بوبو بھالو کو موبائل ملا-1

 


میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے منے سے بھالو میاں کی جو آم کے درخت کے نیچے رہا کرتے تھے۔ ایک دن جب بھالو میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھے تو ان کے گھر سے آواز آئی۔

’’بوبو بیٹے! جلدی سے گھر آجاؤ۔ تمھارے ماموں آرہے ہیں۔‘‘ بھالو میاں، جن کا نام بوبو تھا ، نے یہ سنا تو اپنے دوستوں سے کہا۔

’’آہا! ٹیڈی ماموں آرہے ہیں۔ وہ ہمیشہ میرے لیے بہت اچھے تحفے لاتے ہیں۔ اچھا! میں تو چلا!‘‘

’’توتم ہمیں اپنا تحفہ نہیں دکھاؤ گے؟‘‘ ایک چھوٹا سا بھالو بولا۔

’’کیوں نہیں!شام کو تم سب میرے گھر چلے آنا۔ پھر ہم مل کر اس تحفے سے کھیلیں گے۔‘‘ بوبو نے کہا ۔ پھر وہ اللہ حاٖفظ کہہ کر اپنے گھر چلا آیا۔

’’بوبو! نہا دھو کر تیار ہو جاؤ۔ اور ہاں! اپنی الماری میں سے نیا بستر نکال کر ساتھ والے بیڈ پر بچھا دو۔ ٹیڈی ماموں اس بار رہنے کے لیے آرہے ہیں۔‘‘

’’آہا! پھر تو بہت ہی مزہ آئے گا۔‘‘ بوبو بھالو نے نعرہ لگایا ۔ پھر اس نے نیلے رنگ کا ایک نیا بستر اور تکیہ نکالا اور اپنے بیڈ کے ساتھ والے بیڈ پر بچھا دیا ۔ایک گیلے کپڑے سے کرسی اور میز صاف کیے،تازہ پھول گلدان میں سجائے اور کھڑکی کے پرد ے ہٹا دیے۔پھر اس نے اپنا سرخ رنگ کا رمپر نکالااور نہانے چلا گیا۔

’’ٹھک ٹھک ٹھک!‘‘


دروازے پر دستک ہوئی۔ بوبو بھالو کی امی نے دروازہ کھولا۔ یہ ٹیڈی ماموں تھے۔ انہوں نے سیاہ پینٹ کوٹ اور براوئن ہیٹ پہن رکھا تھا۔ کوٹ کی اوپر والی جیب پر شہد کی مکھی والا بیج بھی تھا۔

جب سب دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو گئے تو ٹیڈی ماموں نے اپنا بریف کیس نکالا۔اس میں سے ایک سفید رنگ کا چمکتا ہوا ڈبہ نکالا اور بوبو کو پکڑا دیا۔ 

’’آہا! موبائل فون! ‘‘ بوبو بھالو نے نعرہ لگایا۔پھر اس نے جلدی جلدی سے ڈبہ کھولا ۔ موبائل فون نکالا ۔ ٹیڈی ماموں نے ضروری سیٹنگ کر کے اسے موبائل تھمادیا۔

بوبو موبائل لے کر اپنے کمرے میں آگیا۔ اس نے کئی گیمز انسٹال کیں اور یوٹیوب پر وڈیوز دیکھیں۔ حتیٰ کہ شام ہو چلی اور بوبو اپنے موبائل میں مصروف تھا۔

’’بوبو! تمھارے دوست آئے ہیں۔ وہ تمھارا نیا تحفہ دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

پہلے والا وقت ہوتا تو بوبو بھاگتا ہوا جاتا اور اپنے دوستوں کو اندر لے آتا ، لیکن اس وقت تو وہ ایک آن لائن گیم  کھیلنے میں مصروف تھا۔

’’افوہ! ان کو بھی ابھی ہی آنا تھا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ بھول گیا کہ اس نے خود ہی اپنے دوستوں کو اپنے گھر انوائٹ کیا تھا۔

’’بوبو!‘‘

بھالو امی کی آواز دوبارہ آئی تو اس نے بد دلی سے موبائل سائیڈ پر رکھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا باہر آگیا۔

’’جی امی!‘‘

’’تمھارے دوست کب سے دروازے پر تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔ ‘‘

’’تو آپ ان سے کہہ دیں ناں کہ میں ابھی نہیں کھیلنا چاہتا۔ ابھی میں Masha and Bear  کھیلنا چاہتا ہوں۔ اور بس!‘‘ بوبو نے پاؤں پٹخ کر کہا ۔

’’یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ بھالو امی نے پوچھا۔

’’گیم ہے موبائل میں۔‘‘ بوبو نے مڑے بغیر جواب دیا اور تیز قدموں سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔

بھالو امی حیران رہ گئیں۔ ایسا تو پہلی بار ہوا تھا کہ بوبو بھالو ان سے ایسی بدتمیزی سے بات کرے۔ اور بوبو بھالو کے دوست آئیں اور بوبو ان کے ساتھ نہ کھیلے، یہ تو  ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

 خیر! انہوں نے بوبو کے دوستوں کو کوئی بہانہ بنا کر واپس بھیج دیا۔ پھر وہ بوبو بھالو کے کمرے میں چلی آئیں۔ انہوں نے دیکھا۔ دوپہر میں بوبو نے جس ٹرے میں مچھلی کھائی تھی ، وہ ابھی تک سائیڈ ٹیبل پر پڑی تھی۔ پانی کا گلاس نیچے زمین پر اوندھا پڑھا تھا اور بوبو کی کہانیوں کی کتاب  بھی میز کے نیچےالٹی گر ی ہوئی تھی۔ بوبو بیڈ پر الٹا لیٹا موبائل پر گیم کھیل رہا تھا۔ وہ اتنا مصروف تھا کہ اس کو امی کے آنے کا بھی پتہ نہیں لگا۔ بھالو امی کچھ بھی کہے بغیر پریشان  پریشان سی واپس چلی آئیں ۔

ایسے ہی کئی دن گزرتے چلے گئے ۔ بوبو بھالو نے اپنے دوستوں سے ملنا جلنا بہت ہی کم کر دیا تھا۔ وہ نہ صبح کی سیر کرنے جاتا تھا نہ ہی اس کو تتلیاں پکڑنے اور ان کے پیچھے بھاگنے کا شوق رہا تھا۔ چونکہ اس نےشام کو باہر جا کر دوڑنا بھاگنا بھی بند کر دیا تھا تو اب اسے پہلے کی طرح بھوک ہی نہیں لگتی تھی۔ بوبو کا دل کرتا وہ کھانے کی پلیٹ ایسے ہی رکھ کر کمرے میں چلا جائے اور موبائل میں گیم کھیلنے لگے۔ ماما بھالو جب بھی اسے موبائل رکھنے کا کہتیں، بوبو کو بہت غصہ آتا۔ وہ ہر وقت گیم کھیلنا اور کارٹون دیکھنا چاہتا تھا بس۔ اس کا دل کرتا تھا کوئی بھی اسے موبائل سے نہ روکے۔

ایک دن بوبو بھالو جب سو کر اٹھا تو اس نے دیکھا۔ موبائل کی بیٹری آف تھی۔ رات کو وہ چارجر پر لگانا بھول گیا تھا۔ اس نے جلدی سے چارجر پر موبائل لگایا اور منہ ہاتھ دھو کر یونہی کھڑکی کے ساتھ بیٹھ گیا۔ بھالو امی کچن میں ناشتہ بنا رہی تھیں۔ باہر کھڑکی سے بوبو کے دوستوں کی آواز یں آرہی تھیں۔ وہ شاید دوسرے جنگل کی سیر کا پروگرام بنا رہے تھے۔

’’میں تو بڑے سے ٹفن میں مچھلی اور آلو والے سینڈوچ لاؤں گا۔‘‘ ایک دوست کی آواز آئی۔ بوبو نے کھڑکی کا پردہ ذرا سا ہٹا کر باہر دیکھا۔

’’ہاں! سب لوگ اسٹک بھی ساتھ لائیں۔ ہو سکتا ہے ہمیں اس سبز پہاڑی پر بھی چڑھنا پڑے۔‘‘

’’آہا! کتنا مزہ آئے گا ناں!‘‘

’’ہاں! پانی کی بوتل کون لائے گا۔ ‘‘

’’اچھا! چھتری!‘‘

’’اور وہ ٹارچ اور سن گلاسز؟‘‘

دوست پلان بناتے رہے اور بوبو چپکے سے ان کی باتیں سنتا رہا۔ اچانک ایک آواز آئی۔

’’ٹن ٹان!‘‘ موبائل کی چارجنگ مکمل ہو گئی تھی۔ بوبو نے آہستہ سے کھڑکی کا پردہ برابر کیا اور موبائل اٹھا لیا۔ آج اس کا کوئی خاص دل نہیں کر رہا تھا کوئی بھی گیم کھیلنے کو۔

بھالو امی کا بھی آج ایک خاص پلان تھا۔ انہوں نے اپنی نگرانی میں بوبو کو ناشتہ کروایا، کپڑے بدلوائے اور سکول کا ہوم ورک کروایا۔ یہ ہوم ورک شہد کی مکھیوں اور ان کے حملے سے بچنے کے متعلق تھا۔ بوبو کو آج کا ہوم ورک بہت اچھا لگا۔ اس نے سوچا۔

’’کاش! مجھے کوئی چھتہ نظر آجائے اور میں اس خاص تیکنک سے کام لے کر سارا شہد اتار لوں! ‘‘

بھالو امی ان سب  کاموں سے فارغ ہو کر کمرے میں آئیں اور فون سیٹ سے ایک نمبر ملایا۔ پھر ایک بھاری سی آواز آئی۔

’’ہیلو! مسٹر ماؤس سپیکنگ! ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بچو! یہ مسٹر ماؤس کون ہیں اور بھالو امی ان کو کیوں فون کر رہی ہیں۔ یہ جاننے کے لیے اس کہانی کی اگلی قسط پڑھنا نہ بھولیں!