہ سی سی
ٹی وی فوٹیج جس میں آپ بیٹی ایک لمبی
چھری سے محمد احمد ولد محمد صادق پر وار
کرتی نظر آرہی ہیں۔‘‘ انسپکٹر تنویر نے ایک نظر صدر ایا زکے چہرے پر ڈالی اور
بریفنگ شروع کی۔ایاز نے سامنے دیوار پر نظر ڈالی۔ پراجیکٹر کے ذریعے صاف دیوار ایک
سکرین میں تبدیل ہو چکی تھی جہاں ماریہ ، اس کی لاڈلی بیٹی ایک خونی مجرم کی طرح
نہتے لڑکے پر وار کرتی نظر آرہی تھی۔ ایاز کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ اس
نے گردن موڑ کر ماریہ کو دیکھا۔ وہ بت بنی بیٹھی سکرین کو تک رہی تھی۔
’’ مجرمہ کی آڈیو بھی ریکارڈ ہو چکی ہے جس میں وہ اپنے ہدف
کو گالم گلوچ اور قابل اعتراض القاب سے نواز رہی ہیں۔‘‘ انسپکٹر تنویر کہہ رہا
تھا۔
’’ہم نے جائے وقوعہ سے سارے
ثبوت بمع آلہ قتل اور آپ کی بیٹی کے اس
پر فنگر پرنٹس ، حاصل کر لیے ہیں۔ مجرمہ نے ابھی ابھی اقرار جرم کیا ہے جس کی وڈیو
آپ اس موبائل میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ وڈیو اس سی سی ٹی وی فوٹیج کے ساتھ اٹیچ کر
دی گئی ہے او ر ہائی کورٹ اور خود آپ کے
آفیشل اکاؤنٹس پرتمام کا تمام مواد فاردرڈ کر دیا گیا ہے۔یہ مواد ایک الف فائل
کی صورت تھانے کے ریکارڈ میں بھی محفوظ کر لیا ہے۔ ابھی لیڈی پولیس کے آنے میں تھوڑی دیر ہے۔ پھر
مجرمہ ماریہ بنت ایاز کو خواتین کی جیل میں منتقل کر دیا جائے۔ آپ کے پاس ۔۔ دس
منٹ ہیں۔ آپ اس وقت میں مجرمہ سے بات چیت کر سکتے ہیں۔‘‘
انسپکٹر تنویر لاشاری ایک
روبوٹ کی طرح تمام تر تفصیلات بتاتا گیا۔ وہ اس طرح بول رہا تھا جیسے صدر صاحب کو
ان کی بیٹی کے بارے میں نہیں کسی دوسرے مجرم کے بارے میں بریف کر رہا ہو۔ اس کا
لہجہ کسی بھی جذبات سے عاری تھا۔ ہونا بھی
یہی چاہیے تھا ۔ صدر ایاز کی ہدایات بھی یہی تھیں اور خود اس دین مبارک کی بھی جس
کی لائی شرعی سزائیں ابھی کچھ ماہ پہلے ہی
خود صدر ایاز نے ملک بھر میں ناٖفذ کی تھیں۔
’’آئیے مس زویا! ‘‘ یہ کہہ
کر انسپکٹر اٹھ کھڑا ہوا ۔ سپاہی بھی باہر چلے گئے۔ مس زویا کمرے سے جاتے جاتے صدر
ایاز کے پاس رکیں۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ بکھرا ملجا لباس اور زرد رنگت۔
لگتا ہی نہیں تھا وہ ، اینکر مس زویا ہیں۔
’’صدر صاحب! ایک ماں ہونے کے
ناتے مجھے آپ سے ہمدردی ہے لیکن۔۔ آج سے میری پہلی اور آخری خواہش ہے کہ میں اس ۔۔ لڑکی کو پھانسی
کے پھندے پر لٹکتا دیکھوں۔ بھاڑ میں گئی میری این جی او اور پانی بھرنے گئے انسانی
حقوق ۔ہائے میرا بیٹا ! ہائے میرا بیٹا! ‘‘ اتنا کہتے کہتے ان کی ہچکی بندھ گئی
پھر وہ یکدم طیش میں آگئیں۔
’’میں تجھے چھوڑوں گی
نہیں۔ میں تجھے۔۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اچانک مس زویا سہمی ہوئی ماریہ کی جانب بڑھیں۔ لیکن
انسپکٹر تنویر نے لیڈی پولیس کے ساتھ فوراً اندر آکر ان کو روک دیا۔
’’میڈم ! حوصلہ رکھیں۔ آپ کا بیٹا واپس نہیں آسکتا۔
لیکن آپ اطمینان رکھیں۔ مجرمہ کو قرار واقعی سزا دی جائے گی!اور۔۔۔ آج آپ
کو احساس ہو جانا چاہیے کہ ۔۔۔ جو سزائیں
اسلام لے کر آیا ہے ان میں کس قدر انصاف اور حکمت ہے!‘‘ اتنا کہہ کر اس نے لیڈی
پولیس کو اشارہ کیا۔مس زویا سر جھکائے کھڑی تھیں۔
انہوں نے پچھلے کئی ماہ سے ان گنت ٹاک شو کر
ڈالے تھےشرعی سزاؤں کے خلاف۔ لیکن آج انہیں معلوم ہو ا تھا۔ قصاص کا اصل مطلب
کیا ہوتا ہے۔ قتل کا بدلہ قتل کیوں لیا جاتا ہے۔
لیڈی پولیس اندر داخل ہوئیں
اور مس زویا کو لے کر وہاں سے نکل گئیں۔
’’صدر صاحب! دیے گئے وقت میں
سے آپ کے ڈھائی منٹ بچے ہیں۔میں جرم کے
تمام وڈیو اور آڈیو ثبوت عدالت عظیٰ کو ای میل اور واٹس ایپ کرنے والا ہوں۔ امید
ہے اگلے ایک گھنٹے میں سزا سنا دی جائے گی
۔یہ آدھا منٹ میں نے آپ کا لے لیا۔آپ کی مسز پہنچ چکی ہیں۔ انہیں اندر بھیج رہے
ہیں۔ آپ اپنے ڈھائی منٹ اب سے کاؤنٹ
کیجیے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تیز قدموں سے
باہر نکل گیا۔
اس وقت صدر ایاز کے اندر کیا
کشمکش چل رہی تھی۔ یہ شاید دنیا کا کوئی جیتا جاگتا انسان نہ سمجھ سکے۔
’’ہائے میری بچی! ہائے ! کیا حال کر دیا انہوں نے تیرا! تو نے تو نہیں
کیا قتل۔ بھئی اپنی ماریہ یہ کیسے کر سکتی ہے۔ بولیں ناں ایاز!‘‘
مسز ایاز اندر داخل ہوتے ہی
چلائیں۔ انہوں نے آتے ہی ماریہ کو گلے سے
لگا لیا۔
’’امی! امی! میں غصے میں آ
گئی تھی۔ آپ کو تو پتہ ہے ناں۔ مجھے غصے میں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ‘‘
پتھر بنی ماریہ کو اتنی دیر
بعد یہ ایموشنل سپورٹ ملی تھی۔ سو اتنا کہتے ہی اس نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔
’’بس ! تم غصے میں آگئی اور ۔۔۔ اور۔۔اسے مار ہی ڈالا؟! ‘‘ ایاز غصے سے
بولا۔
’’بابا! آئی ایم سوری۔ مجھے
معلوم نہیں تھا کہ وہ مر ہی جائے گا۔میں کینٹین میں اپنی فرینڈز کے ساتھ کھڑی تھی
۔ وہ لائن توڑ کر آگے آگیا۔ بس پھرہمارا جھگڑا شروع ہو گیا۔ اس نے بھی تو مجھے
گالی دی تھی بابا۔تو میں غصے میں آگئی۔ میں نے کاؤنٹر سے بڑی والی چھری سے اس پر
۔۔۔ اس پر۔۔ میں تو بس۔۔۔میں۔۔۔ ‘‘ ماریہ اٹک اٹک کر کہہ رہی تھی۔
’’جھگڑا جو بھی تھا، کیا اس
کا حل حملہ کرنا تھا؟‘‘ ایاز اب چلا رہا
تھا۔
’’ ایاز۔ پلیز اسے چھڑوا دیں۔ آپ تو ملک کے صدر
ہیں۔ سارا ملک آپ کے تابع ہے۔ یہ فسادی پولیس والے۔۔ اس گستاخ انسپکٹر کو ابھی کے
ابھی معطل کر وادوں گی میں۔ یہ ہوتا کون ہے میری لاڈلی پری کو مجرمہ کہنے والا۔اب
بچے تو اس عمر میں ایڈونچر کر ہی دیتے ہیں۔‘‘
مسز ایاز نے ماریہ کو ساتھ
لگاتے ہوئے کہا۔ ان کا بڑا بھائی پچھلے دور حکومت کی بیوروکیسی میں اعلی عہدے پر شامل
تھا۔ انہیں اب بھی اپنے بھائی کے اثر و
رسوخ پر پورا یقین تھا۔
’’تو رو مت میری بچی! میں ابھی
تیرے ماموں کو کال ۔۔‘‘
’’محترمہ زینب ایاز صاحبہ! ‘‘
ایاز نے بیوی کی بات سرد لہجے
میں کاٹ دی۔
’’پورا ملک میرا تابع نہیں ،
اسی اللہ کا تابع ہے جس کا میں حکم مانتا ہوں۔ سب اسی کے تابعدار ہیں۔ قانون صرف
اللہ کا ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔ میری کیا اوقات میں ایک مجرمہ کو سزا سے
ہٹا سکوں۔ہماری بیٹی ماریہ نے بقائم ہوش و
حواس قتل کیا ہے اور اسے اس کی سزا ضرور ملے گی۔‘‘
’’اپنی سگی بیٹی ہے آپ کی۔
اس کو تو بچا لیں۔ ‘‘ اب مسز ایاز خود پر قابو نہ رکھ سکیں اور ماریہ کو گلے لگا
کر زاروقطار رونے لگیں۔ و ہ جانتی تھیں ایاز جو فیصلہ کر لیتا ہے اس سے پیچھے ایک
انچ نہیں ہٹتا۔
’’میرے نبی میرے محمد ﷺ نے
کہا تھا۔ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا۔ میں بھی
آج انہی کو فالو کروں گا۔ انہی کے اس طرز عمل کو اپناؤں گا۔ کیا ہوا جو صدر ہوں۔
قانون کی سزا سب کے لیے برابر ہے۔میں آج اپنی بیٹی کوبچا کر قیامت والے دن اپنے
نبی ﷺ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔‘‘ ایاز مضبوط لہجے میں بولا۔ کہیں سے بھی وہ ابھی
تھوڑی دیر پہلے کا ٹوٹا بکھرا باپ نہیں لگ رہا تھا۔ وہ ایک اسلامی مملکت کا صدر
تھا اور وہی حوصلہ اور استقامت اس کے لہجے سے جھلک رہا تھا جو اس کی پہچان تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سےایک
گھنٹے کے اندر اندر سزا سنائی جا چکی تھی ۔ جب انسپکٹر نے بتایا کہ عدالت عظمیٰ نے
تمام ثبوت مد نظر رکھتے ہوئے فوری پھانسی کے آرڈر جاری کر دیے ہیں تو مسز ایاز بے
ہوش ہو گئیں۔
ماریہ نے جھکے ہوئے سر کو
اٹھا کر اپنے باپ کو دیکھنا چاہا اور کچھ کہنا چاہا لیکن اس کی زبان گنگ ہو کر رہ
گئی۔ اس کی ٹانگوں سے جان جیسے نکل گئی اور وہ بے دم ہو کر فرش پر گر گئی۔
’’تیز ترین انصاف! ہر ایک کے
کے لیے!‘‘ یہ اس فائل پر لکھا تھا جو ابھی ابھی جج صاحب کا قاصد لے کر پہنچا تھا۔ یہ
صدر ایاز ہی کے حکم پر عدالتوں کی ہر فائل پر لکھوایا گیا تھا۔ یہ صرف ایک جملہ
نہیں تھا، بلکہ اس کا عملی ثبوت ان بیسیوں مقدموں اور سزاؤں کے فوری فیصلے تھے جو
عدالتیں ہر روز کر رہی تھیں۔ چاہے کوئی سیٹھ ہو یا مزدور، جب سے ایاز نے صدارت کا
منصب سنبھالا تھا، انصاف ہر ایک کی دہلیز پر میسر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لمحہ کتنا عجیب تھا جب
پوری قوم کے ساتھ ساتھ۔۔۔ خود صدر ایاز نے اپنی بیٹی کی پھانسی کا منظر لائیو
دیکھا۔یہ عدالت عظمیٰ کی آفیشل ویب سائٹ تھی جہاں پر پچھلے کئی ماہ سے سنگ ساری ،
پھانسی اور ہاتھ کاٹنے کی سزائیں لائیو دکھائی جاتی تھیں۔ لوگ حیران و ششدر تھے۔
کیا رشتہ دار، کیا اساتذہ سبھی غم زدہ تھے لیکن جانتے تھے۔ صدر ایاز قانون کی
بالادستی کے معاملے میں کسی کی نہیں سنتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی چھوٹی سی لائبریری میں
بیٹھا ایاز زارو قطار رو رہا تھا۔ ماریہ اس کے گھر کی رونق تھی۔ اس کی واحد اکلوتی
اولاد۔ وہ ایک انتہائی سخت امتحان میں
سرخرو ہوا تھا لیکن اب دل کی عدالت میں بے
بس کھڑا تھا۔
’’اگرچہ
ماریہ مجھ سے جدا ہو گئی ہے لیکن میں جانتا ہوں یہ وقتی جدائی ہے۔ اللہ اس کے گناہ
معاف کرے ۔ میں نے ایک ماریہ کی قربانی دے کر بہت سے نوجوان بچے
بچیوں کو یہ بتانا چاہا ہے کہ حکم صرف اللہ ہے ۔ وہ زندگی اللہ اور اس کے
رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزاریں گے تو کامیباب قرار پائیں گے۔ امید ہے
میری بیٹی کی پھانسی ان لوگوں کے لیے سبق بنی ہو گی جواپنے دشمن کو قتل کرنے کا
پلان سوچ رہے ہیں اور یہ پھانسی ان لوگوں کے لیے زندگی کا پیام لائی ہے جنہں ان کے
دشمنوں نے آج یا کل زندگی کی قید سے جدا کردینا تھا۔اللہ ہی ہے جس نے پیدا کیا
اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ تو پھر اسی کی مان کر کیوں نہ چلیں۔ ’’اوراے عقل
والو! تمھارے لیے قصاٖ ص میں حیات رکھ دی گئی ہے۔(سورۃ البقرۃ)‘‘
ایاز نے ٹویٹر پر قوم کے لیے یہ پیغام لکھا اور موبائل ایک طرف رکھ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سر! اس سالانہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس سال قتل کے کیسز میں پچانوے فیصد کمی دیکھی گئی۔
پورے ملک میں صرف پانچ قتل ہوئے جن میں دو قتل بالخظٔا تھے۔ ریپ کیسز کی
تعداد دو ہے۔ چوری اور موبائل snatching
کے سات واقعات ہوئے جو پچھلے دور حکومت
میں ایک سال کے اندر پانچ ہزار کے قریب تھے۔ جبکہ اس سال کوئی بینک نہیں لوٹا گیا
نہ ہی کسی مارکیٹ مین بھتہ مانگا گیا۔چوری اور ڈاکہ ڈالنے کے صرف تین واقعات ہوئے۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے بلیک میلنگ کے واقعات میں پچاس فیصد کمی آئی ہے۔ہماری ٹیم
فیک آئی ڈیز اور غیر اخلاقی ویب سائٹس پر تندہی سے کام کررہی ہے۔ تمام مجرمین کو
قرار واقعی سزائیں دلوائی گئیں ۔تھانوں اور
عدالتوں کا سسٹم اسی فیصد آن لائن ہو گیا ہے جس سے عوام الناس کو تیز ترین
انصاف فراہمی مزید یقینی بنائی گئی ہے۔‘‘
ایاز اس وقت آفس میں پورے سال کی کارگردگی کی رپورٹس پر
پریزنٹیشن دیکھ رہا تھا۔ آخری جملے پر اس کی آنکھوں سے ایک چھوٹا سا آنسو ٹپکا
اور اس کےکالر میں جذب ہو گیالیکن اگر میں اور آپ دیکھ پاتے تو اس کی آنکھیں امانت اور ذمہ داری کو پورا کردینے کے احساس سے کس قدرچمک رہی تھیں اور اس کا دل اللہ کے حضور سجدہ ریز تھا۔