’’ہائیں! جنت بی بی ! یہ تم ہی ہو ناں! ‘‘
مارے بے یقینی کے دادو کے منہ سے نکلا۔ ان کی بہن جنت بی بی
یو کے شفٹ ہو گئی تھیں۔ دادو ان کے جاتے وقت آخری بار مل بھی نہ سکی تھیں کیونکہ
ان کی طبیعت بہت خراب تھی۔ ڈاکٹر نے انہیں کہیں بھی آنے جانے سے منع کر رکھا تھا۔
پہلے تو کئی دن سمیر ان کی اداسی کو دیکھتا رہاپھر اچانک اس
کے ذہن میں خیال آیا۔
’’کیوں نہ دادی جان کی وڈیو کال کروائی جائے جنت دادو سے۔
‘‘
بس اب وہی وڈیو کال ہو رہی تھی۔ دادو کواپنی آنکھوں پر
یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ بار بار اپنا چشمہ صاف کرتیں، ٹھیک سے ناک پر جماتیں اور
کہتیں۔
’’جنت بی بی! یہ تم ہی ہو ناں!‘‘
ان کے بار بار کے اس سوال سے تنگ آکر جنت دادو بولیں۔
’’نہیں! الفت۔ یہ میں نہیں میری روح ہے جو تم سے ملاقات
کرنے آئی ہے۔‘‘
’’آہاہاہا!‘‘ دادو نے قہقہ لگایا ۔
’’اچھا! اچھا! مجھے یقین آگیا کہ یہ تم ہو۔ کیونکہ ابھی ابھی
تم نے اپنے دوپٹے کے کونے سے اپنی ناک صاف کی ہے۔‘‘
’’ہاہ! ہائے! وہ ۔۔ وہ تو ۔۔ تمھیں دیکھ کر میں تھوڑی
جذباتی ہو گئی تھی اور مجھے رونا آگیا تھا کہ ہم اتنی دور آگئے ایک دوسرے سے۔۔۔
اچھا جاؤ۔ تم نے میرا مذاق اڑایا ہے۔ پھر میں تو کال بند کر رہی ہوں۔‘‘
جنت دادو نے کہاتو سمیر کی دادو نے فوراً کان پکڑ لیے۔
’’نہیں! نہیں! میری پیاری جنت! تو تو میری بڑی اچھی بہن
ہے۔اچھا ! اور سنا۔ لندن کیسا ہے پھر؟‘‘
’’ہاں! بہت اچھا ہے اور یہ دیکھ میرے کمرے میں جو ہیٹر لگا
ہے اس میں جلتی آگ نظر نہیں آتی۔ بس ڈبہ چاروں طرف سے ٹھنڈا رہتا ہے ۔ یہ دیکھ!‘‘
جنت دادو بچوں کی طرح خوش ہو کر اپنا کمرہ دکھارہی تھیں۔
سمیر نے مسکراکر الفت دادو کو وڈیو کال میں مصروف دیکھا اور
سوچا۔
’’ابو کا دیا ہوا سمارٹ فون کاتحفہ کتنا اچھا ہے! اتنے دنوں
سے دادو اداس تھیں اور آج کتنی خوش نظر آرہی ہیں۔‘‘
اپنے کمرے کی جانب بڑھتے ہوئے سمیر کے کانوںمیں ایک آواز
ٹکرائی۔
’’انڈے! گرم انڈے!‘‘
یہ ارسلان تھا۔ وہ سننے اور بولنے سے معذور تھا۔ وہ سن تو
سکتا تھا ۔ وہ بہت محنتی لڑکا تھا۔ دن کے وقت وہ سپیشل ایجوکیشن سکول میں پڑھتا
تھا۔ شام کو کبھی غبارے، سٹیشنری اور کبھی انڈے اور قہوہ بیچتا تھا۔ اس کے پاس ایک
چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر تھا جس پر سے ’’گرم انڈے گرم قہوہ‘‘ کی آواز گونجتی رہتی
تھی۔
’’سمیر! جاؤ بیٹا! ارسلان سےدرجن انڈے خرید لاؤ۔‘‘
سمیر کے ابو
جان نے کہا۔
’’جی ابو!‘‘ سمیر نے ان سے پیسے پکڑے اور باہر کی جانب چل
دیا۔
’’آہ! کتنی سردی ہے باہر
اور یہ میری ہی عمر کا بچہ کتنی محنت سے انڈے بیچ رہا ہے۔‘‘
سمیر، ارسلان کو کولر میں سے انڈے نکالتے ہوئے غور سے دیکھ
رہا تھا۔
اس نے بس ایک بوسیدہ سی جیکٹ پہنی ہوئی تھی اور پاؤں میں
خالی چپل۔ ایسا لگتا تھا اس کے پاس سردی سے بچنے کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔
اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔اس نے انڈے پکڑے اور کہا۔
’’ارسلان! تم یہیں رکو۔ جانا نہیں! میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
ارسلان نے نا سمجھی
سے سمیر کو دیکھاپھرمسکرا کر سر ہلا دیا۔
سمیراحتیاط سے انڈوں کی پلیٹ تھامے اندر آیا۔اس نے پلیٹ
کچن میں رکھی اور دادو کےکمرے میں چلا آیا۔ دادو وڈیو کال
ختم کر چکی تھیں۔ اب موبائل کو غور
سے آنکھیں میچ کر دیکھ رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر
بہت پیاری مسکراہٹ تھی۔ وہ بہت خوش لگتی تھیں۔
سمیر کو دیکھتے ہی کہنے لگیں۔
’’سمیر ! میرا بیٹا! تو نے میری بات کروا دی جنت سے۔ میں تو بہت اداس ہو گئی تھی۔اللہ تجھے خوش رکھے تجھے
بہت دے۔۔میرے پتر!‘‘
سمیر کو ایسا لگا جیسے اس کا دل سکون سے بھرتا جارہا ہو۔
اسے ہمیشہ دادو کی دعائیں بہت اچھی لگتی تھیں۔
پھر سمیر نے ان سے موبائل لیا اور ارسلان کے پاس آگیا۔
ا س نے وڈیو کیمرہ آن کیا اور ارسلان کے سامنے کھڑا ہو
گیا۔
’’میں تمھاری وڈیو بنانا چاہتا ہوں ارسلان بھیا! میں اسے
سوشل میڈیا پر شئیر کروں گا۔ اس سے تمھیں فائدہ ہو گا۔‘‘ سمیر نے ساری بات اسے
اشاروں میں سمجھائی۔
ارسلان ہکا بکا رہ
گیا۔ اس نے مدد کا یہ طریقہ پہلی بار دیکھا تھا۔ دل ہی دل میں وہ سمیر کا بہت ممنو
ن ہوا۔ پھر اس نے مسکراتے ہوئے جلدی جلدی بال درست کیے اور ہاتھوں سے کپڑوں کی
شکنیں بھی ٹھیک کر لیں۔ کولر ایک ہاتھ میں پکڑا اور قہوے کا تھرماس دوسرے ہاتھ میں
تھام لیا۔
’’دوستو! یہ ارسلان ہیں۔ یہ صبح سکول جاتے ہیں اور شام کو
اپنا بزنس کرتے ہیں۔ اگر آپ کو گرما گرم لذیذ انڈے اور قہوہ لینا ہو تو حیدر
سٹریٹ ضرور تشریف لائیے۔ یہاں سفید گیٹ کے
سامنے یہ اپنا سٹال لگاتے ہیں۔ ارسلان بہت اچھی سٹیشنری اوررنگ برنگے غبارے بھی سیل کرتے ہیں ۔
ارسلان ایک محنتی اور ایماندار لڑکے ہیں۔ ان کا کانٹیکٹ نمبر میں وڈیو کے کیپشن میں لکھ دوں گا۔ارسلان بول نہیں
سکتے نہ ہی سن سکتے ہیں۔ آپ میسج کے ذریعے ا ن سے رابطہ کرسکتے ہیں۔آخر میں آپ
کو بتاتا چلوں کہ ۔۔ ‘‘
اتنا کہہ کر سمیر رکا اور پھر اس نے ارسلان کے ہاتھ میں
پکڑے ہوئے انڈوں کو فوکس کیا ۔
’’کہ یہ گرما گرم انڈے بہت مزیدار ہو تے ہیں اور قہوے کے
ساتھ تو اور مزے کے لگتے ہیں۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آہا!‘‘ سمیر نے جب وڈیو کے ویوز اور کمنٹس دیکھے تو وہ
حیران رہ گیا۔ سینکڑوں لوگوں نے ارسلان کی حوصلہ افزائی سے بھرے جملے لکھ ڈالے
تھے۔ بہت سے لوگوں نے کہا تھا کہ وہ ضرور ارسلان سے چیزیں خریدیں گے۔ ایک بندے نے
تو ارسلان کے ساتھ جا کر سیلفی بھی بنوا لی تھی اور اس سے تین درجن پنسلیں خرید کر
ان کی تصویر بھی سیلفی کے ساتھ اپلوڈ کی
تھی۔
’’گرم انڈے‘‘
اس دن جب ارسلان کے ٹیپ ریکارڈر سے آواز آئی تو سمیر اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ وہ
بھاگا بھاگا گیٹ تک پہنچا تو ارسلان وہیں کھڑا ہو ا تھا۔
ارسلان اس کو دیکھ کر مسکرا دیا۔ سمیر جب اس کے قریب پہنچا
تو ارسلا ن نے اسے پنسل کا ڈبہ تھمادیا اور اشارے سے کہنے لگا۔
’’تمھارا شکریہ! یہ پنسلیں میری طرف سے تحفہ ہیں۔‘‘
سمیر نے پنسلیں تھام لیں اور مسکراتے ہوئے اندر چلاآیا۔
اب سمیر کو اجازت دیں کیونکہ اس کو دادی جان بلا رہی ہیں۔
انہوں نے جو نئی سویٹر بنی ہے وہ اس کی تصویر جنت دادو کو دکھانا چاہتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ لاہور میں رہتے ہیں تو ہو سکتا ہے کبھی آپ کو بھی
وہ ریکارڈر والی آواز آئے۔
’’گرم انڈے گرم قہوہ!‘‘
یہ ارسلان ہیں۔ آ پ ان سے کچھ نہ کچھ ضرور خریدیے۔ اور
ہاں! اپنے موبائل سے ہمیشہ ایسا کوئی ایک کام ضرور کریں جس سے دوسروں کو فائدہ
پہنچے۔ یہ جو ڈیوائس آپ کے ہاتھ میں ہے جس کو آپ موبائل یا ٹیب کہتے ہیں، یہ
اللہ پاک کی دی ہوئی ایک نعمت ہے اور اللہ پاک آپ سے پوچھ سکتے ہیں کہ آپ نے اس
نعمت کا کیا اچھا استعمال کیا۔موبائل کے ذریعے اچھی باتیں دوسروں تک پہنچائیے ! جی
ہاں! جیسے کہ یہ کہانی!! پھر کیا خیال ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی کہانی میں سمیر ملے گا ایک ایسے بچے سے جوآپ کی طرح
موبائل گیمز بہت زیادہ کھیلتا ہے اور پڑھائی کی طرف کم کم توجہ دے رہا ہے۔ پھر کیا
سمیر اس کو گیمز کی دنیا سے باہر نکال سکا! کیا وہ بچہ امتحان میں پاس بھی ہو سکا
یا نہیں! کیونکہ اس کے ابو نے اسے بائیسکل دلانے کا وعدہ کر رکھا تھا! یہ سب جاننے
کے لیے اگلی کہانی کا انتظار کیجیے!