چل کر تو ذرا دیکھئے اک گامِ محبت



 جیسے ہی عفان گاڑی سے  اترا ، اس کی نظر سکول کے مین بورڈ پر پڑی۔ اس کی نظروں میں تین سال پہلے کا منظر گھوم گیا جب وہ یہیں کھڑے ہو کر سوچ رہا تھا۔ بچوں کی فیس کے پیسے کہاں سے لاؤں۔ آج وہ اسی سکول میں اپنے بچوں کا نئے سرے سے ایڈمیشن کروانے آیا تھا۔اسی دن اسے ملک کی سب سے بڑی ایڈورٹائزنگ کمپنی سے ایڈ کرنے کی آفر آئی تھی اور جیب کے سارے کونے  خالی ہونے کے باوجود اس نے انکارکر دیا تھا۔

’’سر! تھائی لینڈ میں شوٹ ہو گا ایڈ۔ آپ اور آپ کی تمام فیملی کے ٹکٹ۔۔‘‘

’’امراۃ مصر کی آواز پر کان مت دھرو!‘‘ عفان کے کانوں میں مولانا کی آواز گونجی۔ اس نے ’’رہنے دو۔ میں سائن نہیں کر رہا۔‘‘ کہہ کر فون رکھ دیا تھا۔

’’بابا! کیا سوچ رہے ہیں۔چلیں ناں!‘‘ بچوں نے اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے سوچوں کے بھنور سے باہر نکالا۔ وہ اپنے پرانے سکول آکر بہت خوش تھے۔

ایڈمیشن اور دوسرے ضروری کاموں سے فارغ ہو کر وہ گاڑی میں آبیٹھا۔ایک بار پھر وہ خیالوں کی دنیا میں وہیں پہنچ چکا تھا جب وہ شوبز کا چمکتا ستارہ ہوا کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’عفان! آخر کب چلنا ہے۔ کتنی دیر ہے اور؟‘‘

’’چلتے ہیں ۔ چلتے ہیں۔ جتنی دیر سے جاؤ۔ آڈیئنس  اتنی ہی پرجوش ہوتی ہے۔ ٹھہرو جاؤ تھوڑی دیر اور!‘‘

’’حد ہے یار! لوگ واپس جانا شروع ہو جائیں گے۔ ہم پہلے ہی آدھا گھنٹہ لیٹ ہیں۔‘‘ یاسر نے جھنجھلا کر کہا۔ وہ اس کا مینجر بھی تھا اور گہرا دوست بھی۔

’’توکیا ہوا! بھئی فی ٹکٹ پانچ ہزار روپے جمع کروائے ہیں ہر بندے نے۔ میرا گانا سنے بغیر تو واپس جائیں گے نہیں۔ یہ ذہن میں رکھ لو۔‘‘ عفان نے فخر سے کہا۔ وہ بہت مشہور سنگر تھا۔ بیرون ملک بھی ہر سال اس کے کئی شو ہوتے تھے۔ آج اس کا کنسرٹ ایک یونیورسٹی میں تھا۔


’’لو! پھر مولانا صاحب کی کال! اب اٹینڈ کرنے مت بیٹھ جانا۔ کنسرٹ کے بعد کرلینا کال۔ بس ابھی چلو!‘‘ آخر یاس نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اٹھا دیا۔ وہ اوہو کرتا رہا گیا کہ مجھے مولانا سے بات تو کرنے دو۔ ہو سکتا ہے کوئی ضروری بات ہو لیکن یاسر نے ایک نہ سنی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گانا شروع ہوا تو نوجوان بے قابو ہو گئے۔ وہ پہلے ہی عفان کے سٹیج پر آنے پر زوردار ہوٹنگ کر چکے تھے۔جیسے ہی گانا اختتام کو پہنچا، ایک طرف سے لڑائی جھگڑے کی آواز یں آنے لگیں۔ پہلے گالم گلوچ پھر مار پیٹ کی آوازیں۔ عفان  اور یاسر کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ ایسا تقریبا روز ہی ہوتا تھا۔ ہر کنسرٹ ہر شو میں لڑکے ایک دوسرے سے لڑ پڑتے۔ کبھی سٹیج پر آنے کے لیے کبھی عفان کے آٹوگراف کے لیے۔

ابھی بھی سب لڑکوں کی خواہش تھی کہ وہ عفان کے ساتھ زیادہ نہیں تو ایک آدھ سیلفی بنا ہی لے۔ اسی کوشش میں وہ اب سٹیج کی سیڑھیوں پر جمگھٹا بنارہے تھے کہ بھگڈر سی مچ گئی ۔اب  عفان نیچے اتر رہا تھا۔ لوگ اس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ کوئی سیلفی بنا رہا تھا۔ کوئی اس کی تعریف کر رہا تھا۔ کوئی اس کو بتا رہا تھا کہ وہ کتنی دور سے اس کے کنسرٹ کے لیے آیا ہے۔ اچانک عفان کے کانوں میں تیز آواز پڑی۔

’’ہونہہ! ہے تو مراثی ہی۔ میں کیوں سیلفی بنواؤں؟ یار میرے ابا نے دیکھ لیا مجھے یہاں تو میرا کچومر نکال دیں گے۔ چل بس ہو گیا انجوائے۔ اب ! چلتے ہیں۔‘‘ یہ دو لڑکے تھے ۔ حلیے سے اچھے گھرانے کے لگ رہے تھے۔

عفان نے بس ایک دو بار ان پر نظر ڈالی پھر ہٹا لی۔ ایک جملہ ا س کے کانوں میں بار بار گونج رہا تھا۔

’’ہے تو مراثی ہی۔ ہے تو مراثی ہی۔‘‘

جتنا رش تھا اتنا ہی شور۔ لیکن نہ جانے کیسے ان لڑکوں کی گفتگو عفان کے کانوں تک پہنچ گئی تھی۔ ایک لمحے کے لیے تو عفان نے سوچا کہ گارڈ سے کہہ کر انہیں دو ہاتھ لگوا ہی دوں۔ ہوتے کون ہیں اسے اس طرح کہنے والے۔وہ اتنی بڑی سیلیبرٹی اور یہ لڑکے اسے مراثی کہہ رہے تھے۔ عفان کا خون کھولنے لگا۔ اچانک اس کے پاکٹ میں پڑا موبائل وائیبریٹ کرنے لگا۔

’’مولانا صاحب کی کال۔۔‘‘ اس نے سوچا۔

اس کی ٹیم اسے ویٹنگ لاؤنچ میں لے گئی جو ہر طرح کی سہولت سے آراستہ تھا۔ اطمینان سے صوفے پر بیٹھتے ہوئے عفان نے اپنا موبائل نکالا۔ مولانا صاحب کی چھ مس کالز تھیں۔ اس نے فوراً  کال بیک کی۔

’’ارے بھئی! میں نے کہا بیٹا عفان!کل سے کراچی میں اجتماع شروع ہے۔ میں شدت سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ ‘‘

مولانا اختر صاحب کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی۔

اتنی دیر سے عفان کے تنے ہوئے اعصاب کو سکون مل گیا۔ بہت دنوں سے عفان شدید بے سکونی کا شکار تھا۔ کئی بار اسے ایسا لگا جیسے وہ تھک  ساگیا ہو۔ اسی تھکاوٹ کے چکر میں وہ پچھلے ماہ سوئزلینڈ سے ہو کر آچکا تھا۔  وہاں کی خوبصورتی نے اس کے اندر کے ڈیپریشن کو کم کرنے کی بجائے اور بڑھا دیا تھا۔

مولانا اختر نعمان سے عفان کی ملاقات بس ایک بار ائیر پورٹ پر ہوئی تھی۔سفید لباس سفید ریش  اور ماتھے پر نور ہی نور۔ بہت گرمجوشی اورپیار سے ملے۔ اس کے بعد سے وقتاً فوقتاً وہ رابطہ کرتے رہتے تھے۔بس عام سی باتیں۔ حال چال۔ عفان سے اس کے پروگراموں کے بارے میں پوچھتے۔ کچھ اپنی بات کرتے کہ آج یہاں جارہا ہوں یا یہ کر رہا ہوں اور بس۔ انہوں نے کبھی کوئی دوسری بات اسے نہ کہی۔  ان کے لہجے میں، ان کے الفاظ ’’بیٹا عفان‘‘ میں عفان کے لیے اتنی محبت ہوتی کہ عفان کو ہمیشہ ان کی کال کا انتظار رہتا۔ اس نے خود سے کبھی کال نہیں کی تھی۔ ہمیشہ سوچتا کہ آج میں رابطہ کرتا ہوں لیکن پھر دوسرے کاموں میں الجھ جاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج  وہ مولانا صاحب کے عارضی خیمے میں ان کے سامنے بیٹھا تھا۔آج اجتماع کا آخری دن تھا۔ عفان کویہاں آئے تین دن ہو چکے تھے ۔وہ پورے پنڈال میں گھوم پھر چکا تھا۔ اس نے ایک بات نوٹ کی تھی۔ اکثر جو یہاں آئے ہوئے تھے، بڑے ہی پرسکون اور مطمئن چہروں والے تھے۔ وہ عفان کی طرح نہیں تھے جسے پچیس سال کی عمر میں نیند کے لیے گولیاں لینی پڑیں۔ تینوں راتیں یہ لوگ بڑی سکون والی نیند سوئے تھے۔

’’کیسے؟ ان کے پاس نہ تو اتنی دولت ہے جتنی میرے پاس۔ نہ ان کے پاس بڑا بنگلہ ہے نہ خوبصورت لڑکیاں ان کے اردگرد گھومتی ہیں۔ پھر یہ کیوں اتنے اطمینان میں ہیں؟‘‘ عفان سوچ سوچ کر الجھتا رہا۔

 لوگ اس کے اردگرد اس سے یکسر بے نیاز تھے۔ یا تو وہ اسے پہچانتے نہیں تھے یاپھر یہاں عزت اور مرتبے کا معیارہی کچھ اور تھا۔

’’مولانا! یہ لوگ جو اجتماع میں آئے ہوئے ہیں۔۔اتنے پر سکون کیسے ہیں؟میرا مطلب ہے یہ ۔۔ یہ نہیں چاہتے ان کے پاس ڈھیر ساری دولت ہو گھر ہو بڑا سا۔۔ بہت سہولتیں ہوں۔ ان کے پا س تو کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر بھی یہ پر سکون کیوں دکھتے ہیں؟‘‘

’’اس لیے کہ یہ لینے میں دینے میں یقین رکھتے ہیں۔ ‘‘

مولانا کے ایک ہی جملے سے عفان کی ساری الجھن سلجھن میں بدل گئی تھی۔

’’ایک عام سا بندہ ایک غریب مزدور یا ورکر جو رات ہوتے ہی گہری نیند سو جاتا ہے وہ اتنی پر سکون نیند اس لیے سوتا ہے کیوں کہ اس کا ضمیر جاگ رہا ہوتا ہے۔ وہ حاصل کی دوڑ میں نہیں بھاگ رہا ۔ یہ مل جائے۔ یہ بھی مل جائے۔ انسان کو ایک پہاڑ مل جائے سونے کا تو وہ دوسرے کی خواہش کرتا ہے۔ یہ حاصل کی دوڑ ہے۔ یہ لالچ ہے۔ اس دوڑ سے باہر آجاؤ۔بس دینا شروع کرو۔ جیسے لینے کی کوئی حد نہیں ایسے دینے کی بھی کوئی حد نہیں۔ جتنا لو گے اتنا بے سکون رہو گے۔ جتنا دو گے اتنے پر سکون ہوتے جاؤ گے۔‘‘ مولانا مسکراتے ہوئے بولتے رہے۔

’’مولانا! میں کسی کو کچھ نہیں دے سکتا۔ میری اتنی حیثیت کہاں۔ میں تو مراثی ہوں مراثی۔ میری کوئی عزت نہیں ہے لوگوں کی نظروں میں۔‘‘

’’لوگوں سے عزت کروانا مقصود بھی تو نہیں  تھابیٹاعفان! آج تم گلیمر سے باہر نکل آو۔ کوئی تمھیں نہیں پوچھے گا۔ہاں! ایک ایسا ہے جو تمھیں ہر حال میں یاد رکھتا ہے چاہے تم اسے سالوں برسوں بھولے رہو۔ وہ تمھارا رب اللہ ہے۔‘‘

’’ میرے دوست  کہیں گے۔ نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔ آپ کو کیا پتہ میں کیا کیا کر چکا ہوں۔‘‘

’’اتنا کرو کہ زمین و آسمان بھر کر رکھ دو۔ پھر کہو یا اللہ معاف کردیں۔ اللہ سب معاف کر دے گا۔ ‘‘ مولانا نے کہا تو عفان کا جی چاہا دھاڑیں مار کر روئے۔ اتنا رحیم اور غفور تھا اس کا رب اور وہ کیا سمجھ بیٹھا تھا۔

پھر اسے خیال آیا۔ وہ پیسہ کیسے کمائے گا ۔ اسے کوئی  ہنر نہیں آتا تھا۔ تعلیم بھی کوئی خاص نہیں تھی۔ گھر کا خرچہ بچوں بیوی کے خرچے ۔ خواہشات۔ لذتیں۔ شہرت۔ یہ سب کیسے چھوڑ دوں بھلا۔

’’لیکن!۔۔ میں گلوگاری  نہیں چھوڑ سکتا ۔ اس میں بہت پیسہ ہے شہرت ہے  اور۔۔۔اور۔۔۔ ‘‘

’’ھَیْتَ لَکَ کی آواز پر کان مت دھرو۔‘‘ مولانا نے اچانک بات کاٹ دی۔

’’کیا مطلب۔۔ کون سی آواز؟‘‘ عفان کی سمجھ میں نہ آیا۔

’’امراۃ مصر کی آواز پر کان مت دھرو۔۔ وہ جب اس  نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بلایا تھا سب دروازے بند کر کے ، بن سنور کے،  ’’ھَیْتَ لَکَ‘‘ آجاؤ میری طرف۔ وہ پکار آج بھی سنائی دیتی ہے۔دولت بھی ہمیں  کہتی ہے  ’’ھَیْتَ لَکَ‘‘ آجاؤ میری طرف۔ شہرت کہتی ہے نہیں میری طرف آؤ۔ گناہوں کی لذت پکارتی ہے ، بدنگاہی کی لذت، میوزک کا مزہ سب پکارے گا ’’ھَیْتَ لَکَ‘‘ لیکن تم پتہ کیا کہو!‘‘

اتنا کہہ کو مولانا آگے کو جھکے اور مسکرا کر بولے۔

’’ تم کہو معاذ اللہ! اللہ کی پناہ۔ بے شک میرا رب ہی  (گناہ سے رک جانے کا مجھ کو) بہترین اجر دینے والا ہے۔یہ وہ جملہ ہے جو یوسف علیہ السلام نے زلیخا کو کہا تھا۔ اس کی پکار کے جواب میں۔قَالَ مَعَاذَ اللّـٰهِ ۖ اِنَّهٝ رَبِّىٓ اَحْسَنَ مَثْوَاىَ۔ پھر ایک دن وہ بھی آیا جب یوسف علیہ السلام کو اللہ پاک نے پورے مصر کا بادشاہ بنا دیا ، ان کے بھائی ان کے پاس معافی مانگتے چلے آئے ، ان کے خواب کی تعبیر پوری ہوئی ،اور جب  وہ پوری شان و شوکت کے ساتھ تخت پر جلوہ افروز تھے، تب انہوں نے وہ جملہ کہا جو پورے قرآن کا خلاصہ ہے۔ اِنَّهٝ مَنْ يَّتَّقِ وَيَصْبِـرْ فَاِنَّ اللّـٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ (90) ’’بے شک جو تقویٰ اختیار کرے ( یعنی گناہ سے رک جائے)  اور صبر کر لے ( نفس کو لذت سے روک دے)، پس بے شک اللہ نیک لوگوں کے (چھوٹی سے چھوٹی سی نیکی کے ) اجر کو (بھی) ضائع نہیں کرتا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عفان نے کچھ دنوں بعد پریس کانفرنس کی تو شوبز میں بھونچال سا آگیا۔ ہر کوئی حیران تھا ۔ اتنے عروج پر پہنچ کر میوزک کو کیوں چھوڑ دیا۔ بہت سی کمپنیوں نے ایڈز اورمختلف  پراجیکٹس کے ذریعے عفان کو طرح طرح کی لالچ دی۔ عفان نے  ’’ھَیْتَ لَکَ ‘‘ کی کسی بھی آواز پر لبیک نہ کہا۔ اس کی بیوی اس کی ہم خیال تھی۔ وہ پوری طرح اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ کچھ دنوں بعد عفان نے اللہ کا نام لے کر بزنس شروع کیا جو بہت ہی چھوٹے پیمانے پر تھا لیکن اللہ کے نزدیک جذبہ زیادہ قابل قدر ہوتا ہے۔ اللہ  پاک دلوں کی نیت کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

آج ایک مارکیٹ میں عفان کو لوگوں نے گھیر لیا۔ وہ اس کے فیس بک پر لائیو آکر بیان کرنے کو سراہ رہے تھے۔ اس کو بتا رہے تھے کہ کیسے انہیں عفان کےاس پازیٹو بدلاؤ سے موٹیویشن ملی ہے۔عفان کا دل پھول کی پتی کی مانن ہلکا پھلکا ہو گیا۔ وہ جانتا تھا اس نے اپنے گانوں کے ذریعے بہت برائی پھیلائی تھی۔ رب کو بہت ناراض کیا تھا۔ اب اسے رب کو راضی کرنا تھا۔ وہ سوشل میڈیا کو اب نیکی پھیلانے کے لیے بھرپور استعمال کر رہا تھا ۔ لوگوں کی زندگیوں میں اس کی باتوں سے بڑی تبدیلیاں آرہی تھیں۔ آج کا ہجوم جو اس کو بہت پیار اور محبت سے گھیرے ہوئے تھا ، اس کا واضح ثبوت تھا۔ وہ اب شوبز کی سیلیبرٹی نہیں ، دلوں کی سیلیبرٹی تھا۔ اس نے جب میوزک کے پراجیکٹس چھوڑے تو اس کے پاس اگلے مہینے کے خرچے کے کوئی پیسے نہیں تھے۔ بچوں کی فیسیں کہاں سے ادا ہوں گی۔ یہ اس نے سوچا تو تھا لیکن پھر اللہ پر چھوڑ دیا تھا۔ آج تین سال بعد وہ اپنے بچوں کو اسی سکول سے پک کرنے جا رہا تھا جہاں سے فیس ادا نہ کرنے پر انہیں نکالا گیا تھا۔ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کی جس راہ پر قدم رکھ دیے تھے، وہ مشکل ضرور تھی لیکن دل کا سکون اور روح کی طمانیت ، اللہ کی رضا اور حضور ﷺ کی خوشی سب اسی راہ پر چل کر ملتی تھیں تو وہ کیوں نہ چلتا۔

ہے کوچۂ جاناں کا سفر باعثِ تسکیں
چل کر تو ذرا دیکھئے اک گامِ محبت
ناکام بھی ہوجائے تو رہتا ہے زباں پر
گُمنام نہیں ہوتا ہے ناکامِ محبت