چوزے واپس کرو


’’ہائے ہائے سلیم! یہ تو کیا کر رہا ہے؟‘‘ دادی جان چلائیں۔ ان کے چلانے کی آواز سن کر ہی امی کو اندازہ ہو گیا۔ سلیم نے ضرور خطرناک شرارت کی ہوگی۔ وہ جلدی سے چولہے کی آنچ  آہستہ کرتی ہوئی باہر آئیں۔

سلیم سیڑھیوں میں کھڑا ایک ایک کر کے چوزوں کو اڑا رہا تھا۔ بے چارے چوزے جو ابھی مشکل سے چلنا ہی جانتے تھے، چھوٹے چھوٹے پر پھڑپھڑاتے ، گرتے پڑتے سیڑھیوں سے نیچے آرہے تھے۔ انہیں چوٹیں بھی لگ رہی تھیں اور چوں چوں کر کے انہوں نے خوب شورمچایا ہوا تھا۔ سلیم اپنی ہی دھن میں تھا ۔ اس نے آخری چوزے کو بھی اٹھا کر سیڑھیوں سے نیچے پھینکا اور پھر خود بھی چھلانگیں لگاتا ہوا نیچے اتر آیا۔

’’سلیم! تجھے ذرا رحم نہ آیا ان بے زبانوں پر۔ دیکھ تو کیسے چوں چوں کر رہے ہیں۔‘‘ دادی جان نے خفگی سے کہا پھر سلیم کو امی کو پکار کر کہنے لگیں۔

’’بہو! میں نہ کہتی تھی ابھی اس کی عمر نہیں ہے چوزے پالنے کی۔ لیکن تم نے بس بچوں کی ہر ضد کے آگے ہار ماننی ہوتی ہے۔‘‘

سات سالہ سلیم اب صحن میں چوزوں کے پیچھے پیچھے بھاگنے میں مصروف تھا۔


جب سے یہ چھ چوزے گھر میں آئے تھے، سلیم کے مزے ہو گئے تھے۔ کبھی وہ ان کو ہاتھ پر چاول رکھ کر کھلاتا، کبھی چھوٹے سے کپ سے پانی پلاتا۔ رنگ برنگ چوزے بھی نئے گھر میں آکر بہت خوش تھے۔ آجکل ویسے بھی سردیوں کی چھٹیاں تھیں اور سکول بند تھے۔ سلیم نے پہلی تین چھٹیوں میں ہی چوزوں کے ساتھ کھیلنے کے شوق میں، سارا ہوم ورک ختم کر لیا تھا۔ سو اب ننھا سلیم تھا اور اس کے یہ چھ چوزے جو سارا دن اس کے آگے پیچھے پھرتے رہتے تھے۔

نیا پنجرہ بھی ٹھیکیدار انکل کی دکان سے لایا گیا تھا۔ اس کی سلاخیں سرخ رنگ کی تھیں اور ایک چھوٹا سا بھورے رنگ کا دروازہ تھا۔ چوزوں کے بیٹھنے اور کھڑے ہونے کے لیے باقاعدہ جگہیں بنی ہوئی تھیں۔ دو چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں بھی تھیں اس پنجرے میں جو کھلتی تو نہیں تھیں لیکن پیاری بہت لگتی تھیں۔ چوزوں کی بیٹیں پنجرے کے نیچے پڑی ٹرے میں جمع ہو جاتیں تو امی ٹرے کو دھو کر صاف کر دیتیں اور پھر سے پنجرے کے نیچے رکھ دیتیں۔

ہر روز سلیم نئے نئے کھیل چوزوں کے ساتھ کھیلتا۔ ایک دن اس نے سب چوزوں کو جوتے کے ڈبے میں بند کر دیا۔ امی پاس سے گزریں تو انہیں ڈبے میں سے چوں چوں کی آوازیں آئیں۔ انہوں نے جلدی سے ڈبے کا کور اتار کر چوزوں کو باہر نکالا۔ ایک اور دن سلیم تمام چوزوں کو کیاری میں ہی بھول گیا اور رات کو سو گیا۔ صبح جب دادی جان کی آنکھ کھلی تو کھڑکی سے کیا دیکھتی ہیں کہ چھ کے چھ چوزے دیوار کے ساتھ لگے سو رہے ہیں اور سردی سے ہلکا ہلکا کانپ بھی رہے ہیں۔ یہ تو شکر تھا کہ دیوار انگیٹھی والی تھی جو باہر سے خوب گرم تھی ۔ اس لیے چوزے بچ گئے ورنہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ۔

’’امی! یہ کب اڑنا شروع کریں گے؟‘‘ ایک دن سلیم نے گلابی رنگ کے چوزے کے پروں کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

امی ہنس پڑیں۔

’’بیٹا! چوزے اڑتے نہیں ہیں۔یہ بس ہلکی سی چھلانگ لگا سکتے ہیں۔‘‘

سو، آج  کے دن سلیم نے چوزوں کو اس ہلکی سی چھلانگ لگوانے کے چکر میں سیڑھیوں سے ہی نیچے گرا دیا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ اڑ رہے ہیں لیکن چوزے بے چارے سیڑھیاں اترنے کی کوشش میں گرتے ہی چلے گئے اور انہیں بالکل سمجھ نہ آئی کہ سلیم ایسا کیوں کر رہا ہے۔

 رات ہوئی تو سلیم نے سب چوزوں کو پنجرے میں بند کیا۔ ان کی کھانے کی پلیٹ میں نئے سرے سے ابلے ہوئے چاول ڈالے اور پانی بھی تازہ کر دیا۔

اب وہ پنجرے پر موٹاکپڑا ڈال رہا تھا تاکہ رات کو چوزوں کو سردی نہ لگ سکے۔اس طرح کرنے کو دادی جان نے ہی کہا تھا ورنہ سلیم کو پنجرے پر چادر ڈالنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس کا خیال تھا۔

’’اس طرح تو چوزوں کو کچھ نظر ہی نہیں آئے گا۔ پھر وہ اداس ہو جائیں گے۔‘‘

ابھی سلیم پنجرے کے پاس ہی  کھڑا تھا کہ  اتنے میں اس کے کانوں سے دادی جان کی آواز ٹکرائی۔

’’میں کہتی ہوں سلیم ابھی بہت چھوٹا ہے۔ چوزے نہیں سنبھال سکتا ۔ بس! کل ہی یہ چوزے واپس ٹھیکیدار کی دکان پر پہنچائے جائیں۔‘‘

امی جان کے جواب میں جی اچھا کہنے کی آواز آئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دودھ پتی کا خالی گلاس لے کر دادی جان کے کمرے سے نکلیں تو انہوں نے دیکھا۔ سلیم صحن میں خاموش کھڑا تھا۔ وہ ساری بات سن چکا تھا اور بہت اداس تھا۔امی نے اسے پیار کیا اور بولیں۔

’’دیکھو! دادی جان سخت خفا ہیں۔ صبح ہوتے ہی وہ چوزوں کو واپس کرنے کا حکم دے رہی ہیں۔ اگر تم دادی جان کو منا لو تو پھر بات ہے۔ ‘‘

سلیم کچھ سوچنے لگا پھر بولا۔

’’ٹھیک ہے امی۔میں دادی جان کو منا لیتا ہوں اور انہیں کہتا ہوں کہ چوزے ٹھیکیدار انکل کی دکان پر نہ لے کر جائیں۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ دادی جان کے کمرے میں دستک دے کر اندر گیا۔ دادی جان تسبیح پر کچھ پڑھ رہی تھیں۔ انہوں نے سلیم کو دیکھ کر منہ پھیر لیا تو سلیم جلدی سے آگے بڑھا اور دادی جان کے گھٹنوں پر سر رکھ کر بولا۔

’’اچھا دادی جان! آئی ایم سوری ۔پلیز ناراض نہ ہوں۔ اور چوزوں کو واپس نہ کریں۔ یہ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر سلیم کی آواز بھرا گئی تو دادی جان نےجلدی سے  اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔

’’میرا پیارا بیٹا! اچھا اب رونا نہیں۔یہ لو بادام کھاؤ اور میری بات غور سے سنو۔‘‘

دادی جان نے اسے اپنی گودمیں بٹھا کر اس کی ہتھیلی پرچند  بادام رکھے اوربولیں۔

’’جیسے تمھیں یہ چوزے بہت اچھے لگتے ہیں ایسے ہی یہ چوزے اس کو بہت اچھے لگتے ہیں جس نے ان کو بنا یا ہے۔ وہ ناراض ہوتا ہے جب ہم ان  کو کوئی تکلیف پہنچاتے ہیں۔ بھلا بتاؤ میں کس کی بات کر رہی ہوں؟‘‘

’’امم!‘‘ سلیم کنپٹی پرچھوٹی سی  انگلی رکھ کر سوچنے لگا۔ پھر بولا۔ ’’کس کی ؟ دادی جان!‘‘

’’اللہ پاک کی! میرے بیٹے! اللہ پاک نے ان کو ، مجھے اور تم سب کو پیدا کیا ہے۔ وہ اپنی مخلوقات سے یعنی ان سب چیزوں سے جو اس  نے بنائی ہیں ، بہت پیار کرتا ہے۔ اس کو اچھا نہیں لگتا جب ہم اس کے پیدا کیے ہوئے ان ننھے منے چوزوں کو نقصان پہنچائیں۔ ‘‘

دادی جان نے یہ کہہ کر سلیم کی ہتھیلی پر کچھ اخروٹ رکھے اور بولیں۔

’’تمھیں پتہ ہے جب تم نے ان کو سیڑھیوں سے نیچے پھینکا تو انہیں کتنی درد ہوئی؟‘‘

سلیم نے حیرت سے آنکھیں جھپکائیں جیسے کہہ رہا ہو اچھا واقعی۔ پھر کہنے لگا۔

’’دادی جان! جب میں سیڑھیوں چھلانگیں لگاتا ہوں تو مجھے تو درد نہیں ہوتی۔‘‘

’’وہ اس لیے کہ تمھاری ماشاءاللہ بڑی ٹانگیں ہیں۔ تم چھلانگ لگا سکتے ہو۔ چوزے بہت چھوٹے ہیں۔ وہ گھبرا جاتے ہیں اور اتنی اونچائی سے چھلانگ لگانا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہ گرتے رہے اور چوٹیں کھاتے رہے۔‘‘

’’اوہ! اوہ! اچھا! میں ان کو دوا لگا کر آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر سلیم اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔

’’نہیں! بیٹھو! میں بتاتی ہوں تمھیں اب کیا کرنا ہے۔ تمھیں ان کے نیچے گرم کپڑا جو میں تمھیں سینک کر دوں گی بچھانا ہو گا۔ اور دوسرا۔۔ تمھیں اپنے ہیرو کی بات ماننا ہو گی۔ اور بس!‘‘

دادی جان نے آخری جملہ ذرا پراسرار انداز میں کہا۔ سلیم حیرانی سے سوچنے لگا۔

’’ہیرو! کون ہیرو؟‘‘

’’ہمارے محمد ﷺ ہمارے ہیرو۔ جن کی بات مان کر ہمیں جنت ملتی ہے۔ اور اللہ پاک خوش ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ جانوروں کو تکلیف نہ پہنچاؤ۔ ان کا خیال رکھو۔ محمد ﷺ خودبھی جانوروں اور پرندوں پر بہت مہربان تھے اور ان سے بہت پیار کرتے تھے۔ ہاں! آپ ﷺ جانوروں کوکبھی  تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ وہ  ہمیشہ ان کے لیے پریشان ہو جایا کرتے تھے اور ان کے آرام کا  بہت خیال رکھا کرتے تھے۔مجھے اور تمھیں بھی وہی کرنا ہے جو نبی پاک ﷺ کیا کرتے تھے۔ ٹھیک؟‘‘

 دادی جان نے پوچھا تو سلیم ایک دم بول اٹھا۔

’’بالکل ٹھیک ! دادی جان! اب میں جاؤں؟‘‘

’’ہاں جاؤ! ویسے میں تمھیں ایک واقعہ سنانا چاہ رہی تھی جب ایک چڑیا محمد ﷺ کے پاس آکر پر پھڑپھڑانے لگی ۔‘‘ سلیم یہ سن کر جاتے جاتے رک گیا ۔ وہ واپس دادی جان کے بستر کے پاس آگیا اور بولا۔

’’سنائیں ناں دادی جان پلیز! نہیں میں تو نہیں جارہا ۔‘‘ یہ کہہ کر سلیم جلدی سے ٹانگیں بستر کے اوپر کر کے بیٹھ گیا۔ دادی جان ہنس پڑیں۔

’’دیکھو! رات گہری ہو گئی ہے ۔ لیکن میرا دل کرتا ہے بات کو مکمل کر دوں۔ اچھا تو سنو! ‘‘

اتنا کہ کر دادی جان نے سلیم کی ٹانگوں پر کمبل اوڑھایااور بولیں۔

’’ایک بار ایک صحابی نے ایک گھونسلے سے چڑیا کا انڈا اٹھالیا۔ چڑیا آئی اور حضورؐ کے سر پر پھڑپھڑانے لگی۔وہ حضورﷺ سے شکایت کر رہی تھی کہ کسی نے میرا انڈا اٹھا لیا ہے۔ تو حضور ﷺ نے پوچھا۔ ’’تم میں سے کس نے اس کے انڈوں کے بارے میں اسے دکھ پہنچایا ہے۔‘‘ تب ان صحابی نے کہا۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے اس کے انڈے کو اٹھا لیا ہے۔‘‘۔‘‘ یہ سن کر حضورﷺ نے فرمایا۔ ’’اس پر رحم کرتے ہوئے اس کے انڈے کو واپس رکھ دو۔ ‘‘ یعنی اس کے ساتھ پیار اور مہربانی سے پیش آؤ اور اس کا انڈہ واپس کرو کیونکہ اس کو  دکھ ہوا ہے، تکلیف پہنچی ہے۔ ‘‘

’’آہا! میرے محمد ﷺمیرے ہیروﷺ کتنے اچھے تھے!دادی جان!  میں بھی انہی جیسا بنوں گا!‘‘

’’میرا پیارا بیٹا!‘‘ دادی جان نے سلیم کوگود میں بھر کر پیار کیا۔

جب سلیم دادی جان کے کمرے سے باہر آیا تو اسے ہلکی سی چوں چوں کی آواز آئی۔ اس نےجلدی سے پنجرے کا کپڑا ایک طرف سے ہٹا کر اندر جھانکا۔

سب چوزے سو رہے تھے سوائے ایک چوزے کے۔ وہ ذرا الگ ہو کر کھڑا ہو ا تھا اور ہلکی سی آواز میں چوں چوں کر رہا تھا۔

’’سوری ! شاید تمھیں درد ہورہی ہے۔ اچھا! یہ لو! دادی جان نے تمھارے لیے یہ گرم کپڑا سینک کر بھیجا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے سلیم نے احتیاط کے ساتھ چوزوں کے نیچے وہ کپڑا بچھایا۔ چوزے نیند سے جاگے پھر نئے صاف اورنرم گرم کپڑے پر بیٹھتے ہی گہری نیند سو گئے۔ چوں چوں کرنے والا چوزہ بھی اب آرام سے سو رہا تھا۔ سلیم کو انہیں یوں سکون سے سوتا دیکھ کر دل سے خوشی ہوئی۔

’’میں نے آج اپنے پیارے ہیرو محمد ﷺ کا  واقعہ دادی جان سے سنا ہے۔ میں آپ ﷺ سے بہت محبت کرتا ہوں۔ میں ان جیسا بننا چاہتا ہوں۔ میرے حضور میرے محمدﷺ میرے ہیرو ہیں۔میرے ہیرو جانوروں سے پیار کرتے تھے اور انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچاتے تھے۔ میں بھی اب ایسا ہی کیا کروں گا۔ اتنی رات کو میری باتیں سننے کےلیے تھینک یو ڈائری!‘‘

یہ لکھ کر  کر سلیم نے پین  اور ڈائری میزکے دراز میں رکھی اور بستر کی طرف بڑھ گیا۔